مدارس کے بچوں کے لیے عصری تعلیم وقت کی ضرورت ۔ بانی شاہین گروپ عبدالقدیر

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 05-03-2024
 مدارس کے بچوں کے لیے عصری تعلیم وقت کی ضرورت ۔ بانی  شاہین گروپ عبدالقدیر
مدارس کے بچوں کے لیے عصری تعلیم وقت کی ضرورت ۔ بانی شاہین گروپ عبدالقدیر

 

آواز دی وائس :نئی دہلی 

 ہم حافظوں کو تعلیم کے معاملہ میں قومی دھارے سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس پروگرام کو ہم نے مدرسہ پلس کا نام دیا، بہت کم وقت میں 52 مدارسمیں اس کو نافذ کرایا- مدرسہ پلس میں اب تک 2ہز سے زیادہ حافظوں نے فائدہ اٹھایا ہے ،بہت جلد  ہم مزید 25 سے 30 مدارسمیں اس کو نافذ کریں گے۔ ہندوستان بھر کے 27 ہزار مدارس میں سے اگر پانچ ہزار مدارس میں بھی یہ کام ہو جائے اور صرف حفاظ نہیں بلکہ ڈراپ آؤٹ یا مسترد شدہ بچوں کو بھی اس میں سمیٹ لیا جائے۔جو بھٹک رہے ہیں، گھروں پہ مصیبت بننے کا اندیشہ ہیں، جو سماج پہ معاشرے پر بوجھ بننے کا خطرہ ہیں ۔ایسے بچوں کو بلا کر 13 سال سے 18 سال کے بچوں کو مدارسمیں رکھ کر ایک پا ک و صاف ماحول میں رکھا جائے۔ ان کی ضروری دینی تعلیم سے ان کو اراستہ کیا جائے۔

ان خیالات کا اظہار شاہین گروپ کے سربراہ عبدالقدیر نے کیا ۔ جو راجدھانی میں شاہین گروپ کے ایک ہاسٹیل کےافتتاح کرتے ہوئے تقریرکررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ  میں مدرسے کے ذمہ داروں سے بات کر رہا ہوں، یہ بتانے کی کوشش کررہا ہوں کہ آپ بڑے ادب و احترام کے ساتھ کہ حافظ بنا رہے ہیں۔ ماشاءاللہ ہونا چاہیے، ضرورت ہے اس کی ۔ یہ فرض کفایہ ہے ،عالم بنایا جا رہے ہیں اور ضرورت ہے کہ ہم بڑے پیمانے صحیح علماء تیار کریں۔ مگر وہ بچے جو گھوم پھر رہے ہیں،بھٹک رہے ہیں ۔دینی تعلیم سے بالکل ہی واقف نہیں ہیں ان کو ایک ماحول دیا جائے ۔ راہ دکھائی جائے اور تباہی سے بچایا جائے۔ یہ ہمارے لیے فرض عین ہے،میں تو درخواست کرررہا ہوں کہ ان پانچ ہزار مدارسمیں ایک چھوٹا سا شعبہ عین قائم کیا جائے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو تو ڈھائی لاکھ بچوں کی ہم خدمت کر سکتے ہیں ۔ ڈھائی لاکھ کا مطلب تقریبا 15 پرسنٹ نوجوان بچے ہیں ۔یہی نہیں اس کام کو ہم دوسرے ذرائع یا پلیٹ فارم سے شروع کرسکتے ہیں ،جس کے لیے خانقاہوں اورمسجدوں کو بھی استعمال کرسکتے ہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف ہماری خواہش ہے کہ بچوں کو ڈراپ آوٹ ہونے سے بچانا ہے، جس کے لیے ان کی بنیادیں ٹھیک کریں تو وہ ڈراپ آؤٹ نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف ڈراپ آوٹ بچوں کو لا کر پھر سے اسکول سے جوڑنا ہے اس تحریک کے لیے کوشش کر رہے ہیں اور ایک بچہ بھی فارغ گھومتا پھرتا نظر نہ آئے، اس کے لیے ہم روٹری کلب کے ساتھ بھی کام کررہے ہیں۔

awazurduشاہین گروپ کے مدرسہ پلس کے پروگرام کا ایک منظر


روٹری کلب کے ساتھ اشتراک 

روٹری کلب ایسے بچوں کے لیے ایک عمارت حاصل کررہا ہے ،جس میں ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہوگا ،اس میں ہم رہنے اور کھانے کا انتظام کر رہے ہیں۔ٹیچرز کا انتظام بھی کررہے ہیں ،یہ کام ہم عوامی تعاون سے کر رہے ہیں۔مندروں اور مٹھ میں میں بھی اس کا م کے تئیں پیشرفت ہوئی ہے۔ ہم اس راہ پراگے بڑھ رہے ہیں، ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس کو مزید پھیلائیں۔ اس کی ہمت افزائی ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ نسل کو ہم بچائیں کیونکہ نسل ہی اصل ہے ۔نسل کی صرف تعلیم نہیں بلکہ تربیت بھی ضرورت ہے۔ ہم اس نسل کو طاقتور بنانا چاہتے ہیں اس نسل کو دینے والا بنائیں ۔ یہ ہماری نسل دینے والی بن جائے تو آپ کو یقین دلاؤں گا کہ پوری دنیا ہاتھ ملانے کے لیے تیار ہوگی۔ اس کے لیے تعلیم کو توجہ دینا ہے، تعلیم اور تربیت تعلیم یافتہ بنائیں تربیتہ بنائیں اور داعی بنائیں۔ ہماری نسل کو ہم داعی بنائیں ورنہ وہ یہ مدعو بن جائیں گے۔

شاہین کے روح رواں عبدالقدیر کہتے نہیں کہ ہم علما اور مدارس سے درخواست کررہے میں کہ ہماری سرپرستی کریں،ہم اس تحریک کو اگے بڑھانا چاہ رہے ہیں،اس میں مدد کریں ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ٹیبشن کی بیماری کو ختم کرنا ہوگا ۔کیونکہ یہ ایک بڑی برائی ہے ۔آپ کوجان کر حیرت ہوگی کہ کرناٹک کے بیدر میں شاہین گروپ کی کوشش کے سبب یہملک کا واحد ضلع ہے جہاں کوئی ٹیوشن سینٹر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے شاہین گروپ میں ایک اکیڈمک آئی سی یو قائم کیا ہے ،جس میں اداروں کے کمزور بچوں کو تعلیم یا تربیت دی جاتی ہے ،ان کی اس کمزوری کو دور کیا جاتا ہے جو ڈراپ آئو ہونے کا سبب بنتی ہیں ۔عام طور پر بڑے اسکول بچوں کو لور نر سری سے داخلہ دیتی ہی لیکن جب بچہ نویں کلاس تک کمزور رہتا ہے تو اس کو دسویں سے قبل فیل کرکے اسکول کا رزلٹ خراب ہونے سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جوو ایک بڑا ظلم ہے ۔ عبدالقادر نے کہا کہ حال ہی میں ہم نے گورنمنٹ آف کرناٹک کے تعاون کے ساتھ ایک پروگرام شروع کیا ہے ۔جس کے تحت کمزور یا خستہ حال اسکولوں کو سہارا دیا جارہا ہے ،اگر ضرورت پڑے تو اس کا انتظام بھی سنبھالا جارہا ہے ۔ کیونکہ کسی بھی معاشرے کو بدلنے میں اسکول کا سب سے اہم کردار ہوتا ہے ۔ یہی نہیں 10 کروڑ روپیے گورنمنٹ اف کرناٹک نے منظور کئے ہیں ۔اس کے ذریعے س مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم دی جائے گی ۔ جس میں مدارس میں بچے اسی فیصد دینی تعلیم کے بعد بیس فیصد عصری تعلیم حاصل کریں ۔

awazurduپروگرام کا ایک منظر


 عبدالقدیر نے کہا کہ رمضان المبارک کے دوران پندرہ سو بچوں کو تربیت دی جائے گی جو کہ صرف گریجویٹ ہیں، جنہوں نے بی ایڈ یا کوئی ٹیچنگ کورس نہیں کیا ہے لیکن ہمارا ماننا ہے کہ تربیت سب سے اہم ہوتی ہے، شاہین گروپ کی یہ کوشش ہے کہ نئی نسل کو اپنی تہذیب کے ساتھ ڈسپلن سے بھی متعارف کرائے انہوں نے مزید کہا کہ اج تعلیم کے ساتھ تربیت کی بہت اہمیت ہے ہم اس کے زور دے رہے ہیں کہ بچوں کو تربیت دی جائے اچھی تربیت جو انہیں روزگار سے جوڑنے میں مدد دے اج تعلیمی اداروں کا ماحول سازی کے لیے بہت اہمیت ہے ہمیں ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو ماحول بنانے میں اہم کردار ادا کریں آج ماحول بہت خراب ہوگیا ہے، بچے موبائل زدہ ہوگئے ہیں، علما رو رو کر دعا کررہے ہیں ہمیں بچوں کو موبائل کی وبا اور کو ایجوکیشن سے بچانا ہے ہم یہ نہیں مانتے کہ ہر کوئی ڈاکٹر بن جائے، ایسا ممکن نہیں ہے ، لیکن اچھی تربیت لازمی ہے، ضروری ہے اور اہم ہے۔

 اس موقع پر سابق ایم پی شاہد صدیقی نے کہا کہ جو کام شا ہین گروپ کررہا ہے وہ ایک بڑی خدمت ہے،میں نے بیدر میں اس مشن کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم دانشور حضرات صرف باتیں کرتے ہیں لیکن میں نے دیکھا کہ عبدالقدیر صاحب نے اس کو عملی طور پر کر دکھایا ہے۔ انہوں نے ہمدرد کے بانی حکیم عبد الحمید کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت کم بات کرتے تھے لیکن کام خاموشی سے کرتے تھے۔ تقسیم ملک کے وقت جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان بھاگ رہی تھی ،کیونکہ انہیں اس ملک میں کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا تھا ۔ اس وقت حکیم صاحب پیدل چل کے لال کنویں سے تغلق آباد پیدل جایا کرتے تھے۔ شاہد صدیقی نے مزید کہا کہ 1857 کے غدر کے بعد سر سید احمد خان نے حالات کو محسوس کیا،انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ اگر حالات سنبھالنے ہیں تو تعلیم حاصل کرنا ہوگی کیونکہ تعلیم کی تلوار تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف دیوبند کی تاریخ بنی ایک دوسری طرف علی گڑہ کی۔ تاریخ بنی، اس نے آپ کو نئی زندگی دی۔ اج پھر اسی تحریک کی ضرورت ہے۔اس تحریک کی شروعات اللہ کے فضل و کرم سے بیدر سے ہوئی ہے۔ بہت تیزی کے ساتھ پورے ہندوستان میں پھیلی، اس میں صرف دینی تعلیم اور عصری تعلیم کے درمیان کی خلیج کو دور کیا ہے ۔اسے پاٹنے کا کام ہے ا۔س کے ساتھ پروفیشنل ایجوکیشن پر زور دیا ۔ کیونکہ اج سوال یہ نہیں ہے کہ تعلیم کتنی دے رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیسی تعلیم دے رہے ہیں وہ تعلیم کس طرح کا مستقبل بنائے گئے کیونکہ کمپٹیشن کا دور ہے اپ کو پروفیشنلی ہر میدان میں نمبر ون ہونا ہے۔ شاہد صدیقی نے کہا کہ مجھے بیدر جا کر قدیر صاحب کی خدمات کا احساس ہوا ،انہوں نے ایک انقلاب برپا کیا ہے تعلیمی میدان میں خاص طور پہ دینی تعلیم کو اعصری تعلیم کے ساتھ جوڑا ہے ۔ہمارے بیچ ایک خلیج بن گیا تھا مسٹر اور مولوی کے درمیان اس خلیج کو بانٹنے کا جو کام بہت عرصے پہلے ہونا چاہیے تھا اس کی شروعات قدیر صاحب نے کی ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری توجہ کا مرکز تعلیم ہونا چاہیے اور بہتر تعلیم عمدہ تعلیم ایسی تعلیم کی جو دوسرے مجبور ہو جائیں ۔اگر آج شاہین گروپ میں 30 فیصد بچے اور بچیاں دوسرے مذاہب سے آ رہے ہیں،تو اس کا سبب یہ نہیں کہ شاہین گروپ کی بلڈنگ بہت خوبصورت ہے۔یا اس میں سہولیات مل رہی ہیں۔ اس لیے کہ ان کے یہاں سے جو بچہ نکلتا ہے وہ زیادہ کامیاب ہوتا ہے۔
awazurduپروگرام میں اظہارخیال کرتے ہوئے مقررین

بریلی کے عالم دین مولانا توقیر رضا خان نے اس موقع پر کہا کہ سب سے پہلے عبدالقدیر صاحب کو ان کی کوششوں کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں ان کی سوچ کے لیے ان کے ذہن میں جو آئیڈیاز آئے،جوخواب دیکھا،اسے شرمندہ تعبیر کر دیا،یہ بہت کم لوگ کر پاتے ہیں۔میں نے اپ کو ملک بھر میں سفر کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ محنت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی اپ کے حوصلے پہ اور اضافہ کرے اور مرکز عطا فرمائے۔ امین۔ ایک بے چینی ایک تکلیف اپ کو دیکھ کر محسوس کر رہا ہوں اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جنوب میں تعلیم پر جو کام ہوا ہے وہ پورے ہندوستان میں کہیں نہیں ہو سکا اور جنوب میں جتنی بیداری ہے شمال میں نہیں ہے۔ المیہ یہ ہے کہ لوگوں کی کمی۔ ہے نہ دولت مند مسلمانوں کی کمی ہے۔ نہ اس ضرورت کو محسوس کرنے والوں کی کمی ہے لیکن شمال ہند کے لوگ وہ کام نہیں کر پا رہے ہیں۔جنوب ہند کے لوگ ہی ادھر بھی کام کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ یہ ہمارے لیے تکلیف کی بات ہے یہ ہمارے لیے شرمندگی کی بات ہے۔ میں اپ کا احسان مند ہوں ۔
ممتاز اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ عبدالقدیر صاحب کو کام کررہے ہیں وہ ملک و قوم کی خدمت ہے۔میں آپ لوگوں کو بتا رہا ہوں کہ ہمارے مدرسے ہمیشہ سے شمولیت پسند تھے یہ 1857 کے بعد جب انگریزوں نے اس ملک کی سیاحسی اقتدار پہ قبضہ کر لیا اور اپنے طریقے تعلیم و طریقے علاج کو بھی ہم پہ مسلط کر دیا۔ اس وقت ہمارے بزرگوں نے یہ سوچا کہ اگر ملک کو نہیں بچا سکتے تو دین اور ایمان کو تو بچا لے اسی لیے مدرسے قائم کیے گئے تھے لیکن اب 75 سال سے زیادہ گزرنے کے بعد وہ وقت اگیا ہے جب مدارسکو پھر شمولیت پسند ہونا چاہیے۔ میں بار بار اس بات کو کہتا ہوں کہ ایسے زمانے میں جب کہ لوگ اپنی بری باتوں کو دہرانے میں تکلف نہیں کرتے ہیں تو میں اچھی باتوں کو دہرانے میں کو تکلف کروں۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا میں اکسفورڈ نہیں تھی، کیمرج نہیں تھی، ہارورڈ نہیں تھی، آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ نہیں تھے ایک ایسے وقت میں اسکول آف آرکیٹیکچر نہیں تھے تب دنیا کو چھوڑ دیجئے اس ملک کو ہم نے قطب مینار کی بلندی دی، تاج محل کا حسن دیا، لال قلعہ سے پختگی دی۔
انہوں نے کہا کہ عبدالقدیر صاحب کی ان کوششوں کے لیے مبارکباد دیتا ہوں، اس بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ آپ جہاں چاہیں گے ہمیں اپنے ساتھ کھڑا ہوا پائیں گے۔ اپنے پیچھے پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پیغمبر اسلام نے ایک ایسے زمانے میں جبکہ علم کا حصول ہر کسی کے لیے ممکن نہیں تھا بلکہ اگر کسی کے کانوں میں حرف علم و دانش غلطی سے پڑ جائے تو اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا دیا جاتا تھا۔ ایسے وقت میں کہا تھا علم حاصل کرنا فرض ہے ،ہر مسلمان مرد پر، ہر مسلمان عورت پر ۔ایک بات اور کہی تھی کہ علم حاصل کرو ماں کی گود سے لے کے قبر تک ۔سوال یہ کہ وہ باپ تھے پھر انہوں نے ماں کیوں کہا، یہ سوال ہے جو ہمیں سوچنا چاہیے۔ وہ اس لیے کہا کہ ہر وہ باپ جو بیٹیوں والا ہے، اسے اپنی بیٹیوں کو اعلی سے اعلی بہتر سے بہتر اور اچھی سے اچھی تعلیم آج دلانی چاہیے۔ کیونکہ جو آج کی بیٹیاں ہیں وہی تو کل کی مائیں ہوں گی اور اگر اج تعلیم یافتہ نہیں بنائی جائیں گی۔ تو پھر کل کس طرح ان کی گود آنے والی نسلوں کے لیے تعلیم کی آماجگاہ اور درسگاہ بن پائے گی۔ یاد رکھیے جس قوم میں مائیں تعلیم یافتہ ہوتی ہیں اس کے لڑکے کبھی جاہل نہیں رہتے۔ یہ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے۔ ہماری پریشانی یہی ہے کہ ہم نے اپنی عورتوں کو ایک طرح سے تعلیم سے محروم کر دیا اور اس کے نتیجے میں ہم خود تعلیم سے محروم ہوں گئے۔