ہری پوکھرا:جہاں ہندووں کے ساتھ مسلمان بھی مناتے ہیں کالی پوجا

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 09-11-2023
 ہری پوکھرا:جہاں ہندووں کے ساتھ مسلمان بھی  مناتے ہیں کالی پوجا
ہری پوکھرا:جہاں ہندووں کے ساتھ مسلمان بھی مناتے ہیں کالی پوجا

 



جاوید اختر ۔ کولکتہ 

مغربی بنگال فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال مانا جاتا ہے ،جہاں ہندو مسلمان مل کر زندگی گزارتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل رہتے ہیں۔ایک دوسرے کے اتسو میں بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہاں کی سرکار کا یہ نعرہ ہے کہ مذہب الگ ہوسکتا ہے لیکن اتسو سبھی کا ہے۔ اسی نعرے کے ساتھ لوگ ایک دوسرے کے تہواروں میں شامل ہوتے ہیں ۔بنگال میں بہت سی ایسی جگہ ہے جہاں ہندو ، مسلمانوں کے تہواروں میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لیتے ہیں۔ اسی طرح کئی ایسے تہوار ہیں جہاں مسلمان ، ہندووں کے تہواروں میں بڑھ چڑھ حصہ لیتے ہیں۔ایسے کئی تہوار ہیں جس کی مثال دی جاسکتی ہے لیکن ہری پوکھر ایک ایسی جگہ ہے جہاں صدیوں سے ہندو مسلمان مل کر کالی پوجا مناتے ہیں۔

بنگال کا وہ مندر جہاں دیوی کالی کے چلنے کی آواز سنا ئی دیتی ہے

درگا پوجا کے بعد اب لوگ کالی پوجا میں مصروف  گئے ہیں۔ایسے موقع پر دیوی کالی سے کئی طرح کے معزات جوڑے جاتے ہیں۔ ان میں ہندوستان اور بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب واقع ہلی علاقہ کا کالی پوجا ہے۔ جس کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ دیوی کالی کے چلنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ جس طرح تارا پیٹھ سے لوگ معززہ جوڑتے ہیں۔ تارا پیٹھ جسے شکتی پیٹھ بھی کہا جا تا ہے اس کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ دیوی تارا کو سائے میں  بکروں کا خون پیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ جو ان کی قربان گاہ پر ہر روز قربان کئے جاتے ہیں۔ان کے غصے کو ٹھنڈا کرنے اور ان کی مدد یہاں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں یاتریوں کی بھیڑ ہوتی ہے۔ سیاسی لیڈران بھی اکثر یہاں کا دورہ کرتے ہیں۔

یہ مندر کہاں ہے؟

جنوبی دیناج پور کا ضلع ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سرحد پر پھیلا ہوا ہے، جس کے مرکز میں دریائے یمنا کے کنارے پر ایک قدیم قصبہ ہلی ہے۔یہ علاقہ تین منھ والی ندیوں کے قریب ہے۔ جہاں تین ندیوں کے دہانے آکر ملتے ہیں۔یہاں ہلی علاقے میں کالی پوجا کا اہتمام کیا جا تاہے۔ یہاں کالی پوجا کے دنوں میں لوگوں کی کافی بھیڑ ہوتی ہے۔ بنگال کے علاوہ بنگلہ دیش سے بھی لوگ اس پوجا میں حصہ لینے کےلئے آتے ہیں۔یہاں یہ پوجا سینکڑوں سال سے ہورہی ہے۔یہاں عقیدت مند تین دنوں تک دیوی کالی کی پوجا کرتے ہیں۔عبادت گزاروں کی تعداد کافی ہوتی ہے۔ دو ر دراز سے لوگ یہاں اس قدیم میلے میں شرکت کےلئے آتے ہیں۔مقامی روایت کے مطابق یہ پوجا یہاںسینکڑوں سالوں سے ہورہی ہے۔

مند ر سے کس طرح کی آواز آتی ہے

مندر کے قیام کے دوران کچھ تاریخی معلومات کا انکشاف ہوا، جس میں دیوی کے خوفناک معجزات کا انکشاف ہوا۔ہلی بلاک میں قدیم کالی ماتا مندر میں سالانہ پوجا کا اہتمام کیا جا تا ہے۔ نو دن قبل سے یہ شروع ہوتا ہے۔ اور نو دنوں تک پوجا ہوتی ہے۔یہ پوجا بھی شیڈول کے مطابق ہوتی ہے۔ تقریباً 5,000 عقیدت مند پوجا کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ اس دوران لاکھوں لوگ مندر جاتے ہیں۔ روایت کے مطابق سالانہ پوجا صبح کے وقت شروع ہوتی ہے۔ خواتین صبح سے ہی مندر میں آتی ہیں، دوپہر کو بکرے کی قربانی ہوتی ہے۔ لاکھوں عقیدت مند پوجا اور میلے کے لیے مندر کے میدان میں جمع ہوتے ہیں۔پوجا کمیٹی کے ایک رکن، دیبو لال منڈل کا کہنا ہے کہ کووڈ-19 کے دو سال بعد، اس سال سب سے زیادہ بھیڑ دیکھنے میں آئی ہے۔ لیکن ہم نے سب کچھ ٹھیک ترتیب دیا ہے۔

ہم نے شروع سے ہی پوجا کے تمام اصولوں پر عمل کیا ہے۔ دور دور سے لوگ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اکٹھےہوتے ہیں۔ عام طور پر، ہمارے پاس تین دن تک میلے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس سال میلے میں سامانوں فروخت بھی اچھی رہی ہے۔

میلے میں ہندووں کے ساتھ مسلمان بھی حصہ لیتے ہیں

اس مندر کے بارے میں کہا جا تاہے کہ دیوی کو اکثر دیگر معجزات کے علاوہ مندر کے میدان میں پازیب کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ویسے وثوق کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ لیکن مندر سے جڑے لوگوں کو کہنا ہے کہ یہاں میدان میں دیوی کالی کو پازیب کی آواز کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ اس میلے کے موقع پر علاقے میں ہندو اور مسلم دونوں برادریاں خوشی منانے کے لیے اکٹھے ہوتی ہیں۔

awazurdu

میلے میں رونق

یہاں دیوی کی پوجا کے ساتھ پرسادبھی تقسیم کی جاتی ہے۔ میلے میں مختلف قسم کی دکانیں لگائی جاتی ہیں۔ کھانے پینےکی بھی دکانیں ہوتی ہیں۔میلے سے لوگ سامان خرید کر اپنے گھر بھی لے جاتے ہیں۔کئی طرح کے اسٹالز بھی ہوتے ہیں۔

بنگال میں کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں ا س طرح سے ہندو مسلمان مل کر تہواروں کا مزہ لیتے ہیں۔ مرکزی کولکاتا میں کئی ایسے کلب اور ادارے ہیں جہاں ہندو مسلمان دونوں اس کے ممبر ہیں اور ہر کام مل کر کرتے ہیں۔ ان میں کولکاتا کا ایک مشہور ادارہ کولکاتا احساس فاونڈیشن ہیں جس کا صدر اگر ہندو ہے تو سکریٹری مسلمان۔یہ لوگ سبھی مل کر ایک دوسرے کے تہواروں میں حصہ لیتے ہیں۔ لیکن یہاں جس کی بات ہورہی ہے وہ جگہ ہندوستان بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس کا نام ہر ی پوکھر ہے۔ یہ جنوبی دیناج پور ضلع میں واقع ہے جو بنگلہ دیش سرحد کے کافی قریب ہے۔جنوبی دیناج پور کا ضلع ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان سرحد پر پھیلا ہوا ہے، جس کے مرکز میں دریائے جمنا کے کنارے واقع ایک قدیم گاوں ہے۔ طویل عرصے سے تمام برادریوں کے لوگوں کے لیے اجتماعی مقام رہا ہے۔

awazurdu

فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال 

اسے یہاں کے لوگ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔کالی پوجا کے دنوں میں یہاں میلہ لگتا ہے۔ کافی بھیڑ ہوتی ہے۔ دور دراز کے لوگ اس میں حصہ لینے کے لئے آتے ہیں۔ ہندو برادری کے لوگ تو رہتے ہی ہیں مسلم فرقہ کے لوگ بھی کافی تعداد میں حصہ لیتے ہیں۔یہ علاقہ جنوبی دیناج پور میں ہند بنگلہ دیش سرحد کے قریب ہے۔ یہاں کئی گاوں واقع ہیں ان میں ہری پوکھر، تیلیا پاڑہ ، گوبند پور وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔سبھی گاوں میں کالی پوجا کا اہتمام کیا جا تاہے لیکن ان میں ہری پوکھر کی کالی پوجا کافی مشہور ہے۔

فوجی بھی اس پوجا میں حصہ لیتے ہیں

اس کی پوجا کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس پوجا میں بی ایس ایف کے جوان بھی حصہ لیتے ہیں۔یہاں ہر وقت بی ایس ایف کا پہرہ لگارہتا ہے۔ ویسے اس علاقے میںداخل ہونے پر کافی سکون محسوس ہوگا۔دونوں طرف بارڈر پر ستون کھڑے ہیں جس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ دو ملکوں کے بارڈر ہیں۔ اگر یہ ستون نہ ہوں تو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ یہ سرحدی علاقہ ہے۔یہ گاوں خاردار تاروں کے درمیان واقع ہے۔ لیکن یہاں کے لوگ پورے جوش و خروش کے ساتھ اس میں حصہ لیتے ہیں۔

ہندو بھی مسلمانوں کی عید اور محرم وغیرہ تہواروں میں حصہ لیتے ہیں

ایسا نہیں ہے کہ صرف مسلمان ہی کالی پوجا میں حصہ لیتے ہیں۔ اس گاوں کے ہندو بھی مسلمانوں کی عید اور محرم وغیرہ تہواروں میں کھل کر حصہ لیتے ہیں۔ یہ پرانی روایت رہی ہے۔ عرصہ سے چلی آرہی ہے۔گاوں کے رہنے والوں کا کہنا ہے کہ ہم لوگ مل کر ایک دوسرے کے تہواروں میں حصہ لیتے ہیں۔ گاوں کے رہنے والے اور اس تہوار میں سرگرمی سے حصہ لینے والے ببلو سرکار، بمل سرکار، اشتیاق علی ، ربیع الاسلام وغیرہ کا کہنا ہے کہ ہم لوگ خود کالی پوجا کا اہتمام کرتے ہیں۔

 مسلمان اور ہندووں کے کتنے خاندان ہیں

ہری پوکھر گاوں میں ہندوو ¿ں اور مسلمانوں کے تیس خاندان رہتے ہیں۔ان ہندوستانی لوگوں کے ساتھ بنگلہ دیشی لوگوں کا آزادانہ میل جول ہے۔ یہ لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہوتے ہیں۔یہاں ہری پوکھر گاوں میں کالی منڈپ کی دیکھ ریکھ مسلمان کرتے ہیں۔اس کالی پوجا میں پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔اس پوجا میں دونوں فرقوں کے لوگ اس پوجا میں حصہ لیتے ہیں۔یہاںیہ میلہ تین دنوں تک چلتا ہے۔یہاں کافی عقیدت کے ساتھ کالی کی پوجا کرتے ہیں۔یہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی بھیڑ ہوتی ہے۔مقامی روایات کے مطابق یہاں سینکٹروں برسوں اس پوجا کا اہتمام ہوتا آرہا ہے۔