لوک سبھا انتخابات:بہار کےکشن گنج میں اخترالایمان ۔ مجاہدعالم ۔ محمد جاوید میں سہ رخی مقابلہ ۔۔ جانیں کیا کہتے ہیں امیدوار

Story by  محفوظ عالم | Posted by  [email protected] | Date 22-04-2024
 بہار کا مسلم اکثریتی حلقہ کشن گنج لوک سبھا میں سہ رخی مقابلہ
بہار کا مسلم اکثریتی حلقہ کشن گنج لوک سبھا میں سہ رخی مقابلہ

 

محفوظ عالم ۔ پٹنہ 

بہار کے 40 لوک سبھا حلقوں میں کشن گنج لوک سبھا حلقہ ایک ایسا حلقہ ہے جہاں مسلم آبادی اکثریت میں ہے۔ قریب 70 فیصدی مسلم آبادی والے اس حلقے میں ہر سیاسی پارٹی مسلم امیدواروں کو ہی انتخابی میدان میں اتارتی ہے۔ 2024 کے لوک سبھا میں اس سیٹ پر این ڈی اے نے مجاہد عالم کو اپنا امیدوار بنایا ہے، مجاہد عالم جےڈی یو کے ٹکٹ پر اس حلقے سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔ کانگریس کے سٹنگ ایم پی محمد جاوید انڈیا الائنس کے امیدوار ہیں اور اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار اخترالایمان انتخابی میدان میں ہے۔ کشن گنج لوک سبھا حلقے میں سہ رخی مقابلہ ہے۔ سبھی امیدوار اپنی اپنی جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں اور کشن گنج کے ووٹروں کو اپنی اپنی طرف راغب کرنے کی قواعد جاری ہے۔ دوسرے فیز میں کشن گنج میں ووٹنگ ہوگی۔ یہ طے ہے کہ ان تین امیدواروں میں سے ہی کوئی ایک لوک سبھا پہنچنے میں کامیاب ہوگا۔ کس کے ہاتھ میں کشن گنج کا مقدر آئے گا یہ چار جون کو معلوم ہو جائے گا لیکن انتخابی مہم میں لگے کشن گنج کے امیدواروں نے اس علاقے کے مقدر کو بلدنے کا دعویٰ اور وعدہ عوام سے کر رہے ہیں۔ آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے امیدواروں نے اس علاقے کی ترقی کے سلسلے میں بڑی بات کہی ہے۔
این ڈی اے کے امیدوار
آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے این ڈی اے کے امیدوار ماسٹر مجاہد عالم نے کہا کہ کشن گنج میں کئی طرح کی مشکلیں ہیں جس کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ خاص طور سے یہاں روزگار کا معقول انتظام نہیں ہے نتیجہ کے طور پر ایک بڑی آبادی اس علاقے سے ہمیشہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ نیپال سے آنے والی ندیاں اس علاقے میں تباہی مچاتی ہے ان تمام مسئلوں کو حل کرنے کی میں کوشش کرون گا۔ مجاہد عالم کے مطابق اگر اس علاقے سے میں انتخاب جیتتا ہوں تو کشن گنج کی ترقی کے سلسلے میں میرے ذہن میں کئی طرح کا خاکہ ہے مثال کے طور پر یہاں ایمس جیسے اسپتال کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کی میری کوششوں سے پہلے اس کے لیے زمین بھی دستیاب کرائی گئی تھی۔ ایمس کے قیام کے لئے میں کوشش کرون گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ پورا علاقہ این ایچ سے گھرا ہے، اس حساب سے دیکھیں تو یہاں روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ صنعت کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی جائے گی وہیں مہانندا بیسن کا جو کام رکا ہے اس کو پورا کریں گے۔ کشن گنج جلال گنج ریلوے لائن کا کام منظور شدہ ہے لیکن اس کے لئے کسی طرح کی کوئی فنڈنگ نہیں ہوئی ہے، اس کو ہم لانے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کی یہ سب مدّعہ ہیں جس کو لیکر ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اے ایم یو کشن گنج سینٹر کو فنڈ نہیں ملا ہے، اگر میں یہاں سے جیت کر جاتا ہوں تو اے ایم یو کشن گنج کے مرکز کے لئے فنڈ کی حصولیابی کا راستہ ہموار کیا جائے گا ساتھ ہی ساتھ کوسی سیمانچل یونیورسیٹی کے قیام  اور مختلف امور پر ہم کام کریں گے۔
 
awazurduمجاہد عالم  کی انتخابی  مہم ۔۔ عوام سے ملاقات

مجاہد عالم کا کہنا ہے کہ کشن گنج کے بنیادی مسئلہ صحت، تعلیم، ندیوں کا کٹاؤ، بے روزگاری اور مزدوروں کا ہجرت ہے، ہم نے لوگوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ان کے ادھورے کام کو زمین پر اتارنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔ واضح رہے کہ مجاہد عالم پہلی بار لوک سبھا کا انتخاب لڑ رہے ہیں حالانکہ جےڈی یو نے کئی بار کشن گنج لوک سبھا حلقے سے اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے اور ہر بار جےڈی یو کے امیدوار کو ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مجاہد عالم تعلیم یافتہ ہیں اور کوچا دھا من اسمبلی حلقے سے ایم ایل اے بھی رہ چکیں ہیں، وہ عوامی کاموں میں دلچسپی لیتے رہے ہیں اور لوگ انہیں جانتے ہیں اور ان کے کام کو بھی دیکھا ہے۔ اب وہ لوک سبھا کا امیدوار ہیں اور کشن گنج کے سہ رخی مقابلہ میں اپنی مضبوط جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار
اے آئی ایم آئی ایم کے کشن گنج لوک سبھا کے امیدوار اخترالایمان نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کی کشن گنج لوک سبھا کی ترقی کا وعدہ تو سبھی نے کیا ہے لیکن کشن گنج کے مسئلہ کو حل کرنے کی نہ ہی ریاستی حکومت نے کوئی کوشش کی ہے اور نہ ہی مرکزی حکومت نے۔ واضح رہے کہ گزشتہ انتخاب میں بھی اخترالایمان اے آئی ایم آئی ایم کے ٹکٹ پر کشن گنج لوک سبھا حلقے سے انتخاب لڑے تھے لیکن ہار گئے تھے اس بار کافی مضبوطی کے ساتھ وہ انتخابی میدان میں اپنا تال ٹھوک رہے ہیں۔ اخترالایمان اپنی پارٹی کے ریاستی صدر ہیں۔ گزشتہ بہار اسمبلی کے انتخاب میں سیمانچل کے اسی علاقے سے پہلی بار ایم آئی ایم کے 5 ایم ایل اے جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن جیتنے کے بعد ان میں چار ایم ایل اے نے اے آئی ایم آئی ایم کو چھوڑ کر آرجےڈی کا دامن تھام لیا تھا۔ اخترالایمان اکیلے باقی رہ گئے تھے اور ایم آئی ایم کے وجود کو بچانے کے لئے پوری جدوجہد کرتے رہے۔ اخترالایمان ایک بے باک لیڈر ہیں، بہترین تقریر کرتے ہیں اور ہر مدّعہ پر کھل کر اپنی بات رکھتے ہیں۔ 2024 کے لوک سبھا انتخاب کے تعلق سے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کی اس بار ہماری پارٹی اس علاقہ میں کافی مضبوطی کے ساتھ انتخابی میدان میں موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشن گنج لوک سبھا حلقے کو پوری طرح سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ ک
 
awazurduاختر الایمان  انتخابی مہم کے دوران 

کشن گنج بہار کا واحد علاقہ ہے جہاں سے دو وقت کی روٹی کی تلاش میں لوگوں کا قافلہ ہجرت کرنے پر مجبور رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کی ملک کا کوئی بھی بڑا شہر ایسا نہیں ہے جہاں اس علاقے کے لوگ محنت و مزدوری کرتے نظر نہیں آتے ہوں۔ اخترالایمان کے مطابق اگر اس علاقے سے وہ جیتتے ہیں تو سب سے پہلے یہاں کے بنیادی مسئلہ جیسے: تعلیم، روزگار، ندیوں کا کٹاؤ، صحت اور ندیوں پر پل کی تعمیر کا کام وہ شروع کرائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی برسوں سے انصاف کا انتظار کر رہا ہے اے ایم یو کے برانچ کے لئے وہ فنڈ دلانے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کی اس علاقے کی بدنصیبی کو دور کرنے کی کبھی بھی کسی طرح کی کوئی پہل نہیں کی گئی ہے۔ حکومت کے مراعات سے یہ علاقہ پوری طرح سے محروم رہا ہے۔ انہوں نے کہا کی ذات پر مبنی مردم شماری رپورٹ سے یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ پورے بہار میں سب سے نظرانداز کردہ علاقہ یہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں موقع ملا تو آرٹیکل 371 کو بھی اس علاقے میں لاگو کرانے کی کوشش کی جائے گی تاکہ کشن گنج لوک سبھا حلقہ قومی دھارے کا حصہ بن سکے۔
انڈیا الائنس کے امیدوار
کانگریس کے امیدوار محمد جاوید سے ہماری بات نہیں ہو سکی، محمد جاوید انتخابی پروگراموں میں عوام سے وعدہ کر رہے ہیں کہ وہ اس علاقے کے ادھورے کاموں کو زمین پر نافذ کرائیں گے۔ انہوں نے کشن گنج کے اے ایم یو برانچ کے فنڈ کو لیکر کئی بار اپنی آواز بلند کی ہے اور اس سلسلے میں حکومت سے بار بار مطالبہ کیا ہے اور لوک سبھا میں بھی آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ غورطلب ہے کہ اے ایم یو کشن گنج کا معاملہ انتخابی مدّعہ رہتا ہے، اسی لیے سبھی سیاسی پارٹیاں اے ایم یو کی بات کرتی ہے۔ محمد جاوید بھی دوسرے امیدواروں کی طرح ان مدعوں کو ہی لوگوں کے سامنے رکھا ہے جس سے یہ علاقہ لگاتار مشکلوں سے دو چار ہوتا رہا ہے۔ جیسے تعلیم، صحت، روزگار، ندیوں کا کٹاؤ، سیلاب، کسانوں کے مسئلہ وغیرہ۔ غورطلب ہے کہ کشن گنج لوک سبھا کو کانگریس کا گڑھ بھی کہا جاتا ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں مودی لہر کے باوجود کشن گنج بہار کے 40 لوک سبھا حلقوں میں واحد ایسی سیٹ تھی جس پر کانگریس کے محمد جاوید جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔
awazurdu
 
کشن گنج لوک سبھا کا مدّعہ
دراصل کشن گنج لوک سبھا حلقہ ترقیاتی کام کے معاملہ میں ہمیشہ حاشیہ پر رہا ہے، دارالحکومت پٹنہ سے قریب چار سو کیلو میٹر دور اس علاقے پر نہ ہی ریاستی حکومت اور نہ ہی مرکزی حکومت کی کوئی خاص توجہ رہی ہے۔ کشن گنج ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے جہاں 60 فیصدی سے زیادہ آبادی کھیتی مزدوری کر کسی طرح اپنے دال روٹی کا انتظام کرتی ہے۔ روزگار کے مواقع کافی کم لوگوں کو حاصل ہے۔ کشن گنج سے دلی، مہا راشٹر، اور دیگر شہروں میں جانے والی ٹرینوں میں مزدوروں کی کھچاکھچ بھیڑ اس بات کی گواہی پیش کرتی ہے کہ کس قدر یہاں سے مزدور ہجرت کرتے ہیں۔ ہجرت کا مسئلہ ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے جو آج تک حل نہیں ہو سکا ہے۔ ہر بار یہاں سے جیت کر جانے والے سیاسی رہنماؤں نے کشن گنج کے بنیادی سوالوں کو حل کرنے کا وعدہ تو کیا لیکن ان کے وعدہ اس علاقے کے مقدر کو نہیں بل سکے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں درجنوں جگہ ندیوں پر آج بھی پل نہیں بنا ہے، صحت کا مسئلہ اس قدر سنگین ہے کہ کئی بار اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی مریض دم توڑ دیتا ہے۔ یہ تمام بنیادی وہ سوال ہیں جس کو حل کرانے کی چاہت کشن گنج کی عوام اپنے نمائندوں سے کرتی ہے۔ اب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوئے ہیں اور دلچسپ ہے کہ عوام کی یہ وہ ضرورتیں ہیں جس کو بنیادی ضرورتوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔ اس بار کے انتخاب میں یہ تمام مدّعہ لوگوں کی زبان پر ہے اور امیدوار ان سب معاملوں کو حل کرانے کا ایک بار پھر سے وعدہ کر رہے ہیں۔
ہمیشہ مسلم امیدواروں نے کی ہے یہاں سے جیت درج
آزادی کے بعد صرف ایک امیدوار لکھن لال کپور کو چھوڑ دیں تو ہمیشہ کشن گنج لوک سبھا کی نمائندگی مسلم سیاسی رہنماؤں کے ہاتھوں میں رہی ہے۔ اس علاقے سے ایک سے بڑھ کر ایک قد آور شخصیتوں نے انتخاب جیتا ہے۔ سیمانچل کے گاندھی کہے جانے والے محمد تسلیم الدین، ملکی سطح پر معروف نام سید شہاب الدین، مشہور صحافی و دانشور ایم جے اکبر، بی جے پی کا خاص مسلم چہرا سید شاہنواز حسین اور معروف عالم دین مولانا اسرار الحق قاسمی جیسے دیگز شخصیتوں نے کشن گنج کی نمائندگی کی ہے باوجود اس کے کشن گنج لوک سبھا حلقہ ایک پچھڑا اور ترقیاتی کاموں میں حاشیہ پر کھڑا ہے۔
کشن گنج لوک سبھا پر ایک نظر
 کشن گنج لوک سبھا چھ اسمبلی حلقوں پر مشتمل ہے۔ وہ اسمبلی حلقے ہیں۔ بہادر گنج، ٹھاکر گنج، کشن گنج، کوچا دھامن، آمور اور بیسی۔  کشن گنج لوک سبھا میں 1957 سے لیکر 2019 تک ہمیشہ مسلم امیدواروں نے جیت حاصل کی ہے۔ صرف ایک بار 1967 میں لکھن لال کپور نے یہاں سے انتخاب جیتا تھا۔ کشن گنج کی نمائندگی آٹھ بار کانگریس پارٹی کے ہاتھوں میں رہی، ایک بار جنتا پارٹی، ایک بار پی ایس پی، دو بار جنتا دل، دو بار آرجےڈی، ایک بار لوک دل، ایک بار بی جے پی نے یہاں کی نمائندگی کی۔ مجموعی طور سے دیکھا جائے تو کشن گنج کی عوام نے تمام سیاسی پارٹیوں کو کشن گنج کی نمائندگی کا موقع فراہم کیا لیکن کسی بھی سیاسی پارٹی نے کشن گنج کے بنیادی مسئلہ کو حل کرنے کے تعلق سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اگر سنجیدگی دکھائی گئی رہتی تو اعداد و شمار میں علاقے کی تصویر کچھ اور نظارہ پیش کرتی ہوئی نظر آتی۔
سال2024 کے انتخاب میں سبھی امیدواروں نے جھونکی اپنی طاقت
2024 کے لوک سبھا انتخاب میں سہ رخی مقابلہ کے درمیان این ڈی اے، انڈیا الائنس اور اے آئی ایم آئی ایم کے امیدوار نے اپنی پوری طاقت لگا دی ہے۔ کشن گنج لوک سبھا کا انتخاب اب کافی دلچسپ موڑ پر پہنچ گیا ہے جہاں سبھی پارٹیوں کے امیدوار ایک جیسے اور بڑے بڑے وعدہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ تینوں امیدوار تعلیم یافتہ ہیں اور علاقے کے نام چین شخصیت ہیں۔ تینوں کی شخصیت سے لوگ متاثر ہیں لیکن ووٹروں میں اب کوئی کنفیوژن باقی نہیں ہے۔ دوسرے فیز میں انتخاب ہونا ہے، چند دن باقی رہ گئے ہیں اور اسی کے ساتھ امیدوار اپنی آخری کوشش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے لیکن اتنا صاف ہے کہ کشن گنج کی عوام یہ ضرور مطالبہ کر رہی ہے کہ جو بھی یہاں سے انتخاب جیت کر ملک کے سب سے بڑے پنچائیت لوک سبھا میں جائے تو وہ کم سے کم اس علاقے کے مسئلہ کو اپنا ترجیحی مسئلہ ضرور بنائے اور اسے حل کرانے کی کوشش کرے۔