نکتہ_ہائے_فاروقی : پروفیسر نثار احمد فاروقی کی عالمانہ، محققانہ اور دانشورانہ عظمت کی سند ہے

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 26-03-2024
نکتہ_ہائے_فاروقی : پروفیسر نثار احمد فاروقی کی عالمانہ، محققانہ اور دانشورانہ عظمت کی سند ہے
نکتہ_ہائے_فاروقی : پروفیسر نثار احمد فاروقی کی عالمانہ، محققانہ اور دانشورانہ عظمت کی سند ہے

 

شمس کمال انجم

پروفیسر سرور الہدی صاحب کا نام میں نے سب سے پہلے استاد محترم پروفیسر نثار احمد فاروقی سے ان کے دولت خانے پر ایک ملاقات میں سنا۔ کسی مناسبت سے انھوں نے مجھ سے ان کا تذکرہ کیا۔ جبھی سے اس نام سے مجھے عقیدت سی ہوگئی تھی۔ اس واقعے کے کم وبیش دودہائی بعد 2021ء میں شعبہئ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں پروفیسر سرورالہدی سے ملاقات ہوئی۔ ظاہر ہے استاد محترم کا ذکر خیر بھی ہوا اورظہرانے کے بعد انہوں نے مجھے اپنی دو اہم کتابیں ”نکتہ ہائے فاروقی“اور”رفتگاں کا سراغ“ عنایت کیں۔ میں اپنے مستقر واپس آیا اور ان کتابوں کو سرسری دیکھا۔ سوچا پھر کبھی فرصت سے پڑھیں گے۔ ہاں رفتگاں میں شامل پروفیسرنثار احمد فاروقی صاحب پر جو کہ کتاب کا پہلا مضمون بھی ہے اسی وقت پڑ ھ ڈالا تھا۔فیس بک پر سرسری طور سے ان دونوں کتابوں کا مختصرتعارف بھی پیش کردیا تھا۔ ان دونوں کتابوں کو میں نے اپنی الماری میں بالکل ایسی جگہ رکھا جہاں سے یہ دونوں کتابیں روز مجھے نظر آتیں۔خاص طور سے ”نکتہ ہائے فاروقی“ کو روز دیکھتا اور دیکھتے ہی استاد محترم کی ساری یادیں ذہن میں تازہ ہوجاتیں۔ ان سے بیس برس کی صحبت اور رفاقت کا ایک ایک لمحہ یاد آجاتا۔ ان سے پہلی بار کب ملا تھا۔ ان کے گھر ان سے کب کب اور کتنی بار ملاقات ہوئی۔ شعبہئ عربی میں کتنی مرتبہ ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھے کتنے خطوط لکھے۔ مجھ سے انہوں نے عالم عرب سے کن کن کتابوں کو خرید کرلانے کی فرمائش کی۔ دوحہ قطر میں جب انہیں ایوارڈ دیاگیا اس وقت میں وہیں تھا۔وہ سخت علیل تھے۔ سو وہاں ان کی بھر پور خدمت کا مجھے موقع ملا۔ واش روم تک میں ہی انہیں کاندھوں سے ٹیک کر لے جاتا تھا۔ دو تین روز مسلسل خدمت میں حاضر رہا۔ وہیں مجھے ان کے ساتھ شیزا ن ہوٹل میں احمد فراز، پروفیسر نارنگ اور دیگر اکابرین کو دیکھنے اور انھیں سننے کا موقع ملا۔ واضح ہو کہ یہ سب ان کے کمرے میں ان سے ملنے آئے تھے۔ وغیرہ وغیرہ یادیں ذہن میں تازہ ہوجاتیں۔

بہر حال آج میں نے کتاب کو قصدا اٹھاہی لیا۔ یہ کتاب پروفیسر نثار احمد فاروقی کے مضامین کا مجموعہ ہے جسے بہت سلیقے سے سرور الہدی صاحب نے مرتب کیا ہے۔ مجھے ان کا مقدمہ پڑھتے ہوئے حقانی صاحب یاد آگئے۔ انہوں نے صلاح الدین پرویز پر لکھے گئے مضامین کو مرتب کرتے ہوئے بہت معنی خیز جملہ لکھا ہے کہ ”ترتیب کاری سے مجھے بڑی وحشت ہوتی ہے۔یہ میرا ڈومین نہیں یہ تو اکیڈمک کے بڑے بڑے پروفیسروں کاعلاقہ ہے“ لیکن میں یہ کہوں کہ اس کتاب کے مرتب نے اس کتاب پر جو بیش قیمت مقدمہ لکھا ہے وہ انہیں اس کتاب کی ترتیب کاری کی جسٹی فکیشن کی سند عطا کرتا ہے۔ سرور الہدی صاحب نے فاروقی صاحب کے مضامین کی گہرائیوں میں جاکر ان کی فکری وفنی عظمت کو تلاش کیا ہے۔ ان کی محققانہ اور دانشورانہ عبقریت پر بہت سیر حاصل بحث کی ہے۔ ان کے اس بیش قیمت مقدمہ کو پڑھ کر نہ صرف نثار احمد فاروقی صاحب کی عظمت نگاہوں کے سامنے رقص کرجاتی ہے بلکہ ان سے سرور الہدی صاحب کے علمی علائق کی بیش قیمت نشاندہی بھی ہوتی ہے۔ اہل علم کی یہی تو اہم بات ہے کہ ان کے آپسی تعلقات مال ودولت کے لین دین سے مستعار نہیں ہوتے بلکہ وہ علمی ملفوظات اور اخذ وعطا سے آراستہ ہوتے ہیں۔ سرور الہدی صاحب نے فاروقی صاحب کے کم وبیش تمام مضامین پر بہت جامع تبصرے کیے ہیں۔ اوپر سے شمس الرحمن فاروقی کا مضمون”سرسخن“ نہ صرف کتاب کی اہمیت کو دوبالا کرتا ہے بلکہ نثار احمد فاروقی کی محققانہ اور دانشوارنہ عظمت کی سند پیش کرتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب! جس کا زمانہ ثنا خواں ہو وہ اگر کسی کی ثنا خوانی کرے تووہ کس درجہ کمال کا شخص ہوگا۔ جو شخض اپنی کتاب ”تفہیم غالب“ کو جس کے نام منسوب کرتا ہو اور اسے”علمائے ادب اور غالب شناسوں“ میں ممتاز بتاتا ہووہ کتنا عظیم ترین ہوگا۔ آپ انداز ہ لگا سکتے ہیں۔ جو مرزا مظہر جان جاناں کے ”خریطہء جواہر“ پر نثار احمد فاروقی کے مطالعاتی تعلیقات وحاشیہ آرائی اور استدراکات کوسراہتا ہو۔جو کلیات میر نسخہء فورٹ ولیم پر نثار احمد فاروقی کی تعلیقات پر سر دھنتا ہو۔جو نثار احمد فاروقی کے اعظم گڈھ کی وجہ تسمیہ کی تشریح سے اپنی لا علمی اور نثار احمد فاروقی کی وسعت مطالعہ کی داد دیتا ہو۔ جو ان کی تحقیقات اور مخطوطات کی قرات میں مہارت کی مثالیں پیش کرتا ہو۔ جو شخص اسے ”تم“ سے خطاب کرتا ہو لیکن جب اس سے اپنے تصور میں بات کرتا ہو تو نثار احمد فاروقی صاحب سے خطاب کرتا ہو۔ جس کے انتقال کے بعد وہ یہ شعر پڑھتا ہو کہ

لوگ کچھ پوچھنے کو آئے ہیں

اہل میت جنازہ ٹھہرائیں

لائیں گے پھر کہاں سے غالب کو

سوئے مدفن ابھی نہ لے جائیں

آخر اس ممدو ح کا ممدوح کتنا عظیم تر ہوگا۔اور مجھے! مجھے یہ سب پڑھ کر اپنی خوبی قسمت پر رشک آیا۔ رشک اس بات پر کہ نثار احمد فاروقی سے مجھے نیاز حاصل ہے۔ میں ان سے اس وقت وابستہ ہوا جب میں جامعہ ملیہ میں بی اے کا طالب علم تھا۔ لیکن یہ تعلق ان کے انتقال تک قائم رہا۔ یہاں تک کہ انھیں کی نگرانی میں پی ایچ ڈی بھی کی۔۔۔ جب میں ایم اے میں تھا تو فاروقی صاحب کا نام ٹائم ٹیبل میں درج تھا لیکن انہوں نے صرف ایک دو کلاسیں ہی لیں۔اس میں بھی میں حاضر نہیں تھا۔ باقی طلبہ کوشاید ان سے استفادے کا موقع ملا ہو لیکن میں ان کے گھر چلاجایا کرتا تھا۔ ان فاروقی صاحب کے گھر، جن کے گھر جاتے ہوئے اچھے اچھے گھبراتے تھے۔ جن سے ملتے ہوئے اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ جاتے تھے۔ لیکن میں بلا تکلف ان سے ملنے چلا جاتا تھا۔ وہ بھی درواہ کھولتے اور مجھے اپنے کمرے میں بیٹھاتے۔ چائے وغیرہ سے تو ضیافت نہیں کرتے تھے لیکن میں ہر نشست میں ان سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر نکلتا تھا۔ ایک دن نکل رہا تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب "سیرۃ طیبہ" عنایت کی۔ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے اپنے مضمون میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اس پر تبصرہ کرڈالو۔ حکم تھا۔ کیا کرتا۔ تعمیل کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔تبصرہ کردیا۔ اور قومی آواز کے ضمیمہ میں شائع ہوگیا۔ ایسے انہوں نے مجھے مکاتیب اقبال کی فہرست بھی تیار کرنے کو دی جو اردو اکیڈمی دہلی سے شائع ہوئی تھی۔ اس کا معاوضہ بھی دلایا تھا۔ وہ پی ایچ ڈی میں میرے گائڈ تھے۔ ان کے اصرار پر میں کم از کم وقت میں اپنا مقالہ جمع کرسکا۔ مجھے کہتے تھے جلدی کرو جلدی کرو۔ اتنا جلدی جلدی کررہے تھے کہ مجھے جلدی جمع کرنا ہی پڑا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیوں ایسا کہہ رہے ہیں بعد میں پتہ چلا کہ ان کے رٹائرمنٹ کا وقت قریب آگیا تھا۔ میں نے انگریزی میں اس کا خلاصہ لکھا تو اس پر انھوں نے خوب قلم چلایا۔ عربی والا تو یک قلم پاس کردیالیکن انگریزی والے پر خوب قلم چلایااور اصلاح کی۔ کیا خوب انگریزی لکھتے تھے۔ اردو اور انگریزی دونوں رسم الخط لاجواب تھے۔ اردو کا رسم الخط دیکھیے تو مولانا آزاد کا رسم الخط یاد آجاتا ہے۔

میں نے ان کی یہ سب یادیں کسی اور مضمون میں قلمبند کی ہیں۔ آج سرور الہدی صاحب کی اس کتاب سے ان کا بیش قیمت پیش لفظ اور شمس الرحمن فاروقی صاحب کا مضمون پڑھ کراستاد محترم کی بیساختہ یاد آگئی اور یہ سطریں صفحہء قرطاس پر گردش کرنے لگیں۔ مجھے اپنی خوبی قسمت پر رشک آیا کہ ہمیں بھی ایسے عظیم محقق، دانشور اور ادیب کی صحبت حاصل ہے۔ ان سے کسب فیض اور ان کے علم سے جرعات نوش کرنے کا موقع نصیب ہوا۔

ابھی سرور الہدی صاحب کی کتاب زیر مطالعہ ہے۔ فی الحال اتنا ہی۔ اگر یہ کتاب ریختہ پر موجود ہو تو آپ بھی پڑھیں۔ خود کو بہت دھنی محسوس کریں گے۔ اللہ دونوں فاروقی صاحبان کی مغفرت فرمائے۔ اور سرور الہدی صاحب کے قلم کو توانا رکھے۔آمین۔