ظفرآغا کی صحافتی خدمات

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 22-03-2024
ظفرآغا کی صحافتی خدمات
ظفرآغا کی صحافتی خدمات

 

معصوم مرادآبادی

سینئر صحافی ظفرآغاکے انتقال سے صحافتی ،ادبی اور ملی حلقوں میں سوگ کی لہرہے۔ وہ ایک حساس ،سنجیدہ اور سلجھے ہوئے صحافی تھے۔ انھوں نے اپنا کیریر انگریزی صحافی کے طورپر شروع کیا تھامگران کا انتقال ایک اردو صحافی کے طورپر ہوا۔انتقال سے پہلے تک وہ اردو نیوزپورٹل ‘‘قومی آواز’’ کے مدیر تھے، جس کا دفتر بہادر شاہ ظفرمارگ پر اسی لنک ہاؤس سے متصل تھا ، جہاں سے 1979میں انھوں نے ‘‘لنک میگزین’’ میں بطور انگریزی صحافی اپنا کیریرشروع کیا تھا۔ 45 برسوں پر محیط ان کی صحافتی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ، لیکن انھوں نے صحافتی دیانت داری اور پروفیشنل ازم کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام صحافتی حلقوں نے ان کے انتقال پر گہرے سوگ کا اظہار کیا ہے۔نئی دہلی کی جورباغ کربلا میں ان کی تکفین اور ساکیت قبرستان میں ان کی تدفین کے موقع پر کثیر تعداد میں انگریزی اور اردو صحافیوں کی موجودگی اس کا ثبوت ہے۔

 ظفرآغا کا انتقال 22؍مارچ 2024کی صبح پانچ بجے نئی دہلی میں وسنت کنج کے فورٹس اسپتال میں ہوا جہاں وہ گزشتہ تین روز سے نمونیہ اور سینے کے انفیکشن کی وجہ سے زیرعلاج تھے۔ وہ کئی برس سے صحت کے مسائل سے جوجھ رہے تھے۔دراصل کورونا دور میں کووڈ سے متاثر ہونے کے بعد ان کی صحت مسلسل خراب رہنے لگی تھی، لیکن قلم وقرطاس سے ان کارشتہ برقایم تھا اور وہ کالم نویسی کے ذریعہ اپنی موجودگی کا مسلسل احساس دلارہے تھے۔کبھی کبھی کسی تقریب میں نظر آتے تو ان سے مل کر خوشی ہوتے تھے۔ کبھی زیادہ دل گھبراتا تو پریس کلب آجاتے اور پرانے دوستوں سے مل کر نہال ہوتے تھے۔

ہندوستان میں 1980-90 کی دہائی سیاسی تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ اسی دور میں ملک کے اندر ایمرجنسی لگی اور اس کے بعد جنتا پارٹی کا دور آیا۔ اس کے ایودھیا آندولن شروع ہواجس نے ملک کا سیاسی منظر بدل دیا۔صحافت بھی اس کثافت سے محفوظ نہیں رہ سکی۔لیکن ظفر آغا اس نازک دور میں بھی اپنے اصولوں کے ساتھ بندھے رہے۔ وہ ان معدودے چند مسلمان صحافیوں میں شامل تھے ، جنھوں قومی میڈیا میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ظفرآغا کے علاوہ جومسلم نوجوان اس قافلے کا حصہ تھے، ان میں کچھ نام یاد آرہے ہیں۔فرازاحمد(‘انڈین ایکسپریس’)عسکری زیدی اوراسامہ طلحہ(‘ٹائمز آف انڈیا’)ضیاء حیدر رضوی(پیٹریاٹ)فرزند احمد(انڈیا ٹوڈے)ایم جے اکبر اور رشید قدوائی(ٹیلی گراف)پرویز حفیظ(‘ایشین ایج ’ کلکتہ)اور قربان علی (‘روی وار’)۔یہ سب وہ لوگ ہیں جنھوں نے قومی صحافت میں اپنا پرچم بلند کیا۔ان میں اسامہ طلحہ اور فرزند احمد دنیا چھوڑ چکے ہیں جبکہ باقی لوگ کسی نہ کسی صورت میں اس محاذ پر جمے ہوئے ہیں۔

ظفرآغا کا تعلق الہ آباد سے ضرور تھا ۔لیکن وہ عرصہ دراز سے دہلی میں مقیم تھے اور یہی ان کی صحافتی سرگرمیوں کا محور ومرکز بھی تھا۔ ان کے بڑے بھائی قمرآغا ٹی وی چینلوں میں ایک تجزیہ نگار کے طورپر شہرت رکھتے ہیں۔ظفرآغاکی صحافتی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے نہایت سرگرم زندگی گزاری۔میری ان سے شناسائی اس وقت ہوئی تھی جب وہ انگریزی روزنامہ ‘پیٹریاٹ ’ کے لیے رپورٹنگ کرتے تھے۔حالانکہ کووڈ کے بعد ملاقاتیں کم ہوگئی تھیں ، لیکن ہم دونوں کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ مضبوط تھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ بیماری کے باوجود میرے بیٹے کے ولیمے میں شرکت کے لیے آئے تھے۔

 ظفر آغانے دہلی میں اپنا صحافتی کیریر 1979میں پیٹریاٹ گروپ کے ‘‘لنک میگزین ’’ سے شروع کیا تھا۔بعد کو وہ انگریزی میگزین ‘‘انڈیا ٹوڈے ’’ سے وابستہ ہوگئے اور یہیں ان کی صحافیانہ صلاحیتوں پر شباب آیا۔انھوں نے ہمیشہ ایک ایماندار اور سچے صحافی کے طورپر کام کیا اور کبھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔اس کے بعد انھوں نے ‘‘سنڈے آبزرور ’’ کے لیے بھی کام کیا۔ وہ ‘‘انڈیا ٹوڈے ’’ میں سیاسی امور کے ایڈیٹررہنے کے بعد ای ٹی وی سے بھی وابستہ رہے۔ لیکن سیاسی حالات کی تبدیلی کے ساتھ جب آہستہ آہستہ قومی ذرائع ابلاغ میں ان جیسے صحافیوں کے لیے جگہ تنگ ہونے لگی تو انھوں نے اردو صحافت کا رخ کیا اور سب سے پہلے حیدرآباد سے شائع ہونے والے روزنامہ ‘‘سیاست’’ کے سنڈے ایڈیشن میں کالم نگاری کا آغاز کیا۔ ‘‘سیاست ’’میں وہ کئی برس تک کالم نگاری کرتے رہے اور اس کے ذریعہ اردو صحافت تک ان کی رسائی ہوئی۔ انھوں نے روزنامہ ‘‘صحافت’’ کے دہلی ایڈیشن کی صورت گری میں بھی حصہ لیا اور مسلسل کالم لکھے ۔2008میں روزنامہ ‘‘قومی آواز’’ کی اشاعت بند ہونے کے کچھ عرصے بعد اس کا نیوزپوٹل شروع ہوا تو وہ اس کے پہلے ایڈیٹر بنے ۔ اس دوران انھوں نے‘ نیشنل ہیرالڈ’ سے مرنال پانڈے کی علاحدگی کے بعدہیرالڈ کی بھی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ 2017 تک نیشنل کمیشن برائے اقلیتی ادارہ جات کے رکن بھی رہے۔

ظفرآغا کی پیدائش 1954میں الہ آباد کے ایک معزز شیعہ خانوادے میں ہوئی ۔انھوں نے وہاں یادگار حسینی کالج اور الہ آباد یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ وہ بنیادی طورپر انگریزی ادب کے طالب علم تھے۔دوران تعلیم ہی وہ طلباء کی ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے اورتاعمر بائیں بازو اور جمہوری قدروں سے وابستہ رہے۔وہ دہلی یونین آف جرنلسٹس (ڈی یو جے)میں بھی سرگرم رہے۔1979 میں نئی دہلی کے ‘‘لنک میگزین ’’ سے وابستگی سے قبل انھوں نے اپنا کیریر گجرات کے سورت شہر میں انگریزی ٹیچر کے طورپر کیا تھا۔ انھیں انگریزی زبان وادب پر مکمل دسترس حاصل تھی ، لیکن بعد کو جب انھوں نے اردو میں کالم نگاری شروع کو تو اس پر بھی عبور حاصل کرلیا تھا۔

ظفرآغا الہ آباد میں ایک فساد کی رپورٹنگ کے دوران زخمی ہوگئے تھے اور ان کی بائیں ٹانگ میں فریکچر ہوگیا تھا، جس نے انھیں کافی عرصے پریشان رکھا ۔ اسی دوران وہ اپنی بائیں آنکھ سے بھی محروم ہوگئے اور مسلسل صحت کے مسائل سے جوجھتے رہے ، لیکن بیماری اور آزاری کے باوجود انھوں نے صحافت سے اپنا رشتہ برقرار رکھا۔انھیں سب سے بڑا جھٹکا اس وقت لگا جب2020میں وہ اور ان کی اہلیہ کووڈ کی وبا کا شکار ہوئے۔ اسی وبا میں ان کی اہلیہ اپنا مالک حقیقی سے جاملیں۔خود ان پر کافی عرصے اس کے اثرات رہے اور وہ پوری طرح صحت یاب نہیں ہوسکے۔صحت کے ان ہی مسائل نے ان کی جان لے لی۔ خدا انھیں اپنے جواررحمت میں جگہ عطا فرمائے۔آمین