شعیب ڈار: بچوں کے’کمپیوٹرکے خواب‘ کی تعبیر

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 17-09-2022
 شعیب ڈار: بچوں کے’کمپیوٹرکے خواب‘ کی تعبیر
شعیب ڈار: بچوں کے’کمپیوٹرکے خواب‘ کی تعبیر

 

 

آواز دی وائس، سری نگر

جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک  نوجوان انجینئر شعیب ڈار ہیں،  انہوں نے کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کی ہے، اب وہ چاہتے ہیں دیہی علاقے میں رہنے والے بچے بھی کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کرکے زمانے کے ساتھ ساتھ چل سکیں۔

انجینئر شعیب احمد ڈار دیہی علاقے میں رہنے والے بچوں کو مفت کمپیوٹر اور کوڈنگ کی کلاسز دیتے ہیں۔اب تک 15 ہزار سے زائد بچے ان کی کوششوں سے نہ صرف کمپیوٹر چلانا سیکھ چکے ہیں، بلکہ کوڈنگ کی مدد سے کئی ڈیوائس بنانے میں بھی کامیاب ہوچکے ہیں۔

کشمیری انجینئر شعیب ڈار نے دیہی بچوں کو کمپیوٹر کی مفت تعلیم فراہم کرنے کے لیے ایک این جی او پائی جام فاؤنڈیشن( Pi Jam Foundation ) قائم کیا ہے۔ اس فاونڈیشن کے بینر تلے وہ بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دیتے ہیں۔

آخر ایسا کیوں کیوں ہوا کہ انجینئر دیہی  بچوں کو کمپیوٹر سے روشناس کرانے کے لیے بچین ہوگیا۔ اس کے پیچھے ایک کہانی ہے، جو انہوں نے خود بیان کی ہے۔

ایک بار وہ کہیں کسی دیہی اسکول میں گئے وہاں انہوں نے بچوں سے سوال کیا کہ  آپ میں سے کتنے لوگوں نے کمپیوٹر استعمال کیا ہے؟ اس کے جواب صرف ایک طالب نے حامی بھری کہ وہ کمپیوٹر چلانا جانتا ہے۔

 انجینئر شعیب ڈار کواس جواب نے حیران کر دیا۔ انجینئر سے ٹیچر بنے شعب ڈار  کو یقین نہیں آیا کہ ان میں سے صرف ایک طالب علم نے یہ الیکٹرانک ڈیوائس استعمال کی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا وہ ان بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم مفت دیں گے۔

 طلباء کو ڈیجیٹل دنیا سے  روشناس کرنے کے لیے ایک بار شعیب نے چار روسبری پائی(Raspberry-Pi)کمپیوٹرز کے ساتھ 10 روزہ  کیمپ لگایا۔ اس وقت اس  کی قیمت 4,000-5,000 روپے تھی۔ یہاں طلباء نے اپنے گیمز اور اینی میشنز بنانے میں دلچسپی لی۔

اس واقعے نے شعیب کو 2017 میں پائی جام فاؤنڈیشن شروع کرنے پر آمادہ کیا۔ یہ ایک این جی او ہے، جس کا مقصد دیہی بچوں میں ڈیجیٹل خواندگی کو فروغ دینا ہے۔ پائی فاونڈیشن  نے اب تک تلنگانہ، مہاراشٹرا اور جموں و کشمیر کے آس پاس کے 51 اسکولوں میں 15,500 بچوں کے لیے 400 کمپیوٹر فراہم کیے ہیں۔

ان کی کوششوں سے طلباء نے جو ایجادات کئے ہیں، ان میں  سے ایک موسم کا مانیٹر ہے جو نمی، درجہ حرارت، بارش اور ہوا کی رفتار جیسے پیرامیٹرز کو چیک کرتا ہے۔  اس ڈیوائس سے جمع کیے گئے ڈیٹا کو اب پونے میں انڈین میٹرولوجیکل سوسائٹی(Indian Meteorological Society) استعمال کر رہی ہے۔

31 سالہ نوجوان شعیب ڈار کا کہنا ہے کہ  بچے محسوس کرتے ہیں کہ کمپیوٹر  پیچیدہ آلات ہیں جو انہیں کنٹرول کرتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ سمجھیں کہ یہ اصل میں اس کے برعکس ہے۔ نیز میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ یہ محسوس کریں کہ کمپیوٹر کے ساتھ کام کرنا ایک مشغلہ یا غیر نصابی سرگرمی ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ بچے ان مہارتوں کو سیکھنے کی صلاحیت خود میں پیدا کریں کہ بدلتی ہوئی ڈیجیٹل دنیا کی تشکیل میں وہ کس طرح شامل ہوسکتے ہیں۔