ڈاکٹررقیہ جمال افسانچوں میں زندگی کا ہر پہلو ملتا ہے-پروفیسر سید عین الحسن

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 24-09-2023
ڈاکٹررقیہ جمال افسانچوں میں زندگی کا ہر پہلو ملتا ہے-پروفیسر سید عین الحسن
ڈاکٹررقیہ جمال افسانچوں میں زندگی کا ہر پہلو ملتا ہے-پروفیسر سید عین الحسن

 



حیدرآباد، 22ستمبر (پریس نوٹ)"ڈاکٹر رقیہ جمال نے اپنے افسانچوں کے موضوعات اپنے ماحول اور معاشرے سے لیے ہیں اور موجودہ عہد کے سلگتے مسائل کو فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کے افسانچوں میں زندگی کا ہر پہلو ملتا ہے۔ انہوں نے انسانی زندگی کے علاوہ حیوانات کی زندگی کو بھی موثر ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ ان کے افسانچے غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں" ان خیالات کا اظہار پروفیسر سید عین الحسن، شیخ الجامعہ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے کل شعبہ اردو، مانو اور شعبہ اردو چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ کی جانب سے مشترکہ طور پر منعقدہ افسانچوں کے مجموعے "غول" کے اجرا کے موقعے پر کیا۔ انہوں نے رقیہ جمال کو ان کے پہلے مجموعے کی اشاعت پر مبارکباد دیتے ہوئے مزید کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ زندگی اور ادب میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ داستانوں کے بعد ناول، ناول کے بعد افسانے اور اب افسانچے لکھے جارہے ہیں۔

جلسے کی مہمان خصوصی پروفیسر عزیز بانو، ڈین اسکول برائے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات نے کہا کہ رقیہ جمال کا تعلق اڈیشا سے ہے جو اردو کا کوئی روایتی مسکن نہیں ہے۔ ایک غیر اردو داں علاقے میں رہ کر وہ اردو کی خدمت کر رہی ہیں اور اپنے افسانچوں اور اڑیا ادب کا اردو میں ترجمہ کر کے ہمیں استفادہ کا موقع دے رہی ہیں۔ ا ±ن کے افسانچوں میں سماج و معاشرہ کی پیچیدگی اور حقیقت نظر آتی ہے۔ دوسرے مہمان خصوصی پروفیسر اسلم جمشید پوری، صدر شعبہ اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ نے کہا کہ مانو کے شعبہ اردو نے اتنے قلیل عرصے میں ملک کے اردو شعبوں میں اپنا نمایاں اور انفرادی مقام حاصل کیا ہے۔ یہاں کے طلبہ اور اساتذہ اپنی صلاحیت و قابلیت کی بنا پر ہر جگہ اپنی چھاپ چھوڑنے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے رقیہ جمال کے افسانچوں کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ رقیہ جمال ان نئی افسانچہ نگاروں میں شامل ہےں جنہوں نے اتنی کم عمری میں اچھے افسانچے لکھ کر قارئین کو چونکایا ہے۔

رقیہ جمال نے اپنی کتاب کی بہ حسن و خوبی رسم اجرا پر تمام مہمانان بالخصوص چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی اور شعبہ اردو مانو کا شکریہ ادا کیا۔

ابتدا میں صدر شعبہ اردو پروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی نے تمام مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور شیخ الجامعہ کا شکریہ ادا کیا کہ وہ شعبے کی ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔انہوں نے ڈاکٹر رقیہ جمال کو افسانچوں کو مجموعہ کی اشاعت کے لیے مبارک باد پیش کی۔

پروفیسر مسرت جہاں، استاد شعبہ اردو، مانو نے رقیہ جمال کے افسانچوں کی نمایاں خصوصیات سے واقف کراتے ہوئے کہا کہ یہ افسانچے ہماری روزمرہ زندگی سے تعلق رکھنے والے موضوعات و مسائل کا احاطہ کرتے ہیں۔ معروف فکشن نگار محترمہ قمر جمالی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے جلسے میں شریک نہ ہو سکیں لیکن انہوں نے اپنا مضمون ارسال کیاجس میں رقیہ جمال کے افسانچوں کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ تقریب رسم اجرا میں ڈاکٹر کہکشاں لطیف، ڈاکٹر ظفر گلزار اور ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے بھی مجموعے "غول"پر تنقیدی مقالے پیش کیے۔ اس موقعے پر ڈین بہبودی طلبہ پروفیسر سید علیم اشرف جائسی، ڈائرکٹر مرکز مطالعات اردو ثقافت پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی، ڈپٹی ڈائرکٹر ڈاکٹر احمد خان، صدر شعبہ ترجمہ ڈاکٹر سید محمود کاظمی، نظامت ترجمہ واشاعت کے ڈاکٹر اسلم پرویز، شعبہ اردو، یونیورسٹی آف حیدرآباد کے اساتذہ ڈاکٹر عبدالرب منظر اور ڈاکٹر محمد کاشف، شعبہ اردو مانو کے اساتذہ ڈاکٹر بی بی رضا خاتون، ڈاکٹر ابو شہیم خان، ڈاکٹر محمد اختر، ڈاکٹر جابرحمزہ، ڈاکٹر بدر سلطانہ کے علاوہ طلبہ و طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔ ڈاکٹر شاداب علیم استاد شعبہ اردو میرٹھ یونیورسٹی نے نظامت کی۔ جلسے کا آغاز ایم اے اردو کے متعلم محمد عبدالواجد کی قراتِ کلام پاک سے ہوا۔ ڈاکٹر فیروز عالم، اسوسیٹ پروفیسر، شعبہ اردو، مانو کے اظہار تشکر پر تقریب کا اختتام عمل میں آیا۔