کشمیر: اسٹرابیری کی مانگ میں اضافہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 09-05-2022
 کشمیر: اسٹرابیری کی مانگ میں اضافہ، خوشی کی علامت
کشمیر: اسٹرابیری کی مانگ میں اضافہ، خوشی کی علامت

 


باسط زرگر، سری نگر

دو سالوں میں پہلی بار اسٹرابیری کی مانگ میں اضافے کے بعد کشمیر کے کاشتکاروں کے چہروں پر خوشیاں دکھنے لگی ہیں۔ اسٹرابیری کشمیر میں سیزن کی پہلی فصل ہے۔ اس سال پیداوار 2500 میٹرک ٹن سے تجاوز کرنے کی امید ہے۔

گذشتہ دو سالوں سے اسٹرابیری کے کاشتکاروں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ وبائی امراض اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیداوار منڈیوں میں نہیں بھیجی جاسکی۔اسٹرابیری کے ایک کاشتکار شبیر احمد نے کہا کہ اس بار اسٹرابیری کے لیے مارکیٹ بہت اچھی ہے۔ اسٹرابیری کی ایک ٹرے 250 سے 400 روپے میں فروخت ہوتی ہے جب کہ ایک ڈبہ 50 سے 140 روپے میں فروخت ہوتا ہے۔

aaaaaaaaaaaaa

 اسٹرابیری کی تازہ فصل

انہوں نے مزید کہا کہ دو سال کے بعد کاشتکار فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مقامی سطح پر بھی اسٹرابیری بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ یہ فصل کھمبر، دھرا، ٹنگمرگ اور گسو سمیت منتخب علاقوں میں پیدا کی جاتی ہے۔شبیر احمد نے کہا کہ آنے والے ہفتوں میں اس پھل کی قیمت میں اضافہ ہوگا کیوں کہ کشمیر کے بعض مقامات پر کٹائی شروع ہونا باقی ہے۔

وادی کشمیر کے چھ علاقوں میں آنے والے ہفتے میں اس پھل کی کٹائی ہوگی ۔ کاشتکاروں کا دعویٰ ہے کہ خراب موسمی حالات نے اسٹرابیری کی پیداوار کو متاثر کیا ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ مارچ میں خشک موسم اور اپریل میں شدید بارش کی وجہ فصل متاثر ہوئی ہے۔موسم کے انداز نے اسٹرابیری کے معیار کو متاثر کیا۔  ایک دیگر کاشتکار منظور احمد نے بتایا کہ اگر موسم سازگار ہوتا، تو مانگ اور بھی بڑھ جاتی۔

awaaaaaaaa

 اسٹرابیری کی خاتون کاشتکار

اسٹرابیری کے کاشتکار پھلوں کی دیگر ریاستوں میں مزید ترسیل کی سہولت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں سمجھتے کہ اسٹرابیری دوسری ریاستوں تک کیوں نہیں پہنچتی ہے۔  باغبانی کے محکمے کو پیداوار کو دیگر مقامات پر بھیجنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے تھا۔

خیال رہے کہ اسٹرابیری پہلا پھل ہے جو کشمیر میں چھ ماہ کی سخت سردیوں کے بعد اگتا ہے اور اسے دہلی سمیت شمالی ہندوستان کے مختلف حصوں میں سپلائی کیا جاتا ہے۔

پچھلے دو برسوں کے دوران کورونا وائرس وبائی امراض کے بعد لاک ڈاؤن کی وجہ سے بمپر فصل ہونے کے باوجود کاشتکاروں نے نقصان اٹھا یا۔سری نگر کے گوسو گاؤں کے شبیر احمد، جو اسٹرابیری کی کاشت کے لیے مشہور ہے، نے کہا کہ کشمیر میں سیاح اس پھل کے بڑے خریدار ہیں۔ لیکن لاک ڈاؤن کے دوران سیاحوں کی آمد میں تیزی سے کمی کے باعث خریداروں کا آنا مشکل ہوا تھا ۔

احمد نے کہا، "کشمیر میں سیاح اسٹرابیری کے بڑے خریدار ہیں لیکن کوویڈ کے معاملات میں اضافے کے ساتھ سیاحوں کی آمد میں زبردست کمی آئی ، جس نے کشمیر کے اسٹرابیری کے کسانوں کو بری طرح متاثر کیا ہے،۔اسٹرابیری کشمیر میں ایک اہم نقد آور فصل کے طور پر ابھری ہے۔

سالوں کے دوران بہت سے سبزیوں کے کاشتکاروں نے اسٹرابیری کی کاشت کی طرف مائل کیا ہے۔ لیکن پچھلے دو سالوں کے دوران کشمیر میں بیک ٹو بیک لاک ڈاؤن نے منافع کو کم کرتے ہوئے ایک بڑے نقصان کا کام کیا ۔یہاں تک کہ لاک ڈاؤن کے دوران دکاندار بند رہے۔احمد نے کہا،اسٹرابیری کی عمر صرف چند دنوں کی ہوتی ہے۔

ہمیں امید ہے کہ امسال اچھا منافع ملے گا۔"کشمیر ہر سال 2,000 سے 2,500 میٹرک ٹن اسٹرابیری پیدا کرتا ہے۔ ٹھنڈا موسم اسٹرابیری کی کاشت کے لیے موزوں بنا دیتا ہے۔ اسے کشمیر میں موسم کی پہلی پھل کی فصل سمجھا جاتا ہے۔کشمیر کے مضافات میں واقع گسو گاؤں میں سب سے زیادہ لوگ اسٹرابیری اگاتے ہیں۔ اب سری نگر میں اسٹرابیری کی فصل کی کٹائی کا عمل زوروں پر ہے۔ یہ سال جموں و کشمیر میں اسٹرابیری کے کاشتکاروں کے لیے بہترین سالوں میں سے ایک ہے کیونکہ اس فصل کی پیداوار میں تقریباً 20 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے