آزاد ہندوستان میں مسلم خواتین کی اڑان

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 07-03-2024
آزاد ہندوستان میں مسلم خواتین کی  اڑان
آزاد ہندوستان میں مسلم خواتین کی اڑان

 

علی احمد

ہندوستان پر حکمرانی کرنے والی رضیہ سلطانہ ہر دور میں خواتین کے لیے ایک مثال رہی ہیں، یہ رضیہ سلطانہ کا حوصلہ اور عزم ہی ہے جس نے آنے والی صدی میں ہندوستان کی خواتین کو ہر شبہ حیات میں نمایاں کردار ادا کرنے کا حوصلہ دیا ہے، یہ وہی سوچ اور ہمت ہے جس نے خواتین کیلئے ہر میدان میں دروازے کھول دئیے،دراصل ہندوستان کی خواتین نے اسی حوصلہ کو طاقت بنایا جس نے رضیہ سلطانہ کو طاقت اور حوصلہ کی علامت بنایا تھا، تحریک آزاد ی سے ابتک سیاست اور مختلف میدانوں میں مسلم خواتین کو کوئی پردے یا پابندیوں میں جکڑ نہیں سکا

بلاشبہ آزادی کے بعدہندوستان میں مختلف میدانوں میں خواتین نے اڑان تو بھری مگر آج خواتین کو جس مقام پر ہونا چاہیے تھا وہ ابھی بھی حاصل نہیں ہوسکا ہے۔وہ کامیابی اب بھی نہیں ملی ہے جس کی ایک ترقی پسند معاشرہ میں امید یا توقع ہوتی ہے۔اس کے باوجود بات سیاست کی ہو کھیل کی ،ادب کی ہو یا پھرسفارت کی۔ہر میدان میں مسلمان خواتین کی موجودگی کے ثبوت مل جاتے ہیں۔جنگ آزادی سے آزادی کے بعد کی سیاست میں ایسے کئی نام آئے جنہوں نے خواتین کے دلوں میں کچھ کرنے کا جوش وجنون پیدا کیا۔یہی وجہ ہے کہ اگر جنگ آزادی سے سیاست تک ارونا آصف علی کا نام آتا ہے توپھر سیدہ انوارہ تیمور نے آسام کی وزیر اعلی بننے کا اعزاز حاصل کیا تو محبوبہ مفتی جموں وکشمیر کی وزیر اعلی بنیں۔نجمہ ہیبت اللہ راجیہ سبھا کی ڈپٹی اسپیکر بنیں تو پھر نائب صدر کا انتخاب لڑا،اب منی پور کی گورنر ہیں۔ ایم فاطمہ بیوی نے سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج بن کر نام روشن کیا۔پروین طلحہ انڈین سول سروسیز میں ہندوستان کی پہلی مسلم خاتون تھیں جوریونیو سروس سے یونین پبلک سروس کمیشن تک فائزرہیں۔فلمی دنیا میں مینا کماری،مدھو بالا ،شبانہ اعظمی کے ساتھ وحیدہ رحمان اور کٹرینا کیف نے اداکاری کا لوہا منوایا توادب میں عصمت چغتائی کا ڈنکا بجا۔قرتعین حیدر اور واجدہ تبسم جیسے نام ابھرے۔بر صغیر میں خواتین کے ذریعے انجام پانے والے علمی کاموں کا دائرہ تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت نبوی، تاریخ اور اسلامیات کے دیگر مضامین پر محیط ہے۔بات مذہبی ریسرچ کی کریں توڈاکٹرفریدہ خانم (سابق پروفیسر شعبہ اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ) نے اپنے والد مولانا وحید الدین خاں کے انگریزی ترجمہ قرآن پر نظر ثانی کی ہے اور ان کی تفسیر ‘تذکیر القرآن’ کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ اردو تفاسیر میں ثریا شحنہ کی ‘تبیین القرآن فی تفسیر القرآن’ (طبع حیدرآباد، انڈیا 2012 )سامنے آئی ہے۔آزادی کے بعد ملک کے بدلے ماحول میں کہیں پردے میں رہ کر اور کہیں پردے کی دیوار گرا کر مسلم خواتین نے جدوجہد کی اور نئی مثالیں قائم کیں۔اس بات کو تسلیم کرایاکہ مواقع کا انتظار کرنے کے بجائے مواقع پیدا کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔اس کی ایک مثال ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کی ہے جس نے ایک ایسے کھیل میں جھنڈا گاڑ دیا جو کم سے کم ہندوستانی خواتین کے بس میں نہیں تھا۔بیوٹیشن شہناز حسین نے اس میدان میں پرچم لہرایا جس میں سب کی نظریں بیرون ملک اٹھ جاتی تھیں۔سماجی کاموں میں نفیسہ علی کا نام ہے۔ماضی میں گوری ایوب نے شہرت کمائی تھی جو ایک قلم کار بھی تھیں جنہوں نے کولکتہ میں 1964کے فرقہ وارانہ فسادمیں بڑے پیمانے پر ریلیف کا کام کیا تھا۔

اب تو جدھر نظر ڈالیں ایسے نام نظر آجائیں گے جو ہندوستانی مسلم خواتین کی نئی اڑان کا ثبوت دیتے ہیں۔

 خواتین کے اس سفر کو اگر سیاست سے شروع کرتے ہیں تو ارونا آصف علی کے ساتھ محسینہ قدوائی،نجمہ ہپت اللہ اور سیدہ اوارہ تیمور اور محبوبہ مفتی کے نام سامنے آتے ہیں۔جنہوں نے سیاست میں نام روشن کیا،اپنی سیاسی اہلیت کا نمونہ پیش کیا۔کسی نے ریاست سنبھالی تو کسی نے راجیہ سبھا ۔

 ارونا آصف علی کا نام ہندوستانی سیاست میں آزادی کی تحریک سے جڑا رہا اور پھر وہ سیاست میں سرگرم رہیں۔جن کو ہندوستان چھوڑو تحریک میں ممبئی کے میدان میں ٹینک پر ترنگا لہرانا کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔آزادی کے بعد وہ سیاست میں سرگرم رہیں اور 1958دہلی کی پہلی میئر بنی تھیں۔جبکہ1960میں انہوں نے ایک میڈیا ہاوس کا آغاز کیا تھا۔1997میں انہیں ملک کا سب سے بڑا شہری اعزاز ‘‘بھارت رتن ’’ دیا گیا تھا۔

 سیدہ تیمور ،آسام کی سابق واحد خاتون وزیر اعلیٰ ۔81سالہ سیدہ تیمور نے دسمبر 1980سے جون 1981 تک ریاستی حکومت کی قیادت کی تھی۔ کچھ سال سے بیمار رہی ہیں اور آسٹریلیا میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہ رہی ہیں۔سیدہ تیمور میں 1988میں راجیہ سبھا ممبر رہ چکی ہیں۔اس کے علاوہ وہ 1972،1978،1983اور1991میں راجیہ ودھان سبھا کی ممبر بھی رہ چکی ہیں۔ان کی وزارت اعلٰی کا دور اس وقت ختم ہوا جب ریاست کو چھ ماہ کیلئے صدر راج کے تحت رکھا گیا تھا۔ 1983سے 1985کے بیچ وہ اسی ریاست میں عوامی تعمیرات کی وزیر رہیں۔ 1991میں وہ آسام میں وزیر برائے زراعت بنائی گئیں۔ 2011میں کانگریس کا ساتھ چھوڑ کر وہ آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف)شامل ہوگئی تھیں۔انورہ تیمور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے معاشیات میں آنرز کی ڈگری حاصل کی تھی۔انورہ تیمور ابتدائی دور میں دیبی چرن برْوعہ گرلز کالج میں معاشیات کی لیکچرر کے طور پر کام کیا۔

نجمہ ہیبت اللہ کی سیاست کا آغاز کانگریس سے ہوا تھا مگر پھر بی جے پی کی آواز اور وزیر بنی تھیں ۔جنہیں اب منی پور کا گورنر بنا دیا گیا ہے۔ساتھ ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی چانسلر بھی ہیں۔وہ 6مرتبہ راجیہ سبھا کیلئے منتخب ہوئی تھیں۔۔1980سے2016کے درمیان وہ راجیہ سبھا میں رہیں۔مولانا ابوالکلام آزاد کر قریبی رشتہ دار ہیں۔

 بات ادب سے شروع کریں توسب سے پہلے نام آتا ہی ذاکٹر رشید جہاں، ہندوستان میں اردو کی ایک ترقی پسند مصنفہ، قصہ گو، افسانہ نگار اور ناول نگار تھیں، جنہوں نے خواتین کی طرف سے تحریری اردو ادب کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ وہ پیشے سے ایک ڈاکٹر تھیں۔رشید جہاں 5 اگست، 1905کو اترپردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد شیخ عبد اللہ علی گڑھ کے مشہور تعلیم اور مصنف اور علی گڑھ خواتین کالج کے بانیوں میں سے ایک تھے، جنہیں ادب و تعلیم میں 1964 میں حکومت ہند کی طرف سے پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔وہ دہلی کے لارڈ ہارڈنگ میڈیکل کالج میں داخل ہوئیں اور وہاں سے 1934میں ڈاکٹر بن کر نکلیں۔ 1934میں ہی ان کی شادی محمود الظفر کے ساتھ ہوئی جو اردو کے ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ امرتسر کے اسلامیہ کالج میں پرنسپل بھی تھے۔ وہیں ڈاکٹر رشید جہاں کی ملاقات فیض احمد فیض سے ہوئی اور وہ با قاعدہ ترقی پسند تحریک کی سرگرم رکن بن گئیں۔بحیثیت ڈاکٹر ان کا تقرر لکھنؤ میں ہوا تھا جہاں انہوں نے ترقی پسندو ں کے ساتھ مل کر انجمن ترقی پسند مصنفین کو بہت تقویت پہنچائی تھی۔ اس زمانے میں سید سجاد ظہیر، مجاز لکھنوی، علی سردار جعفری وغیرہ لکھنؤ میں ہی تھے جو سب کے سب ترقی پسند تحریک میں سرگرم طور پر شامل تھے۔ڈاکٹر رشید جہاں 29 جولائی، 1952میں کینسر کا شکا رہوئیں انہیں علاج کیلئے ماسکو لے جایا گیا جہاں 13 اگست، 1952 کو ان کا انتقال ہو گیا۔

ایک بڑا نام رہا ہے عصمت چغتائی کا۔ اردو ادب کی تاریخ میں نمایاں حیثیت۔ ناول، افسانہ اور خاکہ نگاری کے میدان میں انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ انھوں نے اردو میں ایک بے باک تانیثی رویے اور رجحان کا آغاز کیا اور اسے فروغ بھی دیا۔ شاہد لطیف سے ان کی شادی ہوئی جو تھوڑے سے ابتدائی دنوں کو چھوڑکر ہمیشہ جی کا جنجال بنی رہی۔ فلم، صحافت اور ادب ان کی سرگرمیوں کا مرکز و محورہیں۔ ان کا انتقال ممبئی میں24 اکتوبر1991کو ہوا۔ انھیں ان کی وصیت کے مطابق بمبئی کے چندن واڑی سری میٹوریم میں سپرد برق کیا گیا۔عصمت چغتائی نے ضدی، ٹیڑھی لکیر، ایک بات، معصومہ، جنگلی کبوتر، سودائی، انسان اور فرشتے، عجیب آدمی اور ایک قطرہ خون جیسے مشہور ناول لکھے۔ باغیانہ خیالات پر مشتمل ایک ناولٹ دل کی دنیا تحریر کیا۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں رشید جہاں کی قائم کردہ روایت کو بلندیوں پر پہنچایا اور عورت کے مسائل کی پیش کش میں رقت آمیز اور رومانی طرز کو بدل کر ایک بے باک، تلخ لیکن جرات آمیز اسلوب کو رائج کیا۔ عصمت نے اپنے تخلیقی اظہار کے لیے گھروں میں بولی جانے والی جس ٹھیٹھ اردو اور کٹیلے طنزیہ لہجے کو اپنایا وہ ان کی انفرادیت کا ضامن بن گیا۔

واجدہ تبسم، افسانہ نگاری میں چند نام اتنے قد آور ہیں کہ وہ پورے افسانوی ادب پر سایہ داردرخت کی طرح چھا گئے۔ ان کی موجودگی میں کسی نئی کونپل کا نکلنا اور پھر نشو و نما پا کر منفرد انداز میں اپنی شناخت کرانا ممکن تھا۔ لیکن کچھ افسانہ نگار اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کیلئے مسلسل اس شعبہ میں ریاضت کرتے رہے اور اسی مستقل مزاجی اور لگن کے نتیجہ میں اپنا تعارف اچھے افسانہ نگاروں کی فہرست میں شامل کرانے میں کامیاب ہوئے۔معروف افسانہ نگار واجدہ تبسم کا شمار بھی افسانہ نگاروں کی اس قبیل میں ہوتا ہے جن کے افسانے اسلوب نگاری، مقصدیت، زبان و بیاں اور تکنیک کے اعتبار سے معیاری شمار ہوتے ہیں۔ واجدہ تبسم کا شمار اردو ادب کی چند بہترین خواتین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ واجدہ کے افسانوں کے معیاری ہونے کی دلیل یہ ہے کہ نہ صرف ان کے افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں بلکہ ہر عمر اور ہر طبقہ کے افراد میں پسند کئے جاتے ہیں۔

قرت العین حیدر ایک خاتون ناول نگار۔20 جنوری، 1927میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کئے جاتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد قرت العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ لیکن بعد میں انہوں نے ہندوستان آ کر رہنے کا فیصلہ کیا۔قرت العین حیدر نہ صرف ناول نگاری کیلئے ہی نہیں بلکہ اپنے افسانوں اور بعض مشہور تصانیف کے ترجموں کیلئے بھی جانی جاتی ہیں۔ ان کے مشہور ناولوں میں آگ کا دریا، آخرِ شب کے ہم سفر، میرے بھی صنم خانے، چاندنی بیگم اور کارِ جہاں دراز شامل ہیں۔ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظرآتا ہے اور ان کے دو ناولوں آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے۔آخرِ شب کے ہم سفر کیلئے 1989میں انہیں ملککے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ انعام سے بھی نوازا گیا جبکہ 1985میں پدم شری اور 2005میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دئیے گئے۔11 سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرت العین حیدر کو اردو ادب کی ورجینا وولف کہا جاتا ہے۔انھیں ساہتیہ اکادمی اور گیان پیٹھ اکادمی کے اعزازات بھی مل چکے ہیں۔ ساہتیہ اکادمی کا اعزاز ان کے افسانوی مجموعہ پت جھڑ کی آواز پر 1967میں تفویض ہوا جبکہ گیان پیٹھ اعزاز 1989میں آخرِ شب کے ہم سفر پر دیا گیا تھا۔21 اگست، 2007کو دہلی میں طویل علالت کے بعد ان کا انتقال ہوا۔

پروین طلحہ ،ہندوستان کی پہلی مسلم خاتون جنہوں نے انڈین سول سروسیز جوائن کی تھی۔وہ پہلے انڈین ریو نیو سروس میں آفیسر بنی تھیں اور پھر یونین پبلک کمیشن کی ممبر بنی تھیں۔2014میں انہیں پدم شری ایوراڈ سے نوازہ گیا تھا۔وہ لکھئنو کے مجاہد آزادی محمد طلحہ کے گھر پیدا ہوئی تھیں۔وہ لکھنو یونیورسٹی میں1965میں اکنامکس کی پروفیسر بنی تھیں اور1969میں سول سروس میں کامیاب ہونے کے بعد نئی ملازمت اپنائی تھی۔وہ نرکوٹکس ڈیپارمنٹ کی ڈپٹی کمشنر اتر پردیش بنی تھیں ۔یہ عہدہ حاصل کرنے والی وہ ملک کی پہلی خاتون تھیں۔2009میں وہ ریٹائر ہوئی تھیں۔ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے قلم اٹھایا اور 2013میں پہلی کتاب ‘فدائے لکھئنو’ لکھی تھی۔

نفیسہ علی،ایک بنگالی اداکارہ جنہوں نے ایک سماجی رضاکارکی حیثیت سے بہت شہرت کمائی ہے۔وہ ہر فن مولا ہیں،وہ 1972میں نیشنل سوئمنگ چمپئین رہی تھیں۔1976میں انہوں نہ مس ورلڈ مقابلہ حسن میں ہندوستان کی نمائندگی کی تھی اور دوسری رنر اپ بنی تھیں۔وہ کولکتہ جم خانہ میں جوکی بھی تھیں۔انہوں نے بالیووڈ میں کام کیا ۔ششی کپور کے ساتھ مشہور فلم ‘جنون ’ مییں کام کیا تھا۔آخری فلم 2010میں دھرمیندر کے ساتھ یملہ پگلا دیوان آئی تھی۔2004میں لوک سبھا چناؤ کولکتہ سے ہار گئی تھیں پھر سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر لکھنو سے چناؤ لڑا تھا اب دوبارہ کانگریس میں لوٹ آئلی ہیں۔

شہناز حسین،ایک اہم ہندوستانی خاتون صنعت کار ہیں جنہیں ان کے اپنے ایجاد کردہ ہربل کاسمیٹکس کیلئے جانا جاتا ہے،شہناز ہربلز انکارپوریٹیڈ کی سی ای او ہیں۔ ان میں جِلد کی دیکھ بھال کی مصنوعات سب سے اہم ہیں۔ 2006میں انہیں پدم شری اعزاز سے نوازا گیا تھا، 1996میں انہیں سکسس میگزین کی جانب سے ’’دنیا کی سب سے عظیم خاتون صنعتکار‘‘ کا ایوارڈ دیا گیا تھا۔شہناز حسین مرحوم جسٹس نصیراللہ بیگ کی بیٹی ہیں جو الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس تھے۔ ان کے دادا، جج سمیع اللہ بیگ، متحدہ صوبے کے ایک اہم مسلم سیاست دان تھے، جنہوں نے بعد میں حیدرآباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کے طور پر اپنی خدمات پیش کی۔ ان کے چچا، مرزا حمید اللہ بیگ، ہندوستان کے سابق چیف جسٹس تھے۔شہناز حسین نے صرف ایک ڈگر پر چلنے والی سست زندگی کو کار آمد بنانے کیلئے لوگوں کیلئے قابل تقلید مثال قائم کردی اور آج وہ بین الاقوامی سطح کی خاتون بن چکی ہیں۔ انہوں نے کاسمیٹکس کے شعبے میں قدم رکھا اور اپنی جدوجہد اور لگن سے اس کاروبار میں اتنی کامیابی حاصل کی کہ ان کی حیثیت ایک گلوبل کارپوریٹ کی ہے۔ شہناز حسین گزشتہ 40 سال سے ‘‘شہناز ہربلز’’ کی سربراہی کر رہی ہیں۔ ان کا شمار ہندوستان کے چوٹی کے تجارتی گرووں میں ہوتا ہے۔ ان کے کامیاب سفر کو تجارتی شعبے میں کسی خاتون کی کامیابی کی انتہا سمجھا جا رہا ہے۔

ثانیہ مرزا نے ٹینس کی دنیا میں ایسا طوفان برپا کیا تھا کہ کرکٹ کی دادا گیری خطرے میں پڑ گئی تھی۔،وہ13اپریل2015کو دنیا کی نمبر ون ڈبل پلیئر بن گئی تھیں۔2003سے2013میں وہ سنگلز سے ریٹائر ہونے تک ہندوستان کی نمبر ون اسٹار رہیں۔ثانیہ نہ ملک کی لڑکیوں میں ٹینس کا جنون پیدا کیا جس کے سبب آج ٹینس میں نئے چہرے سامنے آرہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ثانیہ مرزا ایک تحریک کا نام تھا۔ جس نے ہندوستانی لڑکیوں کو پر پھیلا کر اڑنے کا موقع دیا ہے