ممبئی کا صحافتی سفر

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 20-03-2024
 ممبئی کا صحافتی سفر
ممبئی کا صحافتی سفر

 

معصوم مرادآبادی 
 
بمبئی میرے لیے ہمیشہ خوابوں کا شہر رہا ہے۔یہاں کی بے تحاشہ بھیڑبھاڑ اور تنگیوں کے باوجود مجھے یہاں کی نظم وضبط میں ڈھلی ہوئی زندگی اچھی لگتی ہے۔یہاں نقل وحمل کا نظام بھی بہت اچھا ہے۔ ٹیکسی اور آٹو والے کسی کو لوٹنے کی جرات نہیں کرتے۔مجھے شروع سے ہی بمبئی بہت پسند ہے اور میں نے بارہا اس کی رونقوں کو لوٹا ہے۔لیکن جب سے زندگی بے ہنگم مصروفیات کی نذر ہوئی ہے تب سے بمبئی کے سفر کم ہوگئے ہیں۔ کبھی ایک دودن سے زیادہ ٹھہرنے کا موقع نہیں ملتا، لیکن اس بار جب بھائی سرفرازآرزو نے اپنے اخبار ”ہندوستان“ کے 88برس پورے ہونے کی تقریب میں مجھے مدعو کیا تو میں نے ان سے کہا کہ اس بار میں کچھ دن وہاں ٹھہرنا چاہتا ہوں۔انھوں نے خوش آمدید کہا۔ لکھنؤ کے مانو کیمپس میں توسیعی خطبے اور ’بالمشافہ‘ کے اجراء سے فارغ ہوکر سیدھالکھنؤ سے ممبئی پہنچ گیا۔سفردرسفر سے گریز کرتا ہوں، لیکن اس بار یہ ممکن نہیں ہوسکا۔ بمبئی پہنچ کر مجھے ایک عجیب طمانیت محسوس ہوتی ہے۔ دوست احباب بھی بہت ہیں مگر سب سے زیادہ سمندر سے میری شناسائی ہے۔گھنٹوں ساحل پرلہروں سے ہم کلام رہتا  ہوں۔اس بار جن دوستوں نے میرے ساتھ وقت بتایا ان میں برادرم سرفرازآرزو کے علاوہ برادرمکرم ندیم صدیقی، شکیل رشید، فاروق سید، جاوید جمال الدین،محمدوجیہ الدین،شہباز صدیقی،سعید خان اور ڈاکٹر روؤف پٹھان کے نام قابل ذکر ہیں۔
پہلے دودن توسینٹرل ممبئی کے پریل میں واقع آئی ٹی سی گرانڈ سینٹرل میں ہندی صحافی آشوتوش کے ساتھ گزرے۔ پھر میں ناگپاڑہ آگیا۔آئی ٹی سی گرانڈسینٹرل واقعی بہت خوبصورت ہوٹل ہے۔ میں نے امریکہ اور انگلینڈ کے ہوٹلوں میں جو لطف اٹھایا وہی یہاں بھی محسوس ہوا۔ ہندستان میں عالمی معیار کے ہوٹل دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔لیکن مجھے اصل لطف ناگپاڑہ کے  ہوٹل میں آیا۔اپنا ماحول، اپنی تہذیب اور معاشرت کی بات ہی کچھ اور ہے۔26/فروری کی صبح برادرم فاروق سید اپنی تیز رفتار اسکوٹی پر بٹھاکر مجھے اپنا نیا دفتر دکھانے لے گئے، وہیں پرانے دوست فوٹو گرافر عبید خاں سے بھی ملاقات ہوئی، جنھوں نے 1987میں بال ٹھاکرے سے انٹرویو لیتے ہوئے میری تصویر کھینچی تھی۔ طویل عرصہ بعد ملے تو بہت خوشی ہوئی۔اس دوران ’ممبئی اردو نیوز‘ کے ایڈیٹر اور ہمدم دیرینہ شکیل رشیدمکتبہ جامعہ کی بھنڈی بازار برانچ پہنچ گئے تھے۔ ان کے ساتھ میں نے پہلی بار مکتبہ میں کچھ وقت گذارا۔ یہ بڑی تاریخی جگہ ہے جہاں ماضی میں اخترالایمان، جاں نثار اختر، علی سردار جعفری، ظ انصاری، مجروح سلطانپوری، باقر مہدی،فضیل جعفری، حسن کمال،اور جاوید صدیقی جیسے لوگ آکر بیٹھاکر تے تھے۔ ان اکابرین ادب کی کچھ خوشبو یہاں آج بھی محسوس ہوتی ہے۔یہ محفلیں میرے کرم فرما شاہد علی خاں کے دم سے آباد تھیں جو اس زمانے میں مکتبہ جامعہ کی بمبئی شاخ کے منیجر تھے۔عبداللہ کمال نے ان محفلوں کا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
”مکتبہ جامعہ کی ممبئی شاخ بھی کسی زمانے میں ایک عرصے تک ممبئی کے بے کراں، بے اماں آسمان کے نیچے ایک فرحت بخش سائبان کا حکم رکھتی تھی، جہاں ممبئی کے سرکش قلم زادوں کی مجروح ومفرور روحیں شام ڈھلے یکجا ہوجاتی تھیں اور اپنے اپنے زخموں اور ٹوٹ پھوٹ کا جائزہ لیتی تھیں۔شاہد علی خاں جنھیں سب پیار سے شاہد بھائی کہتے ہیں، ان مجروح ومفرور روحوں کے روح رواں ہواکرتے تھے اور ممبئی کے ان ادیبوں اور شاعروں کے سروں پر جامعہ کا سائبان ان ہی کے دم سے قایم تھا۔“(’شاہدعلی خاں:ایک فردایک ادارہ‘:مرتب:نصیرالدین اظہر، صفحہ160)
مکتبہ جامعہ کی یہ تاریخی شاخ ابھی جوں کی توں موجود ہے، لیکن یہاں بھی مکتبہ جامعہ کے ہیڈآفس پر طاری جمود کاگہرا اثر ہے۔فی الحال ایک نوجوان عالمگیر نے اس کی کمان مضبوطی سے سنبھال رکھی ہے۔ آگے کیا ہوگا مجھے نہیں معلوم۔ بہرحال مکتبہ میں شکیل رشید، شاداب رشیداور فاروق سید میراساتھ دینے کے لیے وہاں موجود تھے۔شاداب رشید سے پہلی ملاقات تھی۔ وہ بمبئی کے معروف صحافی، ادیب،کالم نگار اور ’نیاورق‘ کے مدیر ساجد رشید کے ہونہار بیٹے ہیں۔ ’کتاب دار‘کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ چلاتے ہیں۔انھوں نے ’نیا ورق‘ کو بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔مجھے ان سے مل کر خوشی ہوئی۔ان کا ادبی ذوق قابل قدر ہے اور ان میں اپنے والد کی پوری جھلک موجود ہے۔فاروق سید بچوں کے ماہنامہ ’گل بوٹے‘ کے بڑے محنت کش اور صراط مستقیم پر چلنے والے ایڈیٹر ہیں۔ جب بھی ملتے ہیں تپاک سے ملتے ہیں۔ ان کی اور معروف شاعر قاسم امام کی جوڑی کلیان جی آنند جی کی طرح ہے۔
شکیل رشید میرے دیرینہ کرم فرما ہیں۔میں انھیں خلیل زاہد کے ’اخبار عالم‘کے زمانے سے جانتا ہوں۔بڑی محبت اور خلوص میں رچے ہوئے انسان ہیں۔ اس بار ان سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی اور ہم نے ناگپاڑہ کے ساروی ہوٹل میں ایرانی ڈش ’آب گوشت‘ کا لطف اٹھایا۔ میزبان تھے بھائی شہباز صدیقی۔ سعید خان اور فاروق سید نے بھی ساتھ دیا۔ ناگپاڑہ چوک کی خوبیوں کا ذکر میں پہلے ہی ایک پوسٹ میں کرچکا ہوں۔ یہاں غالب، مولانا آزاد، حسرت موہانی اور بی اماں کی جو یادگاریں قایم کی گئی ہیں انھوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔اس میں سماجوادی پارٹی کے ممبر اسمبلی رئیس قاسم شیخ کی کوششوں کا دخل ہے۔مرزاغالب روڈ پر واقع پارک کے ڈیولپمنٹ اور یہاں غریبوں کے علاج کے لیے شہباز صدیقی،سعید خان اور ان کے ساتھیوں نے جو ڈسپنسری اور ڈائلسس سینٹر قایم کیا ہے، وہ لاجواب ہے۔یہاں مرحوم ضیاالدین بخاری کے نام کا سائن بورڈبھی آویزا ں ہے۔ اس میں بہت سے غریبوں کا علاج ہورہا ہے۔ اسی پارک میں بی اماں کی یادگار قایم کی گئی ہے۔ اہل بمبئی کے جذبہ خیر کی پہلے ہی تعریف کرچکا ہوں۔
بردارمکرم ندیم صدیقی کا بے حد ممنون ہوں جو ممبرا سے دوبار مجھ سے ملنے بمبئی آئے اور اپنے پسندیدہ نورمحمدی ہوٹل میں ضیافت بھی کی۔ندیم بھائی واقعی خوب انسان ہیں۔ میں نے ظ۔انصاری کے اخبار ”آئینہ“ کا تذکرہ کیا تو اگلے روزمجھے دکھانے کے لیے اس کی قیمتی فائل بغل میں دباکر لے آئے۔وہ بھی لوکل ٹرین کی بھیڑ بھاڑ سے بچتے بچاتے۔ اس بار سوچا تھا کہ ان کے ممبرا کا بھی دیدار کروں گا، مگر اس کی مہلت نہیں ملی۔مگر ندیم بھائی نے مجھے ناگپاڑہ پر کئی تاریخی مقامات دکھائے۔ پہلے وہ مولانا آزاد روڈ پر ’ہندوستان‘ کے دفتر سے کچھ آگے اس مقام تک لے گئے جہاں 1938سے میں روزنامہ ’انقلاب‘کی اشاعت شروع ہوئی تھی۔ اس بلڈنگ کا نام آج تک ’انقلاب منزل‘ ہے۔یہیں کسی زمانے میں روزنامہ ’اقبال‘ کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ اسی مولانا آزاد روڈ سے روزنامہ ’اردو ٹائمز‘ کی اشاعت شروع ہوئی تھی۔یہیں ندیم بھائی نے یہاں مجھے کمیونسٹ پارٹی کے دفتر کی عمارت بھی دکھائی جہاں کبھی کیفی اعظمی اور علی سردار جعفری آکر بیٹھتے تھے۔ ناگپاڑہ سے نورمحمدی ہوٹل تک انھوں نے مجھے ممبئی کی نئی الیکٹرانک بس میں بٹھانے سے پہلے بس اسٹاپ کے قریب پارسیوں کا وہ علاقہ بھی دکھایا جہاں کبھی سعادت حسن منٹوپارسی دوشیزاؤں سے دوستی نبھانے آتے تھے۔ ممبئی دراصل ایسی ہی دلکش داستانوں کا شہر ہے اور یہ داستانیں ندیم بھائی کی زبانی اچھی لگتی ہیں۔ وہ اپنی گفتگو میں زیروزبر اور پیش وقوسین کا ایسا ہی خیال رکھتے ہیں، جو ان کی تحریروں کی خوبی ہے۔خدا انھیں سلامت رکھے۔یار زندہ صحبت باقی