'محمد ریاض:حجامت کےساتھ شاعری کی'سوغات

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 05-11-2021
محمد ریاض بال کاٹتے ہوئےسناتےہیں شعر
محمد ریاض بال کاٹتے ہوئےسناتےہیں شعر

 

 

دولت رحمان/گوہاٹی

عہدغالب میں شہرشاہجہان آباد یعنی پرانی دہلی میں ایک ناخواندہ شخص تھے جوشاعری کرتے تھے۔وہ نائی کا پیشہ کرتے تھے اوراکثر اپنے گاہکوں کو بال کاٹتے ہوئے شعر بھی سناتے تھے۔ وہ حجام دہلوی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ایسے ہی ایک صاحب آسام میں بھی ہیں جوبالوں پر قینچی چلاتے ہوئے شعر بھی سناتے جاتے ہیں۔ ان کا نام ہے محمدریاض احمدہے۔

ان کے گاہکوں میں سیاست دان ، بیوروکریٹس، پولیس اہلکار، اداکار ، کھلاڑی، طلبہ سب شامل ہیں۔بہت سےوالدین بھی اپنےچھوٹے بچوں کو ان کے پاس لاتے ہیں۔ محمد ریاض کوبچپن سے ہی اردو شاعری سے گہرالگائوہے۔ ماضی میں انہوں نے دوہے پر ایک کتاب لکھی تھی — جستجوئے ریاض--- جس میں انھوں نے زندگی اور جمالیات کو پیش کیاتھا۔

awaz

وہ بہت دنوں سے شاعری کے ذریعے قومی یکجہتی اور بھائی چارے کے پیغام کو عام کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی خوبصورتی تنوع میں ہے۔ میرا ملک دنیا کی سب سے خوبصورت جگہ ہے کیونکہ یہ مختلف ذات، برادری اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کو اپناتا ہے۔ لہذا، میں اردو میں سطریں لکھ کر ایک جامع اور متنوع ہندوستان کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ بھائی چارہ کا میری شاعری میں پیغام ہے۔

محمدریاض احمد بہار کے سیوان ضلع میں پیدا ہوئے اور یہیں پرورش پائی۔انھوں نے کسی رسمی اسکول میں داخلہ نہیں لیا لیکن وہ بچپن سے ہی شعر کہتے ہیں اور گاتے ہیں جس نے بہت سے لوگوں کو مسحور کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرے والد اپنے دن بھر کے کام کے بعد اردو میں شاعری اور ہندی گانے سنتے تھے۔ یہ واقعی میرے لئے بہت حوصلہ افزا تھا۔

ریاض اب تک شاعری سنانے کے لیے کئی مقامات کا سفر کر چکے ہیں۔ جمشید پور میں، انھوں نے قوالیاں پیش کیں اورعوام سے داد حاصل کی۔ ان کا کہناہے کہ والد کی موت کے فوراً بعد، میں نے محسوس کیا کہ شعر لکھنے اور سنانے سےمجھے اپنی روزی کمانے میں مدد نہیں ملے گی لہذا، میں نے اپنے اور اپنے خاندان کے لیے روزانہ کی روٹی کمانے کے لیے کچھ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کام کے لئے گوہاٹی آگیا۔

میں نے ابتدائی طور پر 1975 میں گوہاٹی کے فینسی بازار میں ایک ہیئر کٹینگ سیلون قائم کیا۔ دو سال کے بعد میں نے اپنے ہیئر ڈریسنگ سیلون کو بی بوروہ کالج روڈ پر اس کی موجودہ جگہ پر منتقل کیا۔ اس کے بعد میں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ گوہاٹی میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی محبت اور حمایت نے مجھے برقرار رکھنے میں مدد کی ہے۔

محمد ریاض نے کہا کہ جب سے ان کے دو بیٹوں نے ہیئر ڈریسنگ کا کاروبار سنبھالا ہے، انھوں نے اپنے پسندیدہ پیشے کو زیادہ وقت دینا شروع کر دیا ہے۔ ’’میں اپنی روح کی تسکین کے لیے شاعری کرتا ہوں اور یہ زندگی کی آخری سانس تک جاری رہے گی۔ آسام ایک چھوٹا ہندوستان ہے۔

یہ متنوع ثقافت، مذہب اور نسل کی سرزمین ہے۔ آسامی لوگوں میں تمام لوگوں کو گلے لگانے کی فطرت ہے۔ آسام میں رہنے کے بعد جہاں مذہب کبھی بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، میں اپنی شاعری کے ذریعے بھائی چارے اور اتحاد کے جذبات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں،" ریاض نے آوازدی وائس سے بات کرتے ہوئےکہا۔