ہم سرسید سے آگے کیا پیچھے بھی نہیں ہیں ۔ اختر الواسع

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-12-2021
ہم سرسید سے آگے کیا پیچھے بھی نہیں ہیں ۔ اختر الواسع
ہم سرسید سے آگے کیا پیچھے بھی نہیں ہیں ۔ اختر الواسع

 

 

منصور الدین فریدی: آواز دی وائس

ہم کو یہ سوچنا ہوگا کہ اگر سرسید نہ ہوتے تو آج ہم کہاں ہوتے۔دوسری بات یہ اہم غور طلب ہے کہ سرسید احمد خان کے انتقال کو آج 123 سال گزر چکے ہیں کیا زبانی فرق کے ساتھ ہم سرسید کے آگے ہیں جوہونا چاہیے تھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے ہم آگے کیا پیچھے بھی نہیں ہیں ۔

ان خیالات کا اظہار ہفتہ کو ممتاز دانشور اور اسلامی اسکالر پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے کیا ۔ وہ ممتاز صحافی محمد وجیہہ الدین کی کتاب ‘‘ دی میکنگ آف دی ماڈرن انڈین مسلم ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی’’ کی رسم اجرا میں خطاب کررہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مصنف وجہہ الدین کی کتاب اسی پریشانی کو سامنے رکھکر لکھی گئی ہے۔ اس کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی برائی نہیں سمجھنی چاہیے۔اس کو کسی کے خلاف تنقید بھی نہیں سمجھنا چاہیے۔ یہ ایک سوچ ہے جس سے ہم اور آپ اختلاف کر سکتے ہیں لیکن ان کی نیک نیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔

 اختر الواسع نے مزید کہا کہ جب بھی کوئی اصلاحی کام کرتا ہے تو وہ معاشرے میں نشانہ بنتا ہے۔ شاید اسی لیے اکبرالہ بادی نے جو کہ سرسید کے ناقد بھی تھے اور مداح بھی کہا تھا کہ ۔۔ قوم کی خدمت کروتو قوم کی گالی سنو ۔انہوں نے کہا کہ در اصل اس قسم کے معاملات میں ہم قوم کی گالی اور تالی کے عادی ہوگئے ہیں۔

 پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ سب نے اپنی اپنی رائے پیش کی ،کسی نے مصنف کے نظریہ سے اتفاق کیا تو کسی نے نہیں ۔ یاد رہے کہ اس کتاب میں جدید ہندوستانی مسلمان کی ترقی میں اے ایم یو کے اہم کردار کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جیسا کہ اے ایم یو کے سابق طالب علم اور اس کے سابق وائس چانسلر اور سابق صدر ہند ذاکر حسین نے پچاس سال قبل کہا تھا کہ علی گڑھ جس طرح قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں حصہ داری کرے گا اس سے ہندوستان کی قومی زندگی میں مسلمانوں کی جگہ کا تعین ہوگا۔ہندوستان کا علی گڑھ کے ساتھ جو رابطہ ہوگا اس سے بڑی حد تک یہ تعین ہوگا کہ مستقبل میں ہماری قومی زندگی میں کیا  شکل ہوگی۔

 

کتاب کی رسم اجرا پر مہمانوں میں اس موضوع پر اختلاف رائے نظر آیا ۔مہمان خصوصی پروفیسر سلمان خورشید نے اس کتاب کو اس دور میں بروقت مداخلت قرار دیا جب یونیورسٹی سرسید کے نظریات سے خود کو دور کرتی نظر آتی ہے۔ مار اس کے ساتھ ہی ریٹائرڈ جنرل ضمیر الدین شاہ نے کہا کہ کتاب نے بطور وائس چانسلر مدرسہ کے طلباء کے لیے برج کورس متعارف کرانے کے ان کے قدم کی غلط تشریح کی ہے، لیکن مجموعی طور پر اس میں یونیورسٹی کے بگاڑ کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

دوسری جانب سیدہ سیدین حمید نے امید ظاہر کی کہ مصنفہ ان تمام خواتین کا احاطہ کرنے کے لیے ایک اور کتاب لکھیں گی جو اس کتاب میں شامل نہیں ہیں۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پچھلے بہت سے کاموں کی طرح، یہ کتاب اے ایم یو کی ترقی میں خواتین کے کردار کو تسلیم کرنے سے کم ہے۔

یاد رہے کہ محمد وجیہہ الدین ٹائمز آف انڈیا ممبئی کے سینئر اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔ اس سے قبل وہ انڈین ایکسپریس اور ایشین ایج کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔ اردو شاعری کےمداح ، وہ ایک بلاگر بھی ہیں اور ان مسائل پر بھرپور انداز میں لکھتے ہیں جو ہندوستانی مسلمانوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہیں اور عام طور پر ملک پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

کتاب کی رسم اجرا میں سابق مرکزی وزیر اور کانگریس لیڈر سلیمان خورشیدسابق  ممبر پارلیمنٹ محمد ادیب ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جنرل ضمیر الدین شاہ  سمیت متعدد خاص مہمانوں نے شرکت کی ۔

awazurdu

کتاب کی رسم اجرا کے موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مہمان اور سامعین 


اس پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سابق ممبر پارلیمنٹ محمد ادیب نے وجیہہ الدین کی کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس کتاب سے لوگوں کو یونیورسٹی کے حقیقی نظریات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ مجیب الرحمن نے مصنف کے صحافتی انداز کو سراہتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا کہ اس مطالعے کو معاشرے کے دیگر پہلوؤں تک کیسے وسیع کیا جا سکتا ہے۔

یاد رہے کہ دسمبر 1920 میں، محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کوجسے 1877 میں سر سید احمد خان نے قائم کیا تھا اے ایم یو میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ سرسید نے برصغیر کے مسلمانوں کو جدیدیت کے جذبے سے روشناس کرنے کے لیے آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس بھی قائم کی۔ اس سے 1857 کی بغاوت کے نتیجے میں تباہ ہونے والی قوم کو نئے چیلنجوں کے لیے تیار کرنے میں مدد ملی۔

مگر وجیہہ الدین نے کہا کہ یہ کتاب یونیورسٹی کو خراج تحسین ہے جس نے انہیں سوچنا سکھایا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ وہ اے ایم یو میں زیادہ دیر تک نہیں رہ سکے۔ ان کے خیال میں اے ایم یو اپنی پرانی شان کھو چکی ہے اور مسلم قیادت نے ادارے کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ کتاب ادارے کے شاندار ماضی کو زندہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس کتاب نے ایک بار پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور مسلمانوں کے تعلیمی مزاج کے ساتھ مسلم سیاست کو موضوع بحث بنا دیا ہے۔