اردو کا مستقبل بچوں کے نہیں بلکہ ان کے والدین کے ہاتھوں میں ہے۔ اطہر فاروقی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 16-02-2024
اردو کا مستقبل بچوں کے نہیں بلکہ ان کے والدین کے ہاتھوں میں ہے۔ اطہر فاروقی
اردو کا مستقبل بچوں کے نہیں بلکہ ان کے والدین کے ہاتھوں میں ہے۔ اطہر فاروقی

 

آواز دی وائس : نئی دہلی 

نئی نسل کو اردو کیسے پڑھنی چاہیے،اس کا دارومدار والدین پر ہوتا ہے، اگر والدین چاہیں گے تو ان کے بچے اردو پڑھیں گے۔ تو وہ پڑھ لیں گے ۔ سوچ پر منحصر ہے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بچے پڑھیں یا نہ پڑھیں ،اگر وہ یہ سوچتے ہیں کہ دوسروں کے اردو پڑھ لینے سے زبان بچ جائے گی، تو یہ خوش فہمی ہے جسے اردو والوں نے پالا ہے،اس صورتحال میں کیا ہو سکتا ہے۔ اردو کی بقا کسی دوسری زبان کی طرح ہے جب تک اسے پڑھا نہ جائے۔ جب تک یہ نصاب میں نہ ہو، زبان کو بچانامشکل ہے ۔

انجمن ترقی اردو  کے سربراہ اطہر فاروقی  نے راجدھانی میں  میر کی دلی۔شاہجہاں آباد ۔ ایک شہر ممکنات کے عنوان سے چار روزہ  فیسٹول کے آغاز پر ان تاثرات کا اظہار آواز دی وائس  کے لیے امینہ ماجد کے ساتھ ایک ملاقات میں کیا ۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے  اطہر فاروقی نے کہا کہ ہم نے میر تقی میر کے 300 سالہ جشن کا فیصلہ کیا تو اس وقت تک کسی نے اس بارے میں سوچا نہیں تھا۔  چار روزہ پروگرام ایک بڑا چیلنج ہوتاہے ،انہوں نے کہا کہ ایک اہم کام جو ہم نے کیا وہ یہ تھا کہ میر کی تصنیف ’ذکرِ میر ‘مکمل طور پر شائع نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے پہلی بار ہم نے اسے مکمل طور پر شائع کیا ہے ۔

سوشل میڈیا پر انجمن ترقی اردو  کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک سوال پر اطہر فاروقی نے کہا کہ یہ ادارہ 140 سال کی تاریخ رکھتا ہے ۔اس لیے یہ سوال مناسب نہیں  کہ 10 سال پہلے آنے والی کسی ٹکلنالوجی پر کتنا انحصار کررہا ہے ۔در اصل  ہر ادارے کا اپنا کام کرنے کا طریقہ ہے ہم 140 سال سے کام کر رہے ہیں۔ ہم نے کتابیں شائع کی ہیں ہمارا رسالہ نکلتا ہے جو اردو کا سب سے بڑا رسالہ ہے اسے بھی 103 سال ہو گئے ہیں۔ ہم نے بہترین کتابیں شائع کی ہیں۔ کتابوں کا ڈیجیٹلائزیشن کیا جارہا ہے ۔

اطہرفاروقی نے کہا کہ  انجمن میں شروع سے ایک لائبریری تھی، اس کا نام شبلی میموریل لائبریری تھا، ہمارے پاس جو کتابیں ہیں وہ بہت پرانی ہیں،تقریباً نایاب ہیں۔ ہمارے پاس نایاب مخطوطات کی ایک بڑی تعداد بھی ہے ۔جو شاید آپ کو کسی پرانی لائبریری میں نہیں ملے گی۔ کچھ ایسے ہیں جن کے پاس مختلف جگہوں پر کتابوں کے ذخیرے ہیں ۔ ہمارے پاس نجی زندگی کی کتابیں بھی ہیں۔ تو یہ ایک بہت اچھی لائبریری ہے۔ اب ہم نے لائبریری کو ڈیجیٹل کر دیا ہے۔ , ہماری ویب سائٹ پر آدھی سے زیادہ آن لائن کتابیں دستیاب ہیں۔

awazurduاطہر فاروقی انٹرویو کے دوران


انہوں نے بہرحال کہا کہ سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہم سوشل میڈیا پر بھی خوب موجود ہیں۔ ہماری فیسٹیول پوسٹس کو بھی 20 لاکھ ویوز مل چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہونا ضروری ہے لیکن بنیادی باتوں کو نہیں بھولنا چاہیے، کتابیں اور اخبار پڑھنا چاہیے۔ انجمن نئی چیزیں اپنانے کو تیار ہے لیکن ہم بنیادی چیزوں کو چھوڑنے کو بھی تیار نہیں۔ ہم لوگوں سے توقع کریں گے کہ وہ اچھی کتابیں پڑھیں اور اپنے بچوں کو پڑھائیں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنے سارے کام چھوڑ کر سوشل میڈیا میں مشغول ہو جائے۔ جہاں آپ کی توجہ کا دورانیہ دو منٹ سے تین منٹ تک ہے۔ا

طہر فاروقی نے انجمن ترقی اردو کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کا قیام 1882 میں ہوا تھا۔اسے 1882 میں علی گڑھ میں سرسید نےاس وقت قائم کیا جب وہ اپنے تعلیمی مشن کو آگے بڑھا رہے تھے۔ اس کے بعد یہ ادارہ ترقی کرتا چلا گیا۔پھر 1882 میں 1903 میں یہ ایک خود مختار ادارہ بن گیا۔ جب شبلی نعمانی اس کے سکریٹری بنے اور مولانا عبدالکلام آزاد، جو بعد میں ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بنے، اس کے اسسٹنٹ سکریٹری بنے۔ جس کے بعد اس کا علی گڑھ سے کوئی خاص تعلق نہیں رہا۔ پھر ادارہ دہلی منتقل ہوا اور نئی عمارت حاصل کی تو اس کا نام اردو گھر رکھا گیا۔جو کہ  مہاتما گاندھی نے آزادی سے بہت پہلے سوچا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں اطہر فاروقی نے کہا کہ بلاشبہ ، ریختہ  اردو میں اب ایک  نام اور پہچان ہے،اس ادارہ نے بہت بڑا کام کیا ہے ،اہل اردو کے لیے ایک نئی زندگی ہے ریختہ،بلاشبہ ریختہ نے ایک نیا رجحان پیدا کیا ہے ،یہ ہے فیسٹول کا رجحان۔ جب ریختہ کی بنیاد پڑی اور فیسٹول کا آغاز ہوا تو اردو تو دور کی بات دیگر زبانوں میں اتنے  فیسٹیول نہیں تھے لیکن ریختہ کے بعد کئی زبانوں میں فیسٹیول منعقد کیے جارہے ہیں - میں مانتا ہوں ریختہ نے اچھا کام کیا ،ان کے کام کا دائرہ مختلف ہے۔لیکن یہ بھی اہم ہے کہ  ہم دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ بہرحال انجمن ترقی اردو  بھی اپنے طور پر مختلف اور اچھا کام کر رہا ہے۔ہمارا دائرہ اور ہدف مختلف ہے مگر مقصد اردو کا فروغ ہی ہے

آئیے سنتے ہیں اطہر فاروقی کا انٹرویو  ۔۔۔۔۔۔۔