‘مکتبہ جامعہ’ کو مسیحا کی تلاش

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 06-04-2024
 ‘مکتبہ جامعہ’ کو مسیحا کی تلاش
‘مکتبہ جامعہ’ کو مسیحا کی تلاش

 

معصوم مرادآبادی

 اردوکتابوں کے شائقین کے لیے یہ خبر تکلیف کا باعث ہوگی کہ مکتبہ جامعہ کی اردو بازار شاخ میں ایک بار پھر تالا ڈال دیا گیا ہے۔گزشتہ سال ستمبر میں جب اردو بازار شاخ میں تالا ڈال کر اس کے انچارچ علی خسروزیدی کو گھر بٹھادیا گیا تھا تو راقم نے اس معاملے کو سوشل میڈیا کے ذریعہ اردو والوں تک پہنچایا تھا۔ اس پوسٹ کا خاطر خواہ اثر ہوا اور یہ معاملہ قومی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا۔ انگریزی روزنامہ ‘ٹائمز آف انڈیا ’ اور آواز دی وا ئس  میں تفصیلی رپورٹیں شائع ہوئیں ۔ اس کے ساتھ ہی اردو اخبارات نے بھی اس مسئلہ کو اپنے صفحات میں جگہ دی ۔ میڈیا رپورٹوں کے دباؤ میں ہیڈ آفس نے علی خسرو زیدی کو بلاکر مکتبہ کی اردو بازار شاخ کودوبارہ کھول دیا۔ اس موقع پر ہیڈ آفس کے انچارج نے یہ غلط بیانی کی کہ اردو بازار شاخ دراصل‘ جی20’ اجلاس کی وجہ سے بندکی گئی تھی ۔
 
لیکن اب جبکہ اردو بازار شاخ میں دوسری تالا بندی کو ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرچکاہے تو اس کے بند کرنے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی ہے۔ ہم نے جب اس معاملے کی چھان بین کی تو پتہ چلا کہ گزشتہ سال ستمبر میں اردو بازار شاخ تو کھول دی گئی تھی مگر ہیڈ آفس میں بیٹھے ہوئے تن آسان لوگوں نے علی خسرو زیدی کے ساتھ تعاون نہیں کیا ، جس کے نتیجے میں وہ گزشتہ22؍فروری کو حساب کتاب ہیڈ آفس انچارج کے سپرد کرکے گھر بیٹھ گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ مکتبہ جامعہ گزشتہ کئی برسوں سے ناگفتہ بہ حالات کا شکار ہے۔ تقریباً تین سال سے ملازمین کو تنخواہیں نہیں ملی ہیں اور جو کتابیں اسٹاک میں ختم ہوگئی ہیں ، وہ ڈیمانڈ کے باوجود شائع نہیں کی جارہی ہیں۔حالات دن بہ دن ابتر ہوتے جارہے ہیں اوروہ جامعہ ملیہ اسلامیہ جس کے پاس مکتبہ کے بیشتر شیئر ہیں ، اس سے آنکھیں موندے بیٹھا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مکتبہ جامعہ کی روزبروز بگڑتی ہوئی حالت کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اس کا ذمہ دار جامعہ ملیہ اسلامیہ ہے یاپھر مکتبہ جامعہ کے ہیڈآفس میں موجود وہ عملہ ہے جو دفتر میں محض حاضری لگانا ہی اپنی ڈیوٹی سمجھ بیٹھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مکتبہ کے ملازمین کو پچھلے تین سال سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں، جس کی وجہ سے وہ مالی پریشانیوں کا شکار ہیں مگر اس کا یہ مطلب توہرگز نہیں ہے کہ باڑ ہی کھیت کو کھانے پر آمادہ ہوجائے۔
سبھی جانتے ہیں کہ مکتبہ جامعہ کی دہلی ، بمبئی اور علی گڑھ میں تین شاخیں ہیں اور یہ بہت پرائم جگہوں پر ہیں۔ اس کے علاوہ دہلی کے پٹودی ہاؤس میں لبرٹی آرٹ پریس کی قیمتی عمارت بھی مکتبہ جامعہ کی ملکیت ہے۔ دہلی کے ہی بوانہ علاقہ میں مکتبہ جامعہ کی ایک اور قیمتی اراضی ہے ، لیکن یہ سب مکتبہ کے کارپردازوں کی بے حسی کا شکار ہیں۔
مکتبہ میں اس وقت کوئی جنرل منیجر بھی نہیں ہے جس کی تقرری خود جامعہ کرتا ہے اور یہ کام اشاعتی صنعت سے واقف فرد کی بجائے کسی پروفیسر کو دیا جاتا ہے ۔ پچھلی تقرری کامرس کے پروفیسر این یو خان شیروانی کی صورت میں کی گئی تھی ، لیکن انھوں نے بھی اس کام میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔
سبھی جانتے ہیں کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مکتبہ جامعہ کے قیام کی داستان 1920 میں ایک ساتھ شروع ہوئی تھی۔ مکتبہ جامعہ کے قیام اور جدوجہد کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی۔جامعہ جہاں درس وتدریس کا ادارہ تھا تو وہیں مکتبہ جامعہ لوگوں کو روحانی غذا فراہم کرنے کا ذریعہ تھا۔ یہ محض کوئی کاروباری اشاعت گھر نہیں تھا بلکہ اس نے مواد کے اعتبار سے انتہائی قیمتی کتابیں نہایت ارزاں قیمت میں شائع کیں اور لاکھوں لوگوں کے ذہن وشعور کو سیراب کیا۔مکتبہ جامعہ نے خلاق ذہنوں کی اہم تصنیفات کے علاوہ طلبا ء کی نصابی ضرورتوں کے مطابق درسی کتابیں بھی شائع کیں۔‘ معیاری سیریز’ کے عنوان سے مختصر مگر جامع کتابوں کی اشاعت کا منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچایا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اہل علم ودانش اور طلباء مکتبہ جامعہ کی مطبوعات سے تعلق خاطر رکھتے ہیں ۔ درس گاہوں اور دانش گاہوں میں اس کی مطبوعات کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جامعہ کے ساتھ ساتھ مکتبہ جامعہ نے بھی ترقی کی منزلیں طے کیں اور یہ جامعہ کے بازو کے طور پر ایک ایسا ادارہ بن گیا جو ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم تھے۔جامعہ کی لائبریری کو بھی مکتبہ جامعہ سے بہت تقویت حاصل ہوئی ۔ اس مکتبہ نے اشاعتی صنعت میں اپنا نام سنہری حروف میں درج کرایا۔دہلی کے علاوہ بمبئی اور علی گڑھ جیسے شہروں میں اس کی شاخیں قائم ہوئیں جو تشنگان علم وادب کا ایک اہم مرکز قرار پائیں۔لیکن گزشتہ ایک عرصہ سے مکتبہ جامعہ کا اشاعتی کاروبار ٹھپ ہے۔ نہ تو وہاں سے کوئی نئی کتاب شائع ہوئی ہے اور نہ ہی اس ادارے کے تاریخ ساز جریدوں ‘ کتاب نما’ اور ‘پیام تعلیم’ کی اشاعت باقی رہی ہے۔ کتابوں کے وہ پرانے ٹائیٹل جن کی اردو والوں میں ہمیشہ مانگ رہی ہے اور جو مکتبہ جامعہ کی شناخت سمجھے جاتے ہیں ، ناپید ہیں اور دور دور تک ان کی اشاعت کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
جو لوگ کتابوں کے شیدائی ہیں ، انھیں مکتبہ جامعہ کے حوالے سے ایک نام ضرور یاد ہوگاجس میں جامعہ کے بانیوں کی روح محلول کرگئی تھی اور جس نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے اس ادارے کو بام عروج تک پہنچانے کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا۔یہ شخصیت تھی شاہد علی خاں کی جو کسی زمانے میں مکتبہ جامعہ کے منیجر ہوا کرتا تھے اور مکتبہ کے دفتر میں واقع ان کی چھوٹی سی میز پر ہر مشکل کو آسان کرنے کا نسخہ موجود تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب مکتبہ جامعہ کا دفتر تکونہ پارک کے نزدیک اسی گل مہر روڈ پر ہوا کرتا تھا جہاں کسی زمانے میں ڈاکٹرذاکر حسین،ڈاکٹر عابدحسین، خواجہ غلام السیدین اور جامعہ کے دیگر اکابرین کی قیام گاہیں تھیں۔
مکتبہ جامعہ کی عمارت کی تعمیر کا بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ جس زمانے میں ٹیچرزٹریننگ کالج کی عمارت بن رہی تھی تو مکتبہ جامعہ کے لئے بھی ایک مستقل عمارت کی ضرورت محسوس کی گئی۔ لیکن اس وقت جامعہ کے پاس فنڈ کی قلت تھی۔ ٹیچرز ٹریننگ کالج کے بلڈر پرتھوی راج نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر جامعہ تیار ہوتو وہ ٹیچرز ٹریننگ کالج کی عمارت کی تعمیر سے بچے ہوئے سامان سے مکتبہ جامعہ کی عمارت تعمیر کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے صرف جامعہ کو مزدوری کے پیسے ادا کرنا ہوں گے۔ یہ تجویز منظور ہوئی اور اس طرح مکتبہ جامعہ کو ایک مستقل عمارت مل گئی۔
مکتبہ جامعہ پر پہلا ستم یہ ہوا کہ پروفیسر مشیرالحسن کے دور میں مکتبہ کی اس عمارت پر بلڈوزر چلاکر اسے جامعہ کالج کے پیچھے جھونپڑیوں میں منتقل کردیا گیا اور یہاں ارجن سنگھ کے نام پر فاصلاتی تعلیم کا ایک ادارہ قائم کردیا گیا۔ اسی دور میں مکتبہ جامعہ سے شاہدعلی خاں بھی علیحدہ ہوئے ۔ حقیقت یہ ہے مکتبہ جامعہ کا زوال اسی روز شروع ہوگیا تھاجس روز مکتبہ سے شاہد علی خاں جدا ہوئے تھے۔ان کے چلے جانے کے بعدمکتبہ جامعہ کے دونوں جریدوں‘کتاب نما’اور ‘پیام تعلیم’کی بھی حالت دگر گوں ہوگئی۔ شاہد علی خاں کے بعد اس تاریخ ساز اشاعتی ادارے کی باگ ڈور جن لوگو ں کو سونپی گئی ،وہ اس کے اعزازی ذمہ دار تھے اور اشاعتی صنعت سے ان کا دور تک بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔
بہرحال مکتبہ جامعہ کی عمارت جن جھونپڑوں میں منتقل ہوئی تھی وہاں ان قیمتی کتابوں کو بری حالت میں دیکھاگیا۔ اس کے بعد مکتبہ انصاری ہیلتھ سینٹر کی عمارت میں منتقل ہوا اور اس طرح وہ ایک یتیم بچے کی طرح ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔ آج ہزاروں قیمتی کتابیں شائع کرنے والا یہ تاریخ ساز ادارہ اپنی حالت پر ماتم کناں ہے۔چند سال قبل قومی اردوکونسل (این سی پی یو ایل)نے اس تاریخ ساز ادارے کی دوسونایاب کتابیں اپنے صرفہ پر شائع کیں۔ یہ کام پروفیسر خالد محمود کی کوششوں سے عمل میں آیا، جو اس وقت مکتبہ کے انچارج تھے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عروج وزوال دنیا کا دستور ہے اور آج اردو اشاعتی صنعت ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ لوگوں میں کتابیں خریدنے اور انھیں اپنی آنکھوں کا سرمہ بنانے کا رواج دم توڑرہا ہے۔ لیکن وہ ادارے ضرور ترقی کررہے ہیں جن کی وابستگی مستحکم اور مضبوط اداروں کے ساتھ ہے۔ مکتبہ جامعہ ایک ایسا ہی ادارہ ہے جس کی وابستگی جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی مرکزی دانش گاہ کے ساتھ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے مکتبہ جامعہ کو نئی زندگی دینے کے لئے جامعہ کو ایک ٹھوس منصوبہ بنانا چاہئے۔ اگر فوری طور پر مکتبہ جامعہ پر توجہ نہیں دی گئی توایک صدی تک لوگوں کے ذہنوں کو منور کرنے والا یہ تاریخ سازادارہ دم توڑدے گا اور اس کا سب سے بڑا نقصان اہل علم ودانش کو پہنچے گا۔امید ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ذمہ داران اس طرف متوجہ ہوں گے اور مکتبہ جامعہ کو بچانے کی کوئی سبیل ضرور پیدا کریں گے۔