اسلام میں عید کا آغاز

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 08-04-2024
اسلام میں عید کا آغاز
اسلام میں عید کا آغاز

 

حیدر علی خان

خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدن،معاشرت اور اجتماعی زندگی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینۂ منوّرہ میں ہوا۔ چناںچہ رسول اللہ کی مَدَنی زندگی کے ابتدائی دور میں عیدی کا آغاز ہوگیا تھا ۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اہل ِمدینہ دو دن خوشیاں منایا کرتے تھے ۔ رسول اللہ نے ان سے پوچھا کہ ۔۔۔یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ (یعنی ان تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟) ۔ جس کے بعد پیغمبر اسلام نے عرض کیا کہ ہم عہد ِجاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرمادیئے ہیں، یوم (عید) الاضحی اور یوم (عید) الفطر۔‘

دراصل دنیا کی تقریباً سبھی قوموں میں تہوار منانے کا رواج ہے اور ہرمذہب کے لوگ اپنی روایت کے مطابق تہوار مناتے ہیں، اسلامی تہوار دوسرے مذاہب کے تہواروں سے بالکل مختلف اور جداگانہ نوعیت کے ہیں،اور ہمارے نبی کریم جب مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے تھے۔ جس کے بعد حضور نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے اپنی امت کے لئے دعا فرمائی اور دوعیدیں مسلمانوں کے لیے مقرر کر وا لیں۔ جب پہلی بار مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے تو تاریخ اسلام کے اس پہلے رمضان المبارک میں حضور نے مدینہ کے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہر قوم کے لئے عید ہوتی ہے ،اللہ تعالیٰ نے تمہاری خوشیوں کو ان دو عیدوں سے بدل دیا ہے۔ اب تم ہر سال شان سے عیدالفطر اور عیدالا لضحیٰ منایا کرو۔

 خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدن،معاشرت اور اجتماعی زندگی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینۂ منوّرہ میں ہوا۔ چناںچہ رسول اللہ کی مَدَنی زندگی کے ابتدائی دور میں عیدی کا آغاز ہوگیا تھا ۔حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اہل ِمدینہ دو دن خوشیاں  منایا کرتے تھے ۔ رسول اللہ نے ان سے پوچھا کہ ۔۔۔تم لوگ دو دن جو خوشیاں مناتے ہو ، ان کی حقیقت کیا ہے۔ (یعنی ان تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟) ۔ جس کے بعد پیغمبر اسلام نے عرض کیا کہ ہم عہد ِجاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ ۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرمادیئے ہیں، یوم (عید) الاضحی اور یوم (عید) الفطر۔

دراصل دنیا کی تقریباً سبھی قوموں میں تہوار منانے کا رواج ہے اور ہرمذہب کے لوگ اپنی روایت کے مطابق تہوار مناتے ہیں، اسلامی تہوار دوسرے مذاہب کے تہواروں سے بالکل مختلف اور جداگانہ نوعیت کے ہیں،اور ہمارے نبی کریم جب مدینہ میں ہجرت کر کے تشریف لائے تھے۔ جس کے بعد حضور نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے اپنی امت کے لئے دعا فرمائی اور دوعیدیں مسلمانوں کے لیے مقرر کر وا لیں۔ جب پہلی بار مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے تو تاریخ اسلام کے اس پہلے رمضان المبارک میں حضور نے مدینہ کے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہر قوم کے لئے عید ہوتی ہے ،اللہ تعالیٰ نے تمہاری خوشیوں کو ان دو عیدوں سے بدل دیا ہے۔ اب تم ہر سال شان سے عیدالفطر اور عیدالا لضحیٰ منایا کرو۔

روایت کے مطابق جب حضرت آدم ؑ کی توبہ قبول ہوئی، دنیا میں اسی دن پہلی بار عید منائی گئی تھی۔ جبکہ دوسری بار عید اس وقت منائی گئی تھی جس روز ہابیل اور قابیل کی جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی قوم نے اس روز عید منائی تھی، جس روز آپ یعنی حضرت ابراہیم ؑ پر نمرود کی آگ گلزار ہوئی تھی۔ اسی طرح حضرت یونس ؑکی امت نے اس دن پہلی عید منائی ، اسی طرح حضرت یونسؑ کو جب مچھلی کی قید سے رہائی ملی تھی۔ حضرت موسیٰؑ کی قوم عید منائی، جس روز حضرت موسیٰؑ نے بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ حضرت عیسیٰ ؑ کی امت آج تک اس یوم سعیدکوعید مناتی ہے۔ جس روز حضرت عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی۔

قرآن مجید میں سورئہ مائدہ میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ایک دعا کے حوالے سے عید کا ذکر موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہےکہ عیسٰی ابن مریم (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اے اللہ! ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتاردے (اور اس طرح ان کے اترنے کا دن) ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں، پچھلوں کے لیے (بطور) عید(یادگار) قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو بہترین رزق عطا فرمانے والا ہے

اس سے اگلی آیت میں ارشاد خداوندی ہے کہ اللہ نے فرمایا کہ میں یہ( خوان) تم پر اتار تو دیتا ہوں مگر اس کے بعد تم میں سے جو کفر کرے، تو میں اسے ایسا عذاب دوں گا جو سارے جہانوں میں اور کسی کو نہ دیا ہو۔ رہا یہ سوال کہ دعائے عیسٰی علیہ السلام کے نتیجے میں ان کی قوم پر یہ خوان اتر ایا نہیں، قرآن نے اس سلسلے میں سکوت اختیار فرمایا ہے، البتہ تفاسیر میں دونوں طرح کی روایات موجود ہیں۔