رضا لائبریری میں ایک نادر یادگار ۔ حضرت علی ؓکے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن مجید

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 04-12-2023
 رضا لائبریری میں ایک نادر یادگار ۔  حضرت علی ؓکے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن مجید
رضا لائبریری میں ایک نادر یادگار ۔ حضرت علی ؓکے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن مجید

 

معصوم مرادآبادی

رضا لائبریری کے تعارف کی پہلی قسط میں ہم نے آپ کو اس لائبریری کی تاریخی اہمیت سے روشناس کرایا تھا۔ اب ہم آپ کو بتائیں گے کہ اس لائبریری میں ایسے کون سے نوادرات موجود ہیں ، جن کی وجہ سے یہ پوری دنیا میں قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔لائبریری کے ذخیرے میں سب سے قدیم اور بیش قیمت پہلی صدی ہجری مطابق ساتویں صدی عیسوی کا قرآن پاک کا وہ قلمی نسخہ ہے جو خط کوفی میں چمڑے پر لکھا ہوا ہے اور یہ امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ اس نسخے کو دیکھنے کے لیے لوگ دور دراز کا سفر کرکے یہاں آتے ہیں۔ یہ اور اس جیسے دیگر نوادرات کی تفصیل ہم یہاں پیش کریں گے۔
حضرت علی ؓکے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد تھے ۔حضرت علیؓ13؍رجب کو ہجرت سے 24 سال قبل بیت اللہ میں پیدا ہوئے۔حضرت علیؓ کی امتیازی صفات اور خدمات کی بناء پر رسول اللہ ان کی بہت عزت کرتے تھے اور قول وفعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔26؍جنوری 661بمطابق 19؍رمضان 40ہجری کو کوفہ کی ایک مسجد میں ان پر زہرآلود خنجر سے نماز کے دوران قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ 21رمضان 40کو شہادت پائی ۔رضا لائبریری میں موجودحضرت علی ؓکے ہاتھ کے لکھے ہوئے اس نادر نسخے اور دیگر نوادرات کا تعارف یہاں پیش کیا جاتا ہے۔
یہ عظیم الشان کتب خانہ نادر مخطوطات، نایاب قلمی تصویروں، نہایت اہم کتابوں اور قیمتی وصیلوں اور نوادرات کی وجہ سے ہندوستان ہی نہیں چہاردانگ عالم میں شہرت رکھتا ہے ۔یہاں عربی ، فارسی ، سنسکرت ، اردو ،ترکی اور پشتو وغیرہ کے 17ہزار مخطوطات ، تاڑ کے پتوں پر تمل ، تلگو، کنڑاور سنہالی کے 200مخطوطات کے ساتھ ساتھ پانچ ہزار قلمی تصویریں اوراسلامی خطاطی کے تین ہزار نمونے محفوظ ہیں ۔مخطوطات کے علاوہ ایک لاکھ کے قریب مطبوعہ کتب ہیں جن میں ہزاروں کتابیں نہایت اہم اور نادر ہیں ، جن کے نسخے اب ناپید یا کمیاب ہیں
awazurdu
۔سال 1914 میں علامہ شبلی نعمانی نے اس لائبریری کو دیکھ کر کہا تھا کہ ‘‘میں نے روم اور مصر کے کتب خانے بھی دیکھے ہیں ، لیکن کسی کتب خانے کو مجموعی اعتبار سے اس سے افضل نہیں دیکھا۔’’اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد نے 1952میں اس لائبریری کی وزیٹر بک میں لکھا تھا کہ ‘‘ہندوستان میں جو گنتی کے قیمتی علمی ذخائر ہیں ، ان میں ایک گراں مایہ ذخیرہ یہ ہے۔’’
مجموعی اعتبار سے یہ ہندوستان میں اپنی طرز کا واحد کتب خانہ ہے ، جہاں عربی اور فارسی کی قلمی کتابیں بڑی حفاظت سے رکھی ہوئی ہیں ۔کئی قدیم نسخے خود مصنّفین کے لکھے ہوئے ہیں ۔347 عربی اور 523فارسی نسخے ایسے ہیں جو نہایت خوش خط خود مصنّفین اور اور مشہور خطاطوں کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے ہیں ۔ اسی طرح مشہور ومعروف مصوروں کی تصاویر اس کتب خانے میں بکثرت موجود ہیں ، جن میں چند پر ان کے دستخط بھی ہیں ۔
لائبریری کے ذخیرے میں سب سے قدیم اور قیمتی مخطوطہ پہلی صدی ہجری /ساتویں صدی عیسوی کا قرآن مجید کا وہ نسخہ ہے ، جو خط کوفی میں چمڑے پر لکھا ہوا ہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دست مبارک کا تحریر کردہ بتایا جاتا ہے۔اسی طرح دوسری صدی ہجری مطابق آٹھویں صدی عیسوی کا ایک قرآن مجید امام جعفر صادق سے منسوب ہے ۔
اسی طرح بغداد کے وزیراعظم اور خط نسخ کے موجد شہرہ آفاق خطاط ابن مقلہ سے منسوب کاغذ پر لکھا ہوا چوتھی صدی ہجری کا ایک قرآن مجید بھی ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ ابن مقلہ نے اپنی زندگی میں قرآن مجید کی جو دوکاپیاں تیار کی تھیں ، ان میں سے ایک رضا لائبریری کی زینت ہے ۔قرآن مجید کا ایک اور نسخہ مشہورخطاط یاقوت مستعصمی (متوفی 698 ہجری)کے ہاتھ کا لکھا ہوا بھی یہاں موجود ہے۔قرآن مجید کی قدیم تفسیروں میں سے تیسری صدی ہجری مطابق نویں صدی عیسوی کا نقل شدہ ابوعبداللہ سفیان الثوری (متوفی 777عیسوی)کی تفسیر کا ایک نسخہ ہے اور یہ دنیا کا واحد نسخہ ہے جو رضا لائبریری میں محفوظ ہے۔‘‘نہج البلاغہ ’’مکتوبہ1181عیسوی ازشریف رضی اور رسالہ مکارم الاخلاق مکتوبہ1159عیسوی ازامام صادق کے نسخے اپنی قدامت کی وجہ سے اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی نادر ونایاب نسخے یہاں موجود ہیں اورعربی زبان کی بیش قیمت کتب اس لائبریری میں پائی جاتی ہیں۔ 
awazurdu
اگرچہ عربی اور فارسی کے مقابلے میں یہاں اردو کی قلمی کتابیں کچھ کم ہیں ، لیکن وہ اپنی قدر وقیمت کے اعتبار سے بہت باوزن ہیں ۔ان میں ‘‘دیوان زادہ شاہ حاتم ’’، ‘‘کلیات میر’’،‘‘کلیات سودا’’اور ‘‘دیوان غالب’’وغیرہ کے بڑے اہم مخطوطے یہاں موجود ہیں ۔یہاں غالب کا وہ اردو دیوان بھی موجود ہے جسے انھوں نے 1857سے کچھ پہلے مرتب کرکے نواب رامپور کو ہدیہ کیا تھا۔ان کے علاوہ ہندی اور سنسکرت کے اہم مخطوطات بھی اس لائبریری میں موجود ہیں۔لائبریری میں تاڑ کے پتوں پر سنسکرت ، تلگو، کنڑ ، ملیالم اور سنہالی زبانوں کے دوسو سے زائد آثار ہیں ، جن کے پتوں کی مجموعی تعداد بیس ہزار ہے۔لائبریری میں قلمی کتابوں اور مصور نسخوں کے علاوہ ایک ہزار سے زائد نہایت نادر ونایاب قلمی تصویروں کا ذخیرہ ہے ، جس کا بڑا حصہ مغل مصوری پر مشتمل ہے۔عہداکبری کا ایک دلچسپ البم‘‘طلسم’’ کے نام سے ہے ، جس میں تقریباً 150لاجواب تصاویر ہیں ، جن میں اس عہد کی سماجی ، معاشی وثقافتی زندگی کی بھرپورعکاسی ہوتی ہے۔
ایک البم ‘‘مرقع اولیاء اللہ’’ کے نام سے ہے جس میں مشہور صوفی سنتوں کی تصاویر ہیں۔اس کے علاوہ جن بادشاہوں، امراء ، نوابین ، راجہ مہاراجہ اورمشہور سیاسی ، مذہبی اور تاریخی شخصیتوں کی تصویریں اس ذخیرے میں موجود ہیں ان میں ہلاکو خاں، امیرتیمور، بابر، ہمایوں ،اکبر، گلبدن بیگم ، ابوالفضل ، فیضی ، بیربل ، جہانگیر ، نورجہاں ،اورنگزیب اور بہادر شاہ ظفر وغیرہ کی تصاویر شامل ہیں۔صوفی اور سنتوں میں خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین ، شیخ سلیم چشتی ، تلسی داس اور میرانیس وغیرہ کی تصویریں یہاں موجود ہیں ۔
لائبریری کی یہ قلمی تصویریں فن مصوری کے سبھی اسکولوں کی نمائندگی کرتی ہیں ۔اسی طرح مشہور خطاطوں کی ایک ہزار سے زیادہ وصلیاں یہاں موجود ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس لائبریری میں رامائن کا فارسی نسخہ بھی موجود ہے جسے 1715میں سمیر چند نے ترجمہ کیا تھا۔ ہندی زبان کے مخطوطات میں ملک محمد جائسی کی‘‘پدماوت’’( مکتوبہ 1675)بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ ہندی کے اور بھی کئی مخطوطات فارسی رسم الخط میں یہاں موجود ہیں۔یہاں سنسکرت زبان کے تقریباً 600مخطوطات موجود ہیں جن میں مذہب ، زبان وادب اور سائنس کے موضوعات پر بعض ایسے اہم اور نادر نسخے ہیں جو ہندوستان کی دوسری لائبریریوں میں مشکل سے دستیاب ہوں گے۔