تفہیم الرحمن: معذور بچوں کی زندگی آسان بنانے والا مسیحا

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 09-02-2024
تفہیم الرحمن: معذور  بچوں کی زندگی آسان بنانے والا مسیحا
تفہیم الرحمن: معذور بچوں کی زندگی آسان بنانے والا مسیحا

 

محفوظ عالم : پٹنہ 

جس دنیا میں ہم رہتے ہیں اس دنیا میں ایک اور دنیا آباد ہے جسے ہم معذوروں کی دنیا کہتیں ہیں لیکن عام طور پر وہ ہمیں نظر نہیں آتا ہے۔ وہ مختلف پریشانیوں میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن ان کی مشکلیں نظر انداز کی جاتی ہے حالانکہ وہ ایک بڑا انسانی وسائل کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس کائنات میں ہر شخص کو جینے کا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا حق حاصل ہے۔ مہذب سماج کی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہے کہ وہ اپنے آس پاس کے کمزور اور بے بس لوگوں کی مدد کریں۔ معذور اپنے آپ میں سماج کا ایک کمزور حصہ ہے لیکن ان پر دھیان دیا جائے تو وہ سماج کے لئے نفع بخش انسانی وسائل میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ لندن سے ایم بی اے اور ملازمت کرنے کے بعد بہار کے ضلع کشن گنج میں معذوروں کی مدد کر رہے تفہیم الرحمن نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔

کون کس طرح پیدا ہوگا یہ کسی کے بس میں نہیں ہوتا

یہ کسی کے بس میں نہیں ہوتا ہے کہ اس کی پیدائش کیسے ہوگی، معذوری مجبوری ہے لیکن سماجی سطح پر کی گئی مدد اس معذوری کو ایک وسائل میں تبدیل کر سکتی ہے جس سے ملک و ملت اور معذور بچے و معذور لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ دراصل شیڈ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ابلڈ شیڈ اور اوکس فورڈ انٹرنیشنل اسکول چل رہا ہے۔ تفہیم الرحمن شیڈ فاؤنڈیشن کے صدر اور اسکول کے مینجینگ ڈائریکٹر ہیں، انکے مطابق اوکس فورڈ انٹرنیشنل اسکول میں 18 معذور بچوں کا داخلہ لیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی معذوروں کے لئے ایک ریسورس سینٹر قائم کیا جا رہا ہے جہاں معذور بچوں کو ٹرینڈ کیا جائے گا۔ جب ان کی تربیت مکمل ہو جائے گی پھر ان کا داخلہ اوکس فورڈ انٹرنیشنل اسکول میں کرایا جائے گا جہاں وہ مین اسٹریم کی تعلیم عام بچوں کے ساتھ حاصل کریں گے۔ تفہیم الرحمن کا کہنا ہے کہ معذور بچوں میں کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جو ایک سال میں ٹرینڈ ہو جاتے ہیں اور کچھ کو ڈیڑھ سے دو سال کا وقت لگتا ہے۔ فیل حال اوکس فورڈ انٹرنیشنل اسکول میں 18 معذور بچوں کو پڑھایا جا رہا ہے، جہاں عام بچوں کے ساتھ ان کی تعلیم مکمل ہوگی۔

کیوں کیا یہ کام شروع

تفہیم الرحمن آخر معذور بچوں کی تعلیم اور معذوروں کو لیکر اتنا سنجیدہ کیوں ہوئے، اس کے پیچھے ایک کہانی ہے۔ بات 2014 کی ہے جب ان کے گھر، ان کی بیٹی کی پیدائش ہوئی، تفہیم الرحمن کافی خوش تھے لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ بیٹی وقت سے پہلے پیدا ہوئی تھی جس کے سبب اوکسیجن تھری پی کی ضرورت پڑی اور اوکسیجن تھری پی میں بچی کو کافی دن رہنا پڑا، نتیجہ کے طور پر ان کی بیٹی کا ریٹینا خراب ہو گیا اور وہ نابینا ہو گئی۔ اب مشکل تھا کہ ایسے بچوں کو کس طرح سے ان کی ضرورت پوری کی جائے اور انہیں ٹرینڈ کیا جائے۔ تفہیم الرحمن اپنی اہلیہ کے ساتھ دہلی میں مقیم ہوئے اور دہلی کے سکشم ادارے میں خود ٹریننگ حاصل کی اور معذوروں پر کام کرنے والے کئی اداروں سے رابطہ کیا جس کے سبب وہ اپنی بیٹی عالیزہ کو ٹرینڈ کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ وہ کشن گنج لوٹ کر آگئے اور سکشم سے آن لائن ٹریننگ جاری رہی بعد میں جب عالیزہ تھوڑی بڑی ہوئی تو ان کی بھی ٹریننگ کرائی گئی۔ آج عالیزہ اوکس فورڈ انٹرنیشنل اسکول میں کلاس چار کی طالبہ ہیں اور اپنے کلاس کی ٹاپر ہیں۔ تفہیم الرحمن کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیٹی کے ساتھ عام بچوں کی طرح نورمل برتاؤ کیا اب جبکہ وہ کلاس چار کی طالبہ ہے، تو انہیں معلوم ہوا ہے کہ وہ دوسرے بچوں سے تھوڑی الگ ہیں۔ تفہیم الرحمن کا کہنا ہے کہ جب میں اپنی بیٹی کے سلسلے میں تحقیق کر رہا تھا تو حیرت انگیز اعداد و شمار میرے سامنے آئے۔ میں نے دیکھا کی بڑی تعداد میں لوگ معذور ہیں اور یہ بھی محسوس کیا کہ انہیں اگر بہتر تربیت اور ٹریننگ دی جائے تو ان کے مسئلہ کو کافی حد تک حل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں سے شروع ہوا معذوروں کی مدد کا خیال اور پھر عملی طور پر اس کو زمین پر اتارنے کی کوششیں جاری کی گئی۔

صرف بہار میں قریب 25 لاکھ لوگ ہیں معذور

تفہیم الرحمن کا کہنا ہے کہ جب اس تعلق سے ہم تحقیق کر رہے تھے تو معلوم چلا کہ پورے ہندوستان میں دو کروڑ سے زیادہ لوگ معذور ہیں، جس میں صرف بہار میں ایسے لوگوں کی تعداد قریب 25 لاکھ ہے، ان 25 لاکھ معذور لوگوں میں قریب 50 سے 60 ہزار بچیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 2011 کے مردم شماری کے مطابق کشن گنج ضلع کی آبادی 17 لاکھ ہے اور بہار میں معذوروں کی آبادی 25 لاکھ، یعنی ایک ضلع کی آبادی سے زیادہ معذوروں کی آبادی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ عام طور پر معذور بچے بعد میں چل کر بھیک مانگنے لگتے ہیں جو کسی مہذب سماج کے لئے ایک بد نما دھبہ کی طرح ہے۔ اسلئے اس بات کی کوشش شروع کی گئی کہ ان کی مدد کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی سطح پر جو معذوروں کی مدد کے لئے کام ہو رہا ہے وہ ناکافی ہے اس میں سماجی سطح پر لوگوں کو متوجہ ہونا پڑے گا تاکہ سماج کے ایسے کمزور حصہ کو بھی ان کے جینے کا حق مل سکے۔

awazurdu

تکنیک نے کیا ہے کام آسان

تفہیم الرحمن کا کہنا ہے کہ معذوروں کے لئے اب کام کرنا آسان ہو گیا ہے، اب جدید تکنیک سے ان کی کافی مدد کی جا سکتی ہے۔ انکے مطابق انہوں نے تکنیک کی مدد سے ہی اپنی بیٹی عالیزہ کو ٹرینڈ کیا اب وہ کافی آسانی سے اپنی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی مکمل کر رہی ہے اور اپنے کلاس میں اول مقام پر ہے، ایسے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ معذور بچوں کو صحیح طریقے سے تکنیکی مدد مہیا کرائی جائے تو ان کی پریشانیاں کافی حد تک حل کی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نابینا بچوں کے لئے تکنیک اور بھی آسانی سے دستیاب ہے۔ وہ چھ مہینہ کی ٹریننگ کے بعد کمپیوٹر چلانا سیکھ جاتے ہیں۔ وہ شارٹ کاٹ کے ذریعہ کمپیوٹر چلاتے ہیں اور کئی بار تو عام بچوں سے بھی زیادہ کمال کر جاتے ہیں۔ امتحان میں بھی وہ کمپیوٹر کے ذریعہ اپنا جواب دیتے ہیں۔ کلاس روم میں نوٹس بھی کمپیوٹر سے بناتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب آپ معذوروں کی دنیا میں جائیں گے تو آپ کو احساس ہوگا کی نابینا اب کوئی مسئلہ نہیں ہے، ان کے لئے جو جدید تکنیکی سہولت آئی ہے وہ کافی ہے۔ صرف چلنے میں ان کو پریشانی ہوتی ہے لیکن اسٹک کے ذریعہ وہ بھی مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ اس طرح سے جب میں معذوروں کے معاملہ میں ان تمام باتوں پر غور کر رہا تھا تو یہ احساس ہوا کی کیوں نہ ان کی مدد کی جائے۔ میں نے دیکھا کہ کافی لوگ معذور ہیں اور پریشان ہیں۔ معذوروں کے ساتھ سماج کا سلوک بھی بہتر نہیں ہوتا ہے۔ جن کے گھروں میں معذور بچے ہیں وہ انہیں گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتے ہیں، دوسرے اور عام بچوں کے ساتھ انہیں گھولنے ملنے کا موقع کم ملتا ہے۔ دوسرا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ایسے بچے معاشی اعتبار سے کمزور ہیں لیکن جب انہیں آپ قومی دھارے میں لانے کی کوشش کریں گے تو ظاہر ہے ان جدید تکنیک کو بھی حاصل کرنا پڑے گا جس کی مدد سے وہ مین اسٹریم میں آ سکتے ہیں اور وہ تکنیک مہنگی ہے۔ ایک بچہ پر کم سے کم ایک لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ روپیہ کا خرچ آتا ہے۔ ایسے میں ہم لوگ پہلے مرحلے میں 18 معذور بچوں سے شروع کیا ہے۔ اسکول کا بڑا ایک کیمپس بھی بن رہا ہے۔ آئندہ سال سے 50 بچوں کو ٹرینڈ کریں گے اور پھر انہیں مین اسٹریم تعلیم اپنے اسکول میں دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا مقصد یہ ہے کہ یہ معذور بچے نہ صرف یہ کی وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے بلکہ سماج اور ملک کے لئے وہ ایک قیمتی اثاثہ بن سکیں۔

سماج کو لینی ہوگی ذمہ داری

جدید تکنیکی سہولت کے ذریعہ ہم بڑی تعداد میں ایسے معذور بچوں کو جو نابینا ہیں یا کوئی دوسرے طرح کی معذوری ہے، ہم ان کی تعلیم اور ٹریننگ کا انتظام کریں گے۔ اس سلسلے میں دہلی کے سکشم ادارہ سے بھی ہمارا معاہدہ ہوا ہے، ہم ان کی مدد سے بھی بچوں کو آن لائن ٹریننگ دلائیں گے۔ تفہیم الرحمن کے مطابق ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے بچوں کے لئے پڑھائی کا معقول انتظام نہیں ہے جتنا کہ انکی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں متعدد جگہوں پر کون سیلنگ کے لئے جاتا رہتا ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ ایسے بچوں کو لوگ چھپا کر رکھتے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہے۔ میرا کہنا ہے کہ اگر معذور بچوں کی مدد نہیں کی جائے گی تو وہ کل جا کر کہیں بھیک مانگیں گے اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، ظاہر ہے یہ ان پر ایک طرح سے ظلم ہے۔ ہم مسلم سماج سے بھی اپیل کر رہے ہیں کہ وہ مسجد، جلسہ اور مذہبی امور کے کاموں میں اپنا تعاون دیتے ہیں لیکن اس طرح کے کاموں میں ان کی خاموشی ہے۔ ہم نے مسلم معاشرہ سے اپیل کیا ہے کہ معذور کی مدد کرنا کار ثواب ہے، ثواب کی نیت سمجھ کر اس کام میں آگے بڑھیں اور معذور لوگوں کی مدد کی جائے۔ ہمارا فاؤنڈیشن بہرہ، گنگا، نابینا بچوں کو پڑھائے گا۔ اس کے علاوہ بھی جو معذوری کی حالت میں ہونگے ہم ان کی مدد کریں گے۔ ایسے بچوں کی ٹریننگ دی جا رہی ہے تاکہ وہ عام بچوں کے ساتھ پڑھ سکے اور اپنی ضروریات کو خود پورا کر سکے۔ اوکس فورڈ انٹرنیشنل اسکول ایک بورڈنگ اسکول ہے جہاں 150 بچیں ہیں، اسکول میں مجموعی طور پر 250 بچوں کا داخلہ ہے۔ اس میں 18 بچہ ایسے ہیں جو معذور ہیں۔ آئندہ سال اسکول کا ایک کیمپس تیار ہو جائے گا جس میں 50 معذور بچوں کو رکھ کر انکی ٹریننگ اور پڑھائی کرائی جائے گی۔ جیسے جیسے یہ کارواں آگے بڑھتا جائے گا اور رزلٹ مثبت ہوگا تو معذور بچوں کی ٹریننگ اور داخلہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ میں نے اہل علم طبقہ سے بھی اپیل کیا ہے کہ وہ ان بچوں کی مجبوری اور پریشانی کو سمجھیں، ایسے لوگ جو معذور ہیں، جو دیکھ نہیں سکتے، سن نہیں سکتے اور چل نہیں سکتے یا دماغی طور پر معذور ہیں، اور غورطلب ہے کہ اتنی بڑی آبادی پریشان ہے لیکن جو میکنزم ہے وہ ناکافی ہے، اسلئے نجی طور پر سماج کو یہ ذمہ داری لینی ہوگی تاکہ ان بچوں کی زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔

یہ ایک بڑا انسانی وسائل ہیں

ہم معذور بچوں کو اپنے ریسورس سینٹر میں اتنا قابل بنائیں گے کی وہ اپنی تمام ضرورتیں پوری کر سکے، بہار کے سیمانچل کے اس علاقے کے لئے ہماری یہ ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ معذور لوگ نظر انداز ہیں لیکن معذوروں کی یہ آبادی ایک بڑا انسانی و سائل ہیں، حالانکہ سماج نے انہیں ایک بوجھ سمجھ لیا ہے لیکن ان پر صحیح سے کام ہو تو حالات برعکس ہونگے۔ ہم لوگوں نے اس انسانی و سائل پر کبھی غور نہیں کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ معذور لوگوں نے دنیا میں کافی بڑے بڑے کام کیے ہیں، کئی مصنف بنے، کئی سائنسدان ہوئے اور کئی نے دوسرے شعبہ میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ضرورت صرف اتنی ہے کہ ہم اس وسائل کو سمجھیں اور معذوروں کی مدد کے لئے آگے آئے۔ اس سے جہاں ان کی مکمل مدد ہوگی وہیں ہم انہیں ملک کے لئے بھی فائدہ مند بنا سکتے ہیں۔

لندن سے تعلیم لیکن کام کشن گنج میں

تفہیم الرحمن علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلیم حاصل کئے۔ لندن جا کر انہوں نے اپنی ایم بی اے کی ڈگڑی حاصل کی اور وہاں کچھ دنوں تک ملازمت بھی کیا لیکن پھر وہ اپنے آبائی وطن کشن گنج لوٹ آئے۔ یہاں آکر تعلیم کے میدان میں انہوں نے کام شروع کیا، اسی درمیان ان کی بیٹی عالیزہ اس دنیا میں آئی اور پھر تفہیم الرحمن کو زندگی کا ایک مقصد مل گیا اور وہ مقصد معذور بچوں کی زندگی سنوارنا ہے۔ اس سلسلے میں وہ لگاتار کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیمانچل میں تعلیمی اعتبار سے لوگ کافی کمزور ہیں۔ ایسے میں تعلیم کے تئیں بیداری کا کام چل رہا ہے اور خاص طور سے معذور بچوں کے مستقبل کے لئے انہیں خود مختار بنانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کی اس میدان میں مشکلیں بہت ہے لیکن اگر ایسے بچوں کی زندگی سنورتی ہے اور وہ تعلیم حاصل کر کے ایک بوجھ نہیں بلکہ ہمارے لئے ایک بڑا وسائل بن جاتے ہیں تو یہ ایک بڑی کامیابی سمجھی جائے گی۔