عید الفطر کا پیغام اتحاد

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 10-04-2024
عید الفطر کا پیغام اتحاد
عید الفطر کا پیغام اتحاد

 

 عبدالکریم امجدی 

جامعہ مرکزالثقافۃ السنیۃ الاسلامیہ

 کالی کٹ ۔ کیرالا

لفظ عید کا تعلق آپسی بھائی چارگی ،اخوت ومحبت ،اتحاد واتفاق پر مبنی ہے ۔جو مذہب اسلام کے ایک نہایت ہی درخشاں باب کی نشانی ہے ۔رب قدیر نے اپنے فضل وکرم سے اور جود وسخا پر ہمیں خوشی منانے کا حکم عطاکیا۔ارشاد خدا وندی ہے کہ قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذالک فلیفرحوا ،پ۱۱/ع۱۱)فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں ،تو جب خداوند قدوس نے ماہ رمضان المبارک میں ہمیں روزہ جیسی اہم عبادت کی فرضیت کو ادا کرنے کی توفیق بخشی ،رحمت ومغفرت بھی عطا کیا اور جہنم سے آزادی کا پروانہ بھی عطا کیا۔جیساکہ فضیلت رمضان سے ہے کہ اسکا پہلا عشرہ رحمت دوسرا مغفرت،اور تیسرا جہنم سے آزادی ہے۔در اصل اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے بندوں پر اس عظیم انعام وکرام اور فضل وکرم پر خوشی منانے کے لئے عید الفطر کا دن عطا کیا ۔جس دن ہم مسرت وشادمانی کا اظہار کرتے ہیں اور بطور شکرانہ دورکعت نماز میں چھ زائد تکبیریں واجب کی گئیں تاکہ فرحت وسرور کا اظہار بھی ہو،اور فرمان باری تعالی پر عمل بھی ہو۔ارشاد خداوندی ہے ولتکملو العدۃ ولتکبرواللہ علی ماھدیٰ کم(پ۲،۷۴)اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو،اور اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی۔

عید الفطر کا دن یقینا اہم ترین دن ہے اس دن اللہ عزوجل کی رحمت سے کوئی سائل مایوس نہیں لوٹتا۔چنانچہ تصوف کی مشہور کتاب مکاشفۃ القلوب میں علامہ غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت سیدناوہب بن منبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب بھی عید آتی ہے تو شیطان چلاچلاکر روتا ہے اور اس کی بدحواسی دیکھ کر تمام شیاطین اس کے گرد جمع ہوکر پوچھتے ہیں اے آقا!آپ کیوں غضبناک اور اداس ہو رہے ہیں۔ہائے افسوس اللہ تعالی نے آج کے دن امت محمدیہ صلی اللہ کو بخش دیا ہے۔لہذا تم انہیں لذتوں اورخواہشات نفسانی میں مشغول کردو۔

                عید سعید کا مقصد صرف عمدہ لباس پہن لینا،اور لذیز کھانا کھالینا نہیں ہے عید کا صحیح کا مقصد گناہوں سے توبہ کی جائے۔اوراطاعت وعبادت کی کثرت کر کے رب کا شکراداکیا جائے اور آپسی بھائی چارگی ،امن وسلامتی ،اتحاد واتفاق کا پیغام عام کیا جائے ،بلاشبہ ان دنوں امت مسلمہ جن مشکلات اور مصائب اختلاف وانتشار سے دوچار ہے وہ کسی بھی ذی شعور پر مخفی نہیں ہے ۔امت مسلمہ اور ہماری جماعت کا المیہ تو یہاں تک خراب ہوگیا ہے لوگ آپسی رنجش ،حسد ،کینہ ،قتل وقتال ،اختلاف وانتشار حد سے زیادہ تجاوز کر چکے ہیں جس کے سبب قوم مسلم کو ناکامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے آئے دن آپسی اختلاف سے ہمارااتحادی شیرازہ بکھرتا ہوا نظر آتا ہے مگر ہماری جماعت بھی خاموش بیٹھی تماشا دیکھ رہی ہے ۔لہذا ان نا مساعد حالات میں وقت کی ضرورت کے پیش نظر صبر واستقامت ،عزم وحوصلہ سے مسلمانوں کو کام لینے چاہئے ۔عید مبار ک کا دن یہ وہ منزل جس کی نشاندہی کے لئے اللہ تبارک وتعالی ہمیشہ اپنے بندوں کو خاص ایام عطا فرماتا ہے ان خاص دنوں میں ہمیں تعلیمات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کرنے کی ضرورت ہے،عید کادن اپنے آپ میں خاص برکت واہمیت رکھتا ہے اس دن کی دعاؤں اور عبادتوں کو اللہ کے نزدیک خاص قبولیت ہے ۔مسلمانوں کو چاہئے کہ پیار محبت اور یکتائی کو عام کریں تاکہ ایک اچھے معاشرہ کی تشکی ہوسکے جو ہم سب کا ملی ومذہبی فریضہ ہے

عید کی فضیلت

                حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جو شخص عید کے دن سُبحَان اللہ وبحمدہتین سو مرتبہ پڑھے اور مرحومین کی ارواح کو اسکا ہدیہ کرے توہر مسلمان کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل ہوتے ہیں اور جو پڑھنے والا خود مرے گااللہ تعالی اس کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل فرمائیگا۔

 ایک طویل حدیث کے مطابق حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ جب عید الفطر کی مبارک رات آتی ہے تو اسے لیلۃ الجائزہ یعنی انعام کی رات کے نام جانا جاتا ہے جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ اپنے معصوم فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتا ہے چنانچہ وہ فرشتے تشریف لاکر گلیوں اور رواہوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس طرح ندادیتے ہیں،،اے محمد ! صلی اللہ علیہ وسلم اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت ہی زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑے گناہ معاف کرنے والا ہے۔پھر اس کے بعد اللہ رب العزت اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے ۔

اے میرے بندوں مانگو!کیا مانگتے ہو؟میری عزت وجلال کی قسم آج کے اس روز (نماز عید) کے اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کروگے وہ پورا کرونگا۔اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤنگا۔(یعنی اس معملہ میں وہ کرونگا جس میں تمہارے لئے بھلائی اور بہتری ہو) میری عزت کی قسم ! جب تک تم میرالحاظ رکھوگے میں بھی تمہاری خطاؤں پر پردہ پوشی فرماتا رہونگا۔میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں (یعنی مجرموں ) کیساتھ رسوا نہ کرونگا،بس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جاؤگے ،تم نے مجھے راضی کردیا اور میں بھی تم سے راضی ہوگیا۔فیضان سنت ،الترغیب والترہیب)

بے شک اللہ تبارک وتعالی اپنے بندوں پر بے پناہ مہر بان رحم کرم والا ہے کہ اس نے ماہ رمضان عطا کیا اور اس میں اپنی رحمتیں برکتیں نازل فرماتا رہا جیسے ہی یہ مبار ک مہینہ ہم سے جدا ہوتا ہے فورا ہی ہمیں عیدسعید کی خوشیاں عطافرماتا ہے اور ایسی خوشیاں جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں جس نے عیدین کی رات یعنی شب عید الفطر اور سب عید الاضحی طلب ثواب کے لئے قیام کیا اس دن اسکا دل نہیں مرے گا،جس دن لوگوں کے دل مر جائیں گے ۔ابن ماجہ)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعائیں رد نہیں کی جاتیں ۔اول جمعہ کی شب ،دوم رجب کی پہلی رات، سوم شعبان کی پندہویں رات یعنی شب برات، چہارم عید الفطر پنجم عید الاضحی کی رات (شعب الایمان للبیہقی ج ۳ص۳۴۲)

عید کے مستحبات

                عید کے دن چند امور سنن میں سے ہیں( ۱)حجامت بنوانا ( ۲)ناخن ترشوانہ (۳)غسل کرنا (۴)اچھے کپڑے پہننا نئے کپڑے ہوں تو نئے ورنہ پورانے کپڑے کو دھل کر پہنے ( ۵)خوشبو لگانا الکحل سے بنی ہوئی اسپرٹ کا استعمال نہ کریں یہ ناپاک ہوتے ہیں ( ۶) انگوٹھی پہننا مگر ایک سے زائد نہ ہواور نہ ایک سے زائد نگینہ ہو (۷)نماز فجر مسجد محلہ میں پڑھنا (۸)عید الفطر کی نماز کو جانے سے پہلے چند کھجوریں کھا لینا ( ۹)عید کی نماز عیدگاہ میں ادا کرنا (۰ ۱)عیدگاہ پیدل جانا سواری پر بھی جانے میں حرج نہیں ،۱۱)بعد نماز عید مصافحہ ومعانقہ کرنا۔۱۲) آپس میں مبارکباد دینا)

مسائل عید الفطر

                عید الفطر کے اس پُر بہار موقع پر حضور ﷺ نے غریبوں اور مفلسوں کو یاد رکھا اور اغنیاء کو حکم دیا کی تم صدقہ فطر دیا کرو ،تاکہ تمہارے غریب بھائی جو اپنی غربت کی وجہ سے عید نہیں مناسکتے وہ عید الفطر کی اس خوشی میں تمہارے ساتھ شریک ہوجائیں ۔دوسرافائد یہ کہ رمضان کے روزوں میں اگر کچھ نقص یا فضول کام ہوجائیں جیسے جھوٹ ،فحش،غیبت،غیر محرم کو دیکھنا یہ صدقہ اسکا بدلہ ہے جو روزے کو پاک وصاف کردیتا ہے چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے صدقہ فطر اس لئے مقرر فرمایا تاکہ لغو اور بیہودہ کلام سے روزہ کی طہارت ہوجائے اور دوسری طرف مساکین کے لئے خوراک بھی ہوجائے ۔ابوداؤد)

                عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقہ فطر واجب ہوجاتا ہے لہذا جو شخص صبح صادق سے پہلے ہی مرگیا یاغنی تھا فقیر ہوگیا ،یا صبح طلوع ہونے کے بعد کافر مسلمان ہوا،یا بچہ پیدا ہوا،یا فقیر تھا غنی ہوگیا، تو واجب نہ ہوا۔اگر صبح صادق طلوع ہونے کے بعد مرا ،یاصبح طلوع ہونے سے پہلے کافر مسلمان ہوا،یابچہ پید ہوا،یا فقیر تھا غنی ہوگیا تو واجب ہگا۔ بہار شریعت)صدقہ فطر ادا کرنے کا افضل وقت یہ ہے کہ صبح صادق کے بعد نماز عید سے پہلے ،نماز عید سے پہلے اگر چاند رات ،یا رمضان میں یا اس سے پہلے کسی نے ادا کردیا تب بھی                 فطرہ ادا ہوجائے گااور ایسا کرنا جائز ہے ۔عالمگیری ) اور اگر نماز عید سے پہلے ادا نہ کیا تب اس کے ذمہ فطر واجب ہی رہے گا ساقط نہ ہوگا جب بھی وہ ادا کرے گا ادا کرے گا ادا ہوجا ئیگا۔ بہار شریعت)

عید کی تاریخی حیثیت

عید الفطر کی نماز پہلی ہجری میں واجب ہوئی (فتاوی رضویہ جلد سوئم )لیکن آقاء علیہ السلام نے پہلی نماز عید الفطر ۶ہجری میں ادافرمائی (مکاشفۃ القلوب)آپ علیہ السلام نے ہمیشہ عید کی نماز عید گاہ میں ادا فرمائی صرف ایک بار بارش کی وجہ سے مسجد میں ادا کی ،عید کے دن طاق کھجور کھانا بھی سنت رسول اکرم ﷺ سے ہے۔آپ ﷺ کے زمانے میں عید گاہ میں منبر نہ تھا،سب سے پہلے مروان بن حکم نے عید گاہ میں منبر کا رواج ڈالاجو حضرت امیر معاویہ کے زمانہ میں امیر مدینہ تھا اور ایک روایت میں ہے کہ منبر کی بنیاد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں پڑی ۔

پیارے  بھائیو! خدا کا خوف رکھویہ سب عید نہیں بلکہ سبب غضب قہار ہے جو عذاب الہی کا حقدار ہے اس کے علاہایک بار خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے بارگاہ میں کچھ لوگ حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ آپ دروازہ بند کر کے زار وقطار رورہے ہیں ،لوگوں نے تعجب سے عرض کیا ! یاامیرالمؤمنین آج تو عید کا دن ہے آج شادمانی اور خوشی کا دن ہے یہ خوشی کی جگہ رونا کیسا ؟آپ نے آنسو پوچھتے ہوئے فرمایا ھذا یوم العید وھذیوم الوعید اے لوگو! یہ عید کا دن بھی اور وعید کا دن بھی ہے آج جس کے نماز اور مقبول ہوگئے اس کے لئے عید ہے لیکن جس کی نماز روزہ کو مردود کردیا گیا ہو اس کے منہ پر ماردی گئی ہو تو اس کے لئے وعید یعنی عذاب کا دن ہے اور میں اس خوف سے رورہا ہوں کہ آہ ا نا لا ادری امن المقبولین امن المطرودین یعنی مجھے نہیں معلوم کہ میں مقبول ہوں یا مردو۔فیضان سنت)

                مقام عبرت: آپ سوچیں اور اپنے اندر جھانک کر دیکھیں یہ وہی فاروق اعظم ہیں جن کو مالک جنت آقاء علیہ السلام نے حیات ظاہری ہی میں جنت کی بشارت دی تھی مگر قربا جائے،پھر بھی خشیت الہی کا یہ عالم !اب ہمیں اور آپ کو اپنے روزہ نماز ذکرواذکار کا محاسبہ کرنا چاہئے کہ رمضان کی طاعتیں قبول ہوئیں یا مردو۔پروردگار عالم مسلمانوں کو عید کے موقع پر فضول خرچی فیشن پرستی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس دن خشیت الہی سے ذکر واذکار کی سعادت نصیب فرمائے آمین