تقسیم میں بچھڑے خاندان،جنھیں سرحد اور مذہب کی دیواریں ملنے سے نہ روک سکیں

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 13-08-2022
تقسیم میں بچھڑے خاندان،جنھیں سرحد اور مذہب کی دیواریں ملنے سے نہ روک سکیں
تقسیم میں بچھڑے خاندان،جنھیں سرحد اور مذہب کی دیواریں ملنے سے نہ روک سکیں

 

 

نئی دہلی: آج بھی 1947 کے تقسیم اور فسادات کا درد ہندوستان اور پاکستان کے کئی حصوں میں موجود ہے۔ نہ جانے کتنے ایسے گھرانے اور لوگ تھے جنہوں نے فسادیوں کے ہجوم میں اپنے پیاروں کو کھو دیا۔ حالات ایسے تھے کہ کسی نے ہندوستان کا راستہ پکڑا تو کسی نے پاکستان کا انتخاب کیا۔

آج بھی ایسے بہت سے گھرانے ہیں جن میں سے کچھ اس وقت ہندوستان میں رہ گئے اور کچھ پاکستان میں۔ ایسا ہی کچھ ہندوستان کے سِکا خان کے ساتھ بھی ہوا جو چند ماہ قبل اپنے پاکستانی بھائی صادق خان سے ملے ہیں۔ دونوں ملکوں کی سرحدیں برسوں پہلے تقسیم ہوئیں لیکن دونوں بھائیوں کی محبت تقسیم نہ ہو سکی اور چند لوگوں کی مدد سے بالآخر ایک دوسرے سے ملنا مقدر ٹھہرا۔

سکا کی عمر صرف 6 ماہ تھی جب وہ 1947 کے فسادات کے دوران اپنے بڑے بھائی صادق خان سے الگ ہو گئے تھے۔ سکا کے والد اور بہن فسادات میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن 10 سالہ صادق بچ گئے اور کسی طرح پاکستان پہنچ گئے۔ ان کی ماں یہ دکھ برداشت نہ کر سکی اور اس نے دریا میں چھلانگ لگا کر جان دے دی۔

awazthevoice

تقسیم کے وقت ٹرین پر سوار مہاجر

بھٹنڈہ کے رہنے والے سکا کو گاؤں والوں نے کسی طرح بچایا، جس کے بعد ان کی پرورش ہندوستان میں رہنے والے رشتہ داروں کے گھر ہوئی۔ بچپن کے بعد جب سکا کو سمجھ آئی تو انھوں نے اپنے بھائی صادق کا پتہ لگانا شروع کیا جو پاکستان میں رہنے والے اپنے خاندان کے واحد فرد تھے۔

کئی دہائیوں تک سکا خان اپنے بھائی صادق کو ڈھونڈتے رہے لیکن دونوں بھائی نہ مل سکے۔ تقریباً تین سال پہلے، ایک ڈاکٹر نے سکا کی کہانی کو سنجیدگی سے لیا اور دونوں بھائیوں کو دوبارہ ملانے کی کوشش شروع کی۔

پاکستانی یوٹیوبر ناصر ڈھلوں نے بھی خاندان کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی اور بالآخر رواں سال جنوری میں کرتار پور راہداری میں دونوں بھائیوں کی ملاقات ہوئی۔ سکا کا اس بارے میں کہنا ہے کہ میں انڈیا سے ہوں اور وہ پاکستان سے ہیں لیکن پھر بھی ہم ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں۔

سکا کا مزید کہنا تھا کہ جب ہم پہلی بار ملے تو گلے ملے اور بہت روئے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازع کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک آپس میں لڑتے رہتے ہیں، ہمیں ہندوستان اور پاکستان کی سیاست کی کوئی پرواہ نہیں۔

دونوں بھائیوں کا تعارف کرانے والے پاکستانی یوٹیوبر 38 سالہ ڈھلون کا کہنا ہے کہ وہ اب تک اپنے چینل کے ذریعے سرحد کی زنجیروں میں پھنسے 300 خاندانوں کو ایک دوسرے سے ملواچکے ہیں۔ ڈھلون نے اس بارے میں مزید بتایا کہ یہ ان کا پیسہ کمانے کا طریقہ نہیں ہے بلکہ ذہنی سکون اور جذبہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ان کی کہانیوں کو اپنے خاندان کی کہانی کے طور پر دیکھ کر ان سب کی مدد کرتے ہیں۔

جب بلدیو-گرمکھ بہن ممتاز سے ملے

۔ 1947 کے فسادات کے دوران، ایک نوزائیدہ بچی اپنی ماں کی لاش کے پاس پڑی تھی، جسے پاکستان کے ایک مسلمان خاندان نے گود لےلیا ۔ دوسری طرف بچی کے باپ کو ہمیشہ یہی لگتا تھا کہ اس نے اپنی بیوی اور بچی کو کھو دیا ہے۔ جس کے بعد اس وقت کے رواج کے مطابق اس کی شادی اپنی بیوی کی بہن سے کر دی گئی۔

awazthevoice

تقسیم ہند کا منظر

جس کے بعد بلدیو اور گرومکھ سنگھ پیدا ہوئے۔ جب دونوں بڑے ہوئے تو ڈھلون کے یوٹیوب چینل کے ذریعے پتہ چلا کہ ان کی بہن ابھی تک پاکستان میں زندہ ہے۔ جس کے بعد ملاقات کی کوششیں کی گئیں اور بالآخر کرتار پور راہداری میں تینوں بہنوں اور بھائیوں کی ملاقات ہوئی۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ دونوں بھائیوں نے اپنی بہن کو پہلی بار دیکھا تھا لیکن محبت بالکل کم نہیں تھی۔ 65 سالہ بلدیو سنگھ اس بارے میں کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی بہن ممتاز کو پہلی بار دیکھا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری بہن کے مسلمان ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم تینوں کی رگوں میں ایک ہی خون دوڑ رہا ہے۔ ساتھ ہی ممتاز کا اس بارے میں کہنا تھا کہ جب مجھے اپنے بھائیوں کے وجود کا علم ہوا تو ایسا لگا جیسے اللہ ہمیں ملوانا چاہتا ہے۔ میں آخر کار خدا کے فضل سے اپنے بھائیوں سے مل سکی ہوں۔