'اسکول' کے لیےووٹ۔ افسانہ بیگم کوچنا گیا 'مکھیا'

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 16-11-2021
اسکول کے قیام کےلئے پورےگاؤں نے افسانہ بیگم کوچنامکھیا
اسکول کے قیام کےلئے پورےگاؤں نے افسانہ بیگم کوچنامکھیا

 

 

سلطانہ پروین، پورنیا

ککرون پنچایت کے کھنوہا گاؤں کی رہنے والی افسانہ بیگم اس دکھ سے کبھی نہیں نکل سکیں کہ وہ صرف آٹھویں جماعت تک ہی پڑھ سکیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کے گاؤں کی دوسری لڑکیاں اس طرح کے درد کا شکار ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عوامی نمائندہ بن کر گاؤں اور گاؤں کی لڑکیوں کے لیے کام کرنے کا سوچا۔

ہندو۔مسلم ایکتاکی مثال

بہار میں پنچایت الیکشن 2021 ہو رہا ہے۔ سیمانچل میں ہونے والے انتخابات ہندو مسلم اتحاد کی ایک مثال پیش کر رہے ہیں۔ کہیں ہندو اکثریتی علاقے میں کوئی مسلم امیدوار بلا مقابلہ مکھیا منتخب ہو جاتا ہے تو کہیں پڑھے لکھے امیدوار کو ترجیح دی جاتی ہے۔ کہیں ایسا ہو رہا ہے کہ افسانہ جیسی آٹھویں پاس خواتین امیدوار بھی بھاری ووٹوں سے جیت رہی ہیں۔

افسانہ ہی کیوں؟

اس بار دھمداہا پنچایت کے ککرون مغربی پنچایت سے لوگوں نے افسانہ بیگم کومکھیا منتخب کیا ہے۔ فتح کے بعد افسانہ کہتی ہیں کہ وہ درد بھی محسوس کرتی ہیں اور پچھتاوا بھی ہے کہ انھیں پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ اگر ان کے گاؤں میں تعلیم کا نظم ہوتا تو وہ آٹھویں جماعت تک نہ رکتیں۔

اس لیے ان کی دلی خواہش ہے کہ وہ اپنے گاؤں کی لڑکیوں کو یہ تکلیف نہ سہنے دیں۔ آنے والے دنوں میں اپنے گاؤں میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم کا انتظام کرنا ہے۔ تاکہ گاؤں کی لڑکیوں کو کم از کم انٹر تک پڑھنے کا موقع مل سکے۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کی پنچایت میں ہندو اور مسلم ووٹرس تقریباً برابر ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد قدرے زیادہ ہے۔ سبھی طبقوں نے انھیں ووٹ دیا۔خاص طور پرعلاقے کی خواتین نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ہر برادری کی خواتین کا درد یہ ہے کہ علاقے میں تعلیم کا کوئی نظام نہیں ہے۔ علاقے کی بیٹیاں چاہ کر بھی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔

کیسے بیٹی پڑھائو؟

علاقے کی خواتین یہ سن کر رہ جاتی ہیں کہ بیٹی کو پڑھانا چاہیے۔ جب تعلیم کا نظام ہی نہیں تو بیٹیوں کو تعلیم کیسے دی جائے؟ افسانہ بیگم کہتی ہیں کہ گاؤں کی خواتین وزیر اعظم کا ’’بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ‘‘ کا خواب تو سنتی ہیں لیکن اس پر عمل کرنے سے قاصر ہیں۔

اس لیے بطور مکھیا وہ پہلی کوشش کریں گی کہ ان کے اپنے گاؤں کھنوہا میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم کا نظم ہو۔ اس وقت آٹھویں جماعت تک پڑھنے کے لیے صرف ایک اسکول ہے۔ اس وقت بچوں اور بچیوں کو میٹرک پڑھنے کے لیے آٹھ کلو میٹر دور جانا پڑتا ہے۔

ایک اور انوکھی مثال

awazurdu

شیخ پورہ ضلع پورنیہ کی ایک پنچایت ہے۔ اس پنچایت میں تقریباً چھ ہزار ووٹر ہیں۔ ہندو اور مسلم دونوں برادریوں کے ووٹر برابر ہیں۔ اس کے بعد بھی ہندو مسلم اتحاد اور دونوں برادریوں کے درمیان بھائی چارہ ایسا ہے کہ مسلم امیدوار نے بلامقابلہ مکھیا کا انتخاب جیتا۔

علاقے کے لوگ ظفر عالم عرف جفو بھیا سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ کوئی ان کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا۔ معاملہ سال 2015 کا ہے جب بہار میں پنچایت انتخابات ہو رہے تھے اور بیجو یادو نے جفو بھیا کے خلاف پرچہ داخل کیا تھا۔

جب انتخابی نتائج آئے تو بیجو یادو کو صرف ایک ووٹ ملا۔ بیجو یادو کو ان کے علاوہ ان کے خاندان کا ووٹ بھی نہیں ملا۔ یہاں تک کہ بیجو یادو کے گھر والوں نے بھی جفو بھیا کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔

ایسا گاؤں کہیں بھی نایاب ہو گا جہاں ظفر عالم جیسے لوگ ہر برادری کے لوگوں کو مطلوب ہوں اور یہ خواہش ہو کہ مخالف امیدوار کی بیوی بھی اپنے شوہر کو ووٹ نہ دے کر ظفر عالم کو ووٹ دے۔ ایسا ہے سیمانچل اور ایسے ہیں سیمانچل کے ہندو اور مسلمان۔

کیاکہتے ہیں ظفرعالم؟

ظفر عالم عرف جفو بھیا کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں یہ رواج 70 سے جاری ہے۔

اسی طرح کا اتحاد علاقے میں گزشتہ 70 سالوں سے برقرار ہے۔ علاقے کے رہنے والے سنجے یادو کا کہنا ہے کہ ہمیں ترقی کی فکر ہے۔ جفو بھیا اور ان کا خاندان ہمیشہ گاؤں کے ساتھ کھڑا ہے۔ ہمیں ذات سے کیا لینا دینا، راجیش یادو، وپن ساہ، دنیش منڈل اور رنجیت منڈل کہتے ہیں۔ ہم کئی دہائیوں سے ساتھ ہیں اور مستقبل میں بھی رہیں گے۔