جانیے : امریکہ میں عید کی رونق اور خوشی کے رنگ

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | 11 Months ago
 جانیے : امریکہ میں عید کی رونق اور خوشی کے رنگ
جانیے : امریکہ میں عید کی رونق اور خوشی کے رنگ

 

 واشنگٹن : رمضان کے ایک مہینے کے روزوں کے بعد امریکی مسلمان ، دنیا کے کسی خطے کے مسلمانوں کی طرح ہی، اپنے خاندان ، دوستوں اور احباب کے ساتھ عیدالفطر کے دن کھانے پینے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اسلام امریکہ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار سوشل پالیسی اینڈ انڈرسٹینڈنگ کے مطابق امریکہ میں مساجد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

پورے ملک میں تقریباً 3ہزار مساجد ہیں۔ مساجد کی سب سے زیادہ تعداد والی ریاستیں مندرجہ ذیل ہیں۔ نیویارک میں مساجد کی تعداد 343ہے تو کیلیفورنیا میں 304، ٹیکساس میں 224 ہے تو فلوریڈا میں 157اور نیو جرسی میں 141۔ امریکہ میں رہنے والے لاکھوں مسلمان امریکیوں میں سے بہت سے عید الفطر منانے کے لیے خصوصی عبادت اور دعوتوں کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔

عید الفطر ماہ رمضان کے اختتام پر منائی جاتی ہے۔ بہار گوڈانی اور عسرہ غازی دونوں ہی واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے مسلمان وفاقی ملازمین کے موزیک نامی احباب کے ایک گروپ کے رکن ہیں۔ اُن کی عید کی پسندیدہ تقریبات کا مرکز خاندان اور دوست ہوتے ہیں۔ گوڈانی نے شیئر امریکہ کو بتایا ’’ میں ہر سال اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ورجینیا میں عید کی نماز کے لیے اپنی مقامی مسجد میں جاتا ہوں۔

ہمارے لیے بہت سارے مختلف لوگوں اور ثقافتوں کو عید مناتے ہوئے ایک جگہ اکٹھا دیکھنا اور سب کو خوبصورت روایتی لباس پہنے دیکھنا ہمیشہ کی طرح واقعی ایک خوبصورت منظر ہوتا ہے۔ آپ کو ہمیشہ کی طرح بہت سارے مسکراتے ہوئے چہرے اور ادھر ادھر بھاگتے بچے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بہت ہی پیارا ماحول ہوتا ہے۔

غازی بچپن کی عیدوں کو یاد کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ وہ اپنے والدین سے روایتی ’عیدی‘ وصول کرنا پسند کرتی تھیں۔ جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئیں تو اُن کے بقول ’’ یہ دن حقیقت میں دوستوں اور اپنے اہل خانہ کو دیکھنے کا ایک موقع بن گیا جن سے میں سب سے زیادہ پیار کرتی ہوں۔‘ اصلاح عطر فوٹوگرافر ہیں۔

انہوں نے این پی آر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس سالانہ تہوار کو کچھ یوں بیان کیا ’’ دوپہر 2بجے کا وقت ہے۔ میں اور میرے بھائی بہن ریاست اوہائیو کے گھر کے سن روم میں ایک قطار میں کھڑے ہوکر فلافل سینڈوچ تیار کر رہے ہیں ۔ ہم انہیں صبح عید کی نماز کے لیے تیار کر رہے ہیں اور انہیں نمازیوں میں تقسیم کریں گے۔ اب یہ ہمارے خاندان کی ایک سالانہ روایت بن گئی ہے۔

اگرچہ یہ کام تھکا دینے والا ہوتا ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ اس میں اجر وثواب ہے۔ کھانے پکانے کی خاندانی ترکیبوں سے خود لطف اندوز ہونے اور دوسروں کو اِن کے بارے میں بتانے کے علاوہ، مسلمان امریکی عید پر نئے کپڑے پہننے کے بھی منتظر ہوتے ہیں۔

میلانی الترک، لینا الجہیم اور عینارا میڈائنا جیسی فیشن ڈیزائنرز عید کے خصوصی ڈیزائن لے کر آتی ہیں۔ اُن کا شمار مسلم امریکی کاروباری مالکان کے ایک ابھرتے ہوئے اور ترقی پزیر گروپ میں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کاربن کی آلودگی کو کو کم کرنے کے لیے ان کے برانڈوں میں شامل حجاب شیفون کے ہوتے ہیں جنہیں ری سائیکل شدہ پلاسٹک کی بوتلوں سے بنایا جاتا ہے۔اسی طرح بُنے ہوئے حجاب قابل تجدید بانس سے تیار کیے جاتے ہیں۔

میڈائنا کہتی ہیں ’’ اسلامی نقطہ نظر سے ہمیں زمین کا خیال رکھنے اور اس کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماحولیاتی حوالے سے ہم اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور ماحولیات اور اس کے بعد اس پر رہنے والی کسی بھی مخلوق کو نقصان نہ پہنچائیں الجہیم بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ کام کرنے کے پائیدار اور اخلاقی طریقے ہمیشہ ’’اور خاص طور پر عید کے موقعوں پر ‘‘ اہم ہوتے ہیں۔ 

   بشکریہ اسپین