داراشکوہ:ایک عالم وصوفی شہزادہ

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 27-11-2022
داراشکوہ:ایک عالم وصوفی شہزادہ
داراشکوہ:ایک عالم وصوفی شہزادہ

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

مغل بادشاہوں، شہزادوں اور شہزادیوں کو ان کی علم پروری اور فن سے دلچسپی کے لئے جانا جاتا ہے مگر داراشکوہ ایسا شہزادہ تھا جو خود ایک عالم، محقق اور صوفی تھا۔ وہ اہل علم اور درویشوں کی صحبت کو عزیز رکھتا تھااور ان سے اکتساب فیض کرتا تھا۔ شاہجہاں کے اس ولی عہد کو تمام مذاہب میں حقیقت واحدہ نظرآتی تھی اور وہ دنیا کے تمام مذاہب کا احترام کرتا تھا۔ وہ عربی، فارسی کا ماہر تھا مگر سنسکرت سے بھی اسے لگائو تھااور اس نے خود سنسکرت کی بعض کتابوں کا ترجمہ کیا تھا۔

دلی کا مقبرہ ہمایوں مغل شہزادہ دارا شکوہ کی آخری آرام گاہ ہے۔ یہاں مغل خاندان کے جن افراد کی قبریں ہیں انہیں میں دارا شکوہ بھی شامل ہے۔ حالانکہ شہزادہ کی قبر کی شناخت اب تک نہیں ہوپائی ہے۔ دارا شکوہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اگرچہ شاہی گھرانے میں پیدا ہوا تھا مگر اس کے اندر روح ایک درویش جیسی تھی۔

اس کی پیدائش اجمیر شریف میں ہوئی تھی اور وہ صوفیوں اور سنتوں سے ملنا پسند کرتا تھا۔ وہ خود بھی اپنے دور کے ایک صوفی ،ملا شاہ قادری کا مرید تھا۔ وہ دوسرے آزادمشرب صوفیوں اور سنتوں سے بھی لگائو رکھتا تھا اور ان سے رابطہ رکھتا تھا۔

دارا شکوہ نے اپنے ایک خط میں واضح طور پر تسلیم کیا ہے کہ وہ سرمد، بابا پیارے، شاہ محمد دلربا، میاں باری، محسن فانی کشمیری، شاہ فتح علی قلندر، شیخ سلیمان مصری قلندر، شاہ محب اللہ الہ آبادی جیسے صوفیا کی صحبت میں رہا۔ وہ شیخ محب اللہ الہ آبادی کا مداح تھا جو علم ظاہری و باطنی میں بڑا مرتبہ رکھتے تھے۔اسی طرح دلی کے ایک بزرگ سرمد کے قتل کا سبب دارا سے تعلقات کو ہی بتایا جاتا ہے۔

شہزادہ نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں سکینۃ الاولیا اور سفینۃ الاولیا مشہور ہیں۔ ان کتابوں میں صوفیہ اور بزرگان دین کے حالات زندگی، عبادات اور کرامات کو بیان کیا گیا ہے۔ شہزادہ مذہبی معاملے میں غیرمتعصب تھا اور سبھی مذاہب کے لوگوں کا احترام کرتا تھا یہی سبب ہے کہ سکھوں کے گروؤں سے اس کے بہت اچھے اور خوشگوار تعلقات تھے اور سکھوں کی ہمدردیاں بھی اسے حاصل تھیں مگر اقتدار کی جنگ میں شاہجہاں کے سب سے لاڈلے بیٹے کو اپنی جان گنوانی پڑی۔

مغل شہزادہ داراشکوہ تصوف اور یوگ کا عالم تھا۔وہ علماء اسلام کے علاوہ سادھووں، سنتوں اور ہندودھرم کے گیانیوں سے ملتا رہتا تھا۔ اس کے اتالیق اور شاہجہاں کے دیوان چندربھان برہمن خودتصوف اوریوگ کے عالم تھے۔ بابالال بیراگی کا ذکر انھوں نے اپنی ایک کتاب’ مکالمہ داراشکوہ بابا لال بیراگی‘ میں کیاہے جو شہزادہ سے ملے تھے اور شہزادہ نے ان سے کئی سوالات پوچھے تھے۔

شہزادہ نے صوفیوں اور یوگیوں کے نظریات کے تقابل کے سلسلے میں ایک رسالہ بھی تحریر کیا تھا جس کا نام ’مجمع البحرین‘ ہے۔شہزادہ نے خود لکھا ہے کہ ”اس رسالہ میں صوفیاء اسلام اور جوگیان ہند کے تصوف موحدہ کی ہم نے تحقیق کی ہے۔“وہ لکھتا ہے: ”فقراء ہند،سانسوں کی آمدورفت کو دو لفظوں سے تعبیر کرتے ہیں۔یعنی جب سانس باہر آتا ہے تو اس وقت لفظ ’او‘ کہتے ہیں اور جب سانس اندرجاتا ہے تو ’من‘کہتے ہیں جس کا مجموعہ ”اوم نم“ ہوجاتا ہے اور صوفیاء اسلام بجاے ’اوم نم‘ کے ’ھواللہ‘کا شغل کرتے ہیں۔

یعنی جب سانس باہرجاتا ہے تو’ھو‘ کہتے ہیں اور جب اندرآتا ہے تو ’اللہ‘ کہتے ہیں۔“ (مجمع البحرین۔شغل کا بیان) مجمع البحرین کے مطابق فقراء ہند کا نظریہ ہے کہ صفات الٰہیہ تین ہیں جنھیں ’ترگُن“ کہتے ہیں۔ یہ برہما،وشنو اور مہیش ہیں جب کہ اہل تصوف کے نزدیک جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کوتین موکل مانا گیا ہے۔

مجموعی طور پر دیکھیں تو صوفیوں اور یوگیوں کے نظریات میں کئی سطح پر مماثلت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے ایک دوسرے کے اثرات قبول کئے ہیں۔صوفیہ کے ہاں ذکر جلی، ذکر خفی اور حبس دم کے تصورات بھی ہیں جن کے بارے میں بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ یوگیوں سے ماخوذ ہیں۔

رامائن کا ایک فارسی نسخہ وہ بھی دستیاب ہوا ہے جو شہزادہ دارا شکوہ کا ہے۔ اس نے تلسی داس کی رامائن کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا۔ یہ کتاب پہلی بار1889ء میں منشی چراغ دین،سراج دین پریس راولپنڈی سے شائع ہوئی تھی۔ اسے ”نظم خوشتر“ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ منظوم ترجمہ ہے۔

جموں یونیورسٹی میں تاریخ کی سینئر استاد سمن جموال کے مطابق دارا شکوہ سنسکرت کا بڑا جانکار تھا اور اس نے متعدد سنسکرت کتابوں کو فارسی میں منتقل کیا تھا۔ جن میں اپنیشد اور رامائن بھی شامل ہیں۔

غور طلب ہے کہ دارا شکوہ کی منظوم رامائن ”نظم خوشتر“ اس لحاظ سے بھی انوکھی ہے کہ اس کی شروعات بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے ہوتی ہے۔