مسائل سے دوچارخواتین اور بچوں کے لئے نجات دہندہ سوشل پرائڈویلفیئر سوسائٹی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 02-02-2024
مسائل سے دوچارخواتین کے لئے نجات دہندہ سوشل پرائڈویلفیئر سوسائٹی
مسائل سے دوچارخواتین کے لئے نجات دہندہ سوشل پرائڈویلفیئر سوسائٹی

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

مغربی بنگال کی رہنے والی نسیمہ ،شاہین باغ ، نئی دہلی کے گھروں میں کام کرکے اپنی روزی چلاتی ہے۔ اس کے دوچھوٹے بچے ہیں جن کی ذمہ داری اسی کے کندھوں پر ہے۔ شوہر رکشہ چلاتا ہے اور جو کچھ کماتا ہے شراب پی جاتا ہے۔ وہ نشہ کی حالت میں گھر آکر بیوی اور بچوں کو پیٹتا تھا۔ اس حالت سے نسیمہ پریشان تھی۔ اسی دوران وہ مہیلاپنچایت کے رابطے میں آئی۔ مہیلا پنچایت کی خواتین نے معاملے میں مداخلت کی پہلے اس کے شوہر کو سمجھا بجھا کر راستے پر لانے کی کوشش کی مگر جب بات نہیں بنی تو قانونی راستے کا سہارا لیا اور کچھ سختی کی گئی۔ اب نسیمہ کا مسئلہ حل ہوچکا ہے۔ اس کا شوہر اب بھی نشہ کرتا ہے مگر تشدد نہیں کرتا۔

نسیمہ کو گھر چلانے میں کبھی کبھی مہیلاپنچایت کی جانب سے مدد بھی ملتی ہے۔ ایک نسیمہ نہیں ، اس جیسی لگ بھگ تین ہزار خواتین جو گھریلو تشدد کی شکار تھیں مہیلاپنچایت کی مدد سے پرسکون زندگی گزار رہی ہیں۔ ان عورتوں کو نہ صرف تشدد سے نجات دلانے کی کامیاب کوشش کی گئی بلکہ ان کی امورخانہ داری میں بھی مدد کی گئی۔ شاہین باغ میں سوشل پرائڈ ویلفئر سوسائٹی کے زیر نگرانی مہیلا پنچایت کا کام چلتا ہے۔ اصل میں مہیلاپنچایت دہلی حکومت کے زیر تعاون چلنے والا ایک ادارہ ہے۔

سوشل پرائڈ ویلفئیرسوسائٹی کے صدر ڈاکٹر کمال احمد ہیں جو دہلی کے ایک مخلص سماجی کارکن ہیں جب کہ مہیلاپنچایت کی نگراں ہیں فردوس بیگم۔ ان کی معاونت کرتی ہیں سیما ،حنا خان، یسریٰ پروین اور تمنا پروین۔

awaz

تربیتی سنٹر میں تربیت پانے والی بچیاں

فردوس بیگم بتاتی ہیں کہ خواتین مختلف قسم کے مسائل کی شکار ہیں مگر ہمارے پاس ایسے معاملے زیادہ آتے ہیں جو گھریلو تشدد کے ہوتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ گھریلو تشدد کی شکار خواتین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جس کا ہم تصور کرسکتے ہیں۔ عام طور پر خواتین ایسے مسائل کو خاموشی سے جھیلتی رہتی ہیں مگر جب مسئلہ بہت سنگین ہوجاتا ہے تب وہ ہمارے پاس آتی ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ اب تک ہم نے گھریلو تشدد کے 3000 سے زیادہ کیسوں کی کونسلنگ کی ہے۔ عموماً ایسے معاملات میں سمجھا بجھا کر مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی کبھی مسئلہ حل نہ ہوتو پولس کی مدد بھی لی جاتی ہے۔ ادھر ڈاکٹر کمال احمد بتاتے ہیں کہ گھریلو تشدد کی شکار کئی خواتین کو علاج ومعالجے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ سوشل پرائڈ ویلفئر سوسائٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسی خواتین کی طبی مدد بھی کی جائے۔

awaz

سوسائٹی کے دفتر میں مدد کی خواستگار خواتین

 ڈاکٹر کمال احمد بتاتے ہیں کہ خواتین کا بڑا مسئلہ انہیں بااختیار بناکر حل کیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں ہماری کوشش ہے کہ انہیں تربیت دے کر ہنر مند بنایا جائے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر بدرپور علاقے کے جیت پور میں خواتین کے لئے ایک تربیتی مرکز چل رہا ہے۔ یہاں انہیں ٹیلرنگ اور کپڑے کی کٹنگ سکھائی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں مہندی لگانا بھی سکھایا جاتا ہے۔ گزشتہ چند مہینوں کی کوشش سے اب تک تین سو سے زیادہ خواتین اور لڑکیوں نے تربیت لی ہے اور سینکڑوں اب بھی زیر تربیت ہیں۔

سوشل پرائڈ ویلفئیرسوسائٹی کے صدر نے بتایا کہ ملک بھر میں خواتین کے خلاف جرائم بڑھ رہے ہیں۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ راجدھانی دہلی ان شہروں میں سرفہرست ہے جہاں خواتین کے خلاف جرائم زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں سوسائٹی نے دہلی خواتین کمیشن کے اشتراک سے خواتین کے لئے ایک سیلف ڈیفنس پروگرام منعقد کیا جس میں خواتین اور لڑکیوں کو اپنی دفاع کے حوالے سے بیدار کرنے کی کوشش کی گئی۔ پروگرام میں دفاع کے طریقےتوبتائے ہی گئے ساتھ میں انہیں اس کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ 

ڈاکٹرصاحب بتاتے ہیں کہ راجدھانی دہلی میں مفت علاج ومعالجہ کا خاصا بہتر انتظام ہے مگر عام لوگوں کو پھر بھی بہت کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ گھریلو تشدد کی شکار خواتین کا بڑا طبقہ غیر تعلیم یافتہ اور اپنے حقوق سے ناواقف ہے۔ ایسے میں اگر انہیں علاج کی ضرورت ہوتی ہے تو سوسائٹی کی جانب سے مدد کی جاتی ہے۔ کچھ خواتین کو محلہ کلینک اور سرکاری اسپتالوں میں بھی بھیجا جاتا ہے۔

awaz

سوسائٹی کے ایک پروگرام میں بچے

انہوں نے مزید جانکاری دی کہ سوشل پرائڈ ویلفئر سوسائٹی کی جانب سے مفت ہیلتھ چیک اپ کیمپ بھی لگائے جاتے ہیں۔ دہلی این سی آر میں اب تک درجنوں کیمپ لگائے جاچکے ہیں اور صحت کے مختلف مسائل میں مبتلا 40000 سے زیادہ مریضوں کا علاج کیا گیا ہے۔ سوسائٹی اب تک تقریباً 200 کیمپ لگا چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچی بستیوں غریب علاقوں میں ہیلتھ کیمپ لگایا جاتا ہے۔ شاہین باغ میں گھریلو نوکر کے طور پر کام کرنے والے نیپالی بڑی تعداد میں بیوی، بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ بے حد غریب ہیں اور انہیں علاج ومعالجے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی طرح شرم وہار اور کنچن کنج میں روہنگیا رہتے ہیں جن کی زندگی مسائل سے گھری ہوئی ہے۔ ہماری سوسائٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ علاج ومعالجے میں ان کی مدد کی جائے۔

ڈاکٹرکمال احمد کا کہنا ہے کہ ان غریب لوگوں کا ایک مسئلہ بچوں کی تعلیم وتربیت بھی ہے ایسے میں سوسائٹی نے ایسی کوششیں کی ہیں کہ کوڑا چننے والے بچوں اور روہنگیا بچوں کو بنیادی تعلیم دلاکر سرکاری اسکولوں میں داخلہ کرایا جائے۔اس کے لئے سوسائٹی نے شرم وہار میں اسکول بھی کھولاتھا مگر یہ کوشش ایک حد تک ہی کامیاب ہوئی کیونکہ ہمارے وسائل محدود ہیں اور روہنگیا اپنے بچوں کو تعلیم دلانے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھاتے ہیں۔

سوشل پرائڈ ویلفئیرسوسائٹی کے زیر اہتمام چلنے والی مہیلاپنچایت کی نگراں فردوس بیگم آوازدی وائس کو ایک خصوصی ملاقات میں بتاتی ہیں کہ خاندان میں کسی قسم کا بھی مسئلہ ہو اس سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوتی ہیں۔ غربت ہو،بیماری ہو یا قدرتی آفات ہوں، سب سے زیادہ خواتین پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ ہم عورتوں کو مسائل سے پوری طرح نجات تو نہیں دلاسکتے مگران کی پریشانی کو کم کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ سوسائٹی کی جانب سے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ضرورت مند خاندانوں کے لئے کھانے اور کپڑے کا انتظام کیا جائے۔ ایسے میں غریب خاندانوں کے بیچ سوسائٹی کی جانب سے راشن کٹس تقسیم کی جاتی ہیں۔

awaz

سوسائٹی کے دفتر میں خواتین

راشن کٹس کے اندر چاول، آٹا، دال، تیل، نمک، چائے وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ رمضان میں جو راشن کٹس بانٹی جاتی ہیں ان میں افطار اور عید سے متعلق سامان ہوتے ہیں۔ سوسائٹی کی جانب سے اب تک 4000 سے زائد خاندانوں میں راشن کٹس تقسیم کی گئی ہیں۔ کوڈ19وبا کے دوران اس شعبے میں زیادہ کام ہوا۔ اس کے بعد سال گزشتہ جمنا میں سیلاب کے دوران بھی مدن پور کھادر اور کنچن کنج میں متاثرین کے لئے کھانے کا انتظام کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ دہلی میں اچانک سیلاب کی صورتحال کے وقت 3000 سے زیادہ لوگوں میں پکا ہوا کھانا تقسیم کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اسی طرح ہماری کوشش ہوتی ہے کہ سردیوں میں ضرورت مندوں کو کمبل اور گرم کپڑے فراہم کئے جائیں۔ سوسائٹی کی اس کوشش سے 6000 سے زائد خاندان مستفید ہوئے ہیں۔

awaz

مہیلاپنچایت کے پروگرام میں خواتین

سوسائٹی مستقبل میں کیا پروگرام رکھتی ہے؟ ہمارے اس سوال کے جواب میں فردوس بیگم کہتی ہیں کہ ہم بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں کہ مگر ہمارے وسائل محدود ہیں۔ ہمیں اہل خیرکا تعاون ملتا ہے جس کے سبب کام چلتا رہتا ہے مگر پھر بھی ہماری کوشش ہے کہ اپنا دائرہ کار بڑھائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ خاص طور پر خواتین اور بچوں کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ گھریلو تشدد کی شکار خواتین اور بے سہارا بزرگ خواتین کے لئے ایک ایسا آشیانہ بنانا چاہتے ہیں جہاں انہیں تمام طرح کی سہولیات ملیں اور وہ اپنی زندگی بہتر طریقے سے جی سکیں۔