حاجی نذیر احمد کے سفرِ حج کی مختصر روداد: ایک دلچسپ کتاب

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 31-03-2024
 حاجی نذیر احمد کے سفرِ حج کی مختصر روداد: ایک دلچسپ کتاب
حاجی نذیر احمد کے سفرِ حج کی مختصر روداد: ایک دلچسپ کتاب

 

🖋️عبدالرحمن قاسمی 
روئے زمین پر بسنے والے ہر مؤمن کی یہ چاہت، آرزو ،تمنا، خواہش اور قلبی و دلی تڑپ رہتی ہے کہ وہ رب ِ دوجہاں کی گھر کی زیارت کرے، پیغمبر اعظم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ ٔ اقدس پر حاضری دے، حضرت ابراہیم ؑ و ہاجرہ کی سنتوں کو زندہ کرے، اسلامی اور تاریخی مقامات کی سیر کرے، اپنے دل میں لیے اِن آرزؤں و تمناؤں اور حسرتوں کی تکمیل پر اِنسان خوشی سےاللہ کا شکر و احسان بجالاتا ہے، وہ فرط ِ محبت و عقیدت اور جذبہ میں اُس لمحے اور سفرِ حج کو زندگی کی ’ تاریخی سفر‘  مانتا ہےاور بلاشبہ وہ تاریخی سفر ہوتا بھی ہے، پھر اُسے یاد رکھنے کی اپنی سعی بھر کوشش کرتا ہے، ڈائری و روزنامچوں میں اپنی یادیں ،باتیں اور ردوادیں قلم بند کرتا ہے۔
 حاجی نذیر احمد صاحب ؒ اعظم گڑھ کے ایک گاؤں ’ چاند پٹی ‘ سے تعلق رکھنے والے اُن خوش نصیب مسافران راہ ِ آخرت میں سے ہیں جنہوں نے ستمبر ۱۹۸۰ء میں پانی جہاز کے ذریعہ حج کےلیے رختِ سفر باندھا اور جنوری ۱۹۸۱ء میں سفر ِمسعود مکمل ہوا، حاجی نذیر احمد صاحب ؒ ڈائری لکھنے کے عادی تھے٬ چناں چہ اُنہوں نے سفر ِحج کے دوران جو کچھ بھی پیش آیا، خواہ وہ سانحہ ہو یا واقعہ اپنی ڈائری میں تاریخ وار جگہ دیا، انہوں نے جہاں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی عظمت و شان اور اپنی وارفتگی ووابستگی کو جس جذبے و خلوص سے بیان کیا، اُسی طرح وہاں کی صورت حال کو اپنے مشاہدات کی روشنی میں قلم بند کیا ہے۔ انہوں نے ۱۳ نومبر ۱۹۸۰ء کو شعب ابی طالب اور شق القمر کی زیارت کے بعد لکھا  
 میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ عرب میں پُرانی یادگاریں بڑی ابترحالت میں ہیں، حکومت کوئی توجہ نہیں دیتی، مسجد بلال ِـ میں بچھے تو ہیں قالین اور دبیز لیکن اُس کے اوپر نماز نہیں پڑھ سکے،کیوں کہ بکریوں کی مینگیاں پٹی ہوئی ہیں، تولیہ بچھا کر نفل پڑھی گئی‘‘
 حاجی نذیر احمد کے سفر حج کی مختصر روداد ص ۔ ۶۴ تدوین وتقدیم : ڈاکٹر عمیر منظر 
 اسی طرح ۲۰ نومبر ۱۹۸۰ء جب وہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کا سفر طے کررہے تھے تو انہوں نے مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کے لیے ستر کلو میٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد راستے کے مناظر کو کچھ اس طرح رقم کیا : 
 ’ ( مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ جانے والی راستہ میں)  اونٹ ،بھیڑ اور بکریوں کے جھنڈ ملے، جن کو عورتیں اور بچے چرارہے تھے، عربی لباس لمبے کرتے میں ۔لیکن اب صحا بہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کا زمانہ نہیں ہے، بچوں کے ہاتھوں میں تیر اور کمانیں نہیں ہیں بلکہ وہ ڈنڈے لے کر اپنے جانوروں کو ہنکا رہے تھے اور کھیل رہے تھے، لیکن اُن کا کھیل بے مقصد تھا ۔ اب عرب کے ریگستانوں میں طاہر بن یوسف یا سعد یا حسن بن عبدالمنعم یا محمد بن قاسم نہیں ہیں، اس وقت عرب کے لوگ آرام پسند اور عیش وعشرت کے دلدادہ ہیں۔ یہی عرب تھا کہ یہاں کے بدو مجاہد اسلام اور دنیا کے امام پیدا ہوتے تھے، کاش کہ یہ لوگ اپنے بزرگوں کے حالات پڑھتے اور عبرت حاصل کرتے"
 حاجی نذیر احمد کے سفر حج کی مختصر روداد ص ۔ ۶۵ تدوین وتقدیم : ڈاکٹر عمیر منظر 
۲۴ نومبر ۱۹۸۰ء کو جب حاجی نذیر احمد صاحب نے مدینہ کی زیارت کی اور شہدائے اسلام کے مزار پر تشریف لے گئے، قبرستان مقفل تھا ( سعودی حکومت کے دورِحکومت سے پہلے ترکی دور ِحکومت میں کھلا رہتا تھا، جاہل لوگوں کے قبر پر چڑھاوے اور سجدے کی وجہ سے تالا لگاد یا گیا)  اپنے احساسات  وجذبات کی ترجمانی اس طرح کی ہے : 
 ’’ مجبوراً  ہم لوگ باہر ہی سے درود اور فاتحہ پڑھ کر دل مسوس کے رہ گئے، شہدائے اُحد کی یاد تازہ ہوگئی، عم نبی ﷺ اور سید الشہدا ء حضرت ِحمزہ رضی اللہ عنہ کلیجے اور جگر کو ہندہ جگر خوار نے چبا ڈالا نیز گوش و بینی کا ہار پہنا، قصہ طو ل ہے تاریخ شاہد ہے، بے اختیار آنکھیں اشکبار ہوگئیں، حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا بچپن یادآگیااور پھر اسلام لانے کے بعد کا واقعہ دماغ میں گھوم گیا، کیا بتاؤں اور صلاحیت ہوتی تو ایک ضخیم کتاب لکھ دیتا‘‘
 حاجی نذیر احمد کے سفر حج کی مختصر روداد ص ۔ ۶۸ تدوین وتقدیم : ڈاکٹر عمیر منظر
 ڈاکٹر عمیر منظر ( اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو ،مانو لکھنؤ کیمپس)  جو تنقید، تحقیق، تدریس اور صحافت و نظامت پر کمال درک رکھتے ہیں، حکیم وسیم احمد اعظمی نے اپنی نئی کتاب  ’حفیظ نعمانی اور اُن کا عہد ‘ (حفیظ نعمانی کے چند ہم عصر اردو صحافی و کالم نگار) ص ۵۲۹۔۵۳۲  پر خوبصورت اور اچھوتے انداز میں اُن کی کاوشوں اور کوششوں پر روشنی ڈالی ہے ۔ حاجی نذیر احمد صاحب کے پوتے ہیں، ڈاکٹر عمیر منظر کو کورونا وائرس کے زمانے میں قدیم فائلوں کی تلاش میں جد ّمکرم ( حاجی نذیر احمد ) کی یہ ڈائری ملی ، اشاریے ، واقعے اور روداد کو پڑھ کر اُنہیں لگا کہ اِسے منظر عام پر لانی چاہیے، چناں چہ اُنہو ں نے نوک پلک درست کرکے بعض جزوی ترمیمات و اضافے اور ذیلی سرخیوں کے ساتھ شائع کرنے کا اہتمام کیا، اس کے شائع کرنے کے مقصد کے تعلق سے وہ لکھتے ہیں : 
 ’’ محترم حاجی نذیر احمد کے سفر حج کی اِس مختصر روادا کو کتابی شکل میں پیش کرنے کا ایک مقصدیہ بھی ہے کہ آج سے چار دہائی قبل کے سفر اور عازمین حج کے دلی جذبات و احساسات سامنے آسکیں او ر اِس زمانے میں حج بیت اللہ کے مناظر بھی دیکھ سکیں‘‘
  حاجی نذیر احمد کے سفر حج کی مختصر روداد  ص ۔ ۱۶ تدوین وتقدیم : ڈاکٹر عمیر منظر
یہ کتاب ۹۳ صفحات پر مشتمل سفرحج کی خوبصورت اور دلچسپ روداد ہے، اخیر کتاب میں اُن شخصیات کا مختصر تعارف ہے ، جو حاجی نذیر احمد صاحب  ؒکے ہمراہ سفرحج پر تھےاور اسی طرح اُن کی عکس تحریر بھی شامل ِکتاب ہے ۔ کتاب پر پروفیسر اختر الواسع صاحب کا مقدمہ اور ڈاکٹر تابش مہدی صاحب کا تقریظ ہے ، ڈاکٹر تابش مہدی نے اِس کتاب کے تعلق سے اپنے رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے : 
’ اِس مختصر روداد ِسفر میں جناب حاجی نذیر احمد نے اپنی بہت مختصر روداد پیش کی ہے ، تا ہم  اس کے مطالعے سے سفر ِحرمین کی اہمیت و معنویت اور اس سلسلے کے بعض پہلوؤں کا بہ خوبی اندازہ ہوجاتا ہے ، اس کے مطالعے سے جہاں ایک طرف بعض سفری دشواریوں اور قانونی پیچیدگیوں کی طرف روشن اشارے ملتےہیں ، وہیں ایک حقیقی و مخلص زائر حرمین کے مؤمنانہ جذبات اور اس کی قلبی کیفیت کا بھی ہم اندازہ کرتے ہیں، یہ وہ جذبات و کیفیات ہیں،جن کےبغیر کسی حاجی کے سفر کو مبارک یا مکمل نہیں کہا جاسکتا ‘‘
  حاجی نذیر احمد کے سفر حج کی مختصر روداد  ص ۔ ۱۴ تدوین وتقدیم : ڈاکٹر عمیر منظر
 ڈاکٹر عمیر منظر صاحب قابل مبارکباد ہیں کہ جنہوں نے ایک مختصر اور دلچسپ حج کی روداد ہم قارئین کے لیے پیش کی ہے البتہ دوران ِمطالعہ ایک دو لفظ کا استعمال مجھے ذاتی طور پر اچھا نہیں لگا جیسے لفظ ’ سُستانا ‘ ہے ( اس جگہ ہم لوگوں نے دور کعت نقل ادا کی اور کچھ سستانے کے بعد چوٹی کی دوسری طرف چند گز نیچے اترے)  جس کا معنی ہے ٹھہرنا ، رُکنا او رکچھ دیر آرام کرنا ہے ۔گو اِسےروز مرہ کے  جملوں میں استعمال کیا جاتا ہے کہ لیکن مجھے اچھا نہیں لگا، اسی طرح کتاب کے مقدمہ میں پروفیسر اختر الواسع صاحب کے استعمال کیے گئے دوالفاظ ’ مِنا ( جو عام طور پر ی کے ساتھ )  مِنی لکھا جاتا ہے۔اور رمی جِمار میں لفظ جمار میں جیم کو ضمہ کے ساتھ لکھا ہے ،ڈکشنری سے ذرا مختلف ہے۔ عین ممکن ہےکہ ٹائپینگ کی غلطی ہو خیر صحیح اور درست کیا ہے ؟  اس سے ڈاکٹر عمیر منظر صاحب اور دیگر اساطین علم وادب آگاہ فرمائیں گے۔
 اِس کتاب کے ناشر و طابع ’نعمانی پرنٹنگ پریس،گولہ گونج لکھنؤ ہ ، قیمت ۱۸۰ روپیے ہے ، ہمارے کتابی ادارہ ’نگارشات بک اسٹور دیوبند‘ سے ہندوستان میں کہیں بھی گھر بیٹھے منگوائی جاسکتی ہے۔