پہلی جنگ آزادی کا جانبازکمانڈرجنرل بخت خان روہیلہ

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 13-08-2022
پہلی جنگ آزادی کا جانبازکمانڈرجنرل بخت خان روہیلہ
پہلی جنگ آزادی کا جانبازکمانڈرجنرل بخت خان روہیلہ

 

 

غوث سیوانی، نئی دہلی

اٹھارہ سو ستاون کا خونیں موسم تھا۔پورے ملک میں پہلی جنگ آزادی کا بگل بج چکا تھا۔ ہندوستان کے تمام باشندے، بلاتفریق مذہب وملت انگریزی اقتدار کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ پورا ہندوستان انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔میرٹھ سے گوالیار تک بغاوت کی آگ پھیل چکی تھی۔آزادی کے متوالوں نے انگریز سرکار کے اسلحہ خانے لوٹ لئے تھے۔ باغی سپاہی انگریزوں کے لئے وبال جان بنے ہوئے تھے۔میرٹھ کے بعد فیروز پور کی رجمنٹ میں بھی بغاوت ہوچکی تھی۔ چھچ میں بغاوت کے بعد غوث محمد کی کمان میں دیسی سپاہیوں کا ایک بڑا لشکر انگریزوں کو مار کر دلی کی جانب رواں دواں تھا۔

ادھر کانپور چھاونی میں بغاوت، فرنگیوں کے لئے درد سر بنی ہوئی تھی۔ انگریز کتے بلیوں کی طرح سر چھپاتے پھرتے تھے۔ کیا ہندو،کیا مسلمان اور کیا سکھ، سب انقلاب کے لئے بے چین تھے۔ کوئی کرپان سجائے نکل پڑا تھا تو کوئی تلوار اٹھائے ہوئے تھا، کسی کے ماتھے پر تلک لگاہوا تھا اور زبان پر جے شری رام کے نعرے تھے تو کوئی پگڑی باندھے ”نعرہ تکبیر اللہ اکبر“اور ”لاج رکھ لیجیو نظام الدین اولیاء“ کی صدائیں ماررہا تھا۔ راجدھانی دہلی حریت پسندوں کا مرکز بنی ہوئی تھی اور آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں تمام ہندوستانی آزاد ہونے کے لئے بے قرار تھے، تب جنرل بخت خان،بوڑھے مغل بادشاہ کی جانب سے فوج کی قیادت سنبھالے ہوئے تھے اور انگریزوں سے لوہا لینے میں مصروف تھے۔

بخت خان روہیلہ 1857ء کی جنگ آزادی کا ایک ایسا کردار ہے جسے نظر انداز کر جنگ آزادی کی داستان مکمل نہیں ہوسکتی۔وہ بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں انگریزی فوج میں صوبہ دار تھے مگر بعد میں اس سے الگ ہوگئے اور آزادی کے متوالوں کی صف میں شامل ہوگئے۔ انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی میں کود پڑے اور اپنے فوجی دستے سمیت وہ کا رہائے نمایاں انجام دیے جو آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ وقت نے وفا نہ کی اور ہندوستان کا یہ عظیم سپوت ملک کو غیرملکی اقتدار سے آزاد کرانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ پہلی جنگ آزادی کو انگریزوں کی ریشہ دوانیوں اور شاطرانہ چالوں نے ناکام بنادیا۔

کون تھے جنرل بخت خان؟

جنرل بخت خان روہیلہ ایک افغان خاندان سے تھے جو کئی پشتوں سے روہیل کھنڈ میں قیام پذیر تھا۔ اس خاندان کی جوانمردی اور جان نثاری کی ایک طویل تاریخ تھی۔ بخت خان، 1793ء میں بجنور (روہیل کھنڈ) میں پیدا ہوئے۔ جوان ہوئے تو انگریزی فوج میں ملازم ہوگئے،کیونکہ وہ نڈر اوربہادر تھے۔ بخت خان نے کمپنی کی فوج میں ایک پیادہ دستے کے کمانڈر کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں مگر 1856ء میں انھیں برطانوی حکومت نے فوج سے معزول کر دیا۔

اس کے بعد جب پہلی جنگ آزادی کا آغاز ہوا تو وہ انگریز مخالف فوج کے سپہ سالار بن گئے۔بخت خان نے ہی بہادر شاہ ظفر کو فرنگیوں کے خلاف فوج بنانے کا مشورہ دیا تھا جسے ابتدا میں بادشاہ نے مسترد کر دیا تھا۔ حالانکہ اس کے باوجود انگریزوں کے خلاف بخت خان نے علم بغاوت بلند کیا اور اپنی الگ فوج منظم کرلی اور ایک مدت تک انگریزوں سے لوہا لیتے رہے۔بعد کے دور میں یہی فوج بادشاہ کی مدد کے لئے دہلی آئی تھی اور اس تاریخی شہر کا نظم سنبھالا تھا۔

بوڑھے بادشاہ کا جانباز کمانڈر

 مئی،کی دسویں تاریخ، 1857 کو میرٹھ میں جوایک انقلاب کی آگ لگی تھی چار دن بعد ہی اس کی چنگاری بریلی پہنچ گئی تھی۔یہاں کئی انگریز افسروں کو قتل کیا گیا اور انقلابیوں نے بریلی کو آزاد کرالیا۔ خان بہادر خان کو یہاں کا نواب اعلان کیا گیا اوربخت خان کی فوج نے انتظام کی ذمہ داری قبول کی۔ بریلی جیل سے تمام قیدیوں کو آزاد کر کے خزانے پر بھی قابو پالیا گیا تھا۔

۔ 10 مئی 1857 کو میرٹھ چھاؤنی میں ہوئی فوجی بغاوت کے بعد باغی فوجی دہلی کے لال قلعہ آئے اور 11 مئی کی صبح کو یہاں انگریزوں کی پنشن پر گزارا کر رہے بادشاہ کے آگے فریاد کی کہ وہ ملک و ملت اور مذہب کو ظالم انگریزوں سے بچانے کے لئے آگے آئیں۔سپاہیوں نے کہاآپ ہمارے سر پر ہاتھ رکھیں اور انصاف کریں۔ہم آپ کو ہندوستان کا شہنشاہ بنانا چاہتے ہیں۔بادشاہ نے جواب دیا کہ میرے پاس خزانہ نہیں ہے کہ تمہیں تنخواہ دے سکوں، نہ فوج ہے کہ تمہاری مدد کر سکوں، سلطنت بھی نہیں کہ تم لوگوں کو عملداري میں رکھ سکوں۔

جواب میں سپاہیوں نے کہاہمیں یہ سب کچھ نہیں چاہئے۔ہم تو اپنی جان قربان کرنے آئے ہیں۔آپ صرف ہمارے سر پر ہاتھ رکھ دیجئے۔ اس کے بعدبہادر شاہ ظفر ہندوستان کے بادشاہ اور ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے رہنما بن گئے۔ 21 بندوقوں کی سلامی دی گئی۔ اسی دوران بخت خان نے روہیلا سپاہیوں کی ایک فوج بنائی بخت خان کی فوج،میں بیشتر سپاہیوں کے پاس گھوڑے اور ہتھیار نہیں تھے مگر آزادی کا جذبہ تھا لہٰذا انگریزوں کے خلاف لڑنے میں یہ لوگ پیش پیش تھے۔ انگریزوں کے خلاف میرٹھ میں سپاہیوں کی بغاوت کے بعد وہ دہلی میں فوج کے کمانڈر بن گئے۔

جنرل بخت خان کی دہلی میں ذمہ داریاں

جب دہلی میں مشکل حالات تھے اور ہر جانب افراتفری تھی تب 1 جولائی 1857 کو،بخت خان دہلی کے قریب پہنچ گئے۔بادشاہ کے خسر اورملکہ زینت محل کے والد ناب علی خان نے بخت خان کا خیر مقدم کیا تھا۔ اس فوج کو شاہجہان آباد میں نہیں رکھا جاسکتا تھاکیونکہ یہ بڑی فوج تھی لہذا دہلی گیٹ سے باہر رکھنے کا حکم دیا گیا تھا۔مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے بخت خان اور ان کے سپاہیوں کا دہلی پہنچنے پر شکریہ ادا کیا۔

بخت خان کو ”صاحب عالم“ کے خطاب سے نوازا،اس کے بعد اپنے بیٹے کی جگہ پر بادشاہ نے بخت خان کو اپنا کمانڈر بنا یا اور سب سے بڑا دفتر دیا۔بادشاہ کے بیٹے میرزا مغل کو بخت خان کے نیچے جگہ ملی اوربخت خان کو گورنر جنرل کا لقب بھی دیا گیا۔ دہلی پہنچنے کے ایک ہفتے کے اندر، بخت خان نے انقلابی تبدیلی کی۔ انہوں نے شاہی عملے کو تنخواہ ادا کرنے کا حکم دیا، اور وہ لوگ جنہوں نے دہلی میں لوٹ پاٹ کی تھی انھیں گرفتار کیا گیا اور انہیں سزائیں دی جانے لگیں۔جوفوجی شہر کے اندر تھے، انھیں کوچہ و بازار سے نکال دیا گیا تھا اور دہلی گیٹ کے باہر جانے کا حکم دیا گیا۔

19 جولائی، 1857 کو بخت خان نے انگریز فوجیوں کی چوکی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔چونکہ ان کی فوج بھی وہی یونیفارم پہنتی تھی جو برطانوی فوج کے فوجی پہنتے تھے، اس لئے ان کا برطانوی کیمپ میں پہنچنا آسان تھا۔ حالانکہ اس بیچ بہادر شاہ ظفر کا سمدھی مرزا الٰہی بخش، انگریزوں کے ساتھ مل کر بہادر شاہ کے خلاف سازش کر رہا تھا۔ اس بات کا پتہ بخت خان کو چل گیا تھا اور انہوں نے بہادر شاہ کو بتا بھی دیا مگر الٰہی بخش نے جھوٹ بول کر بادشاہ کے سامنے بخت خان کو جھوٹا ثابت کر دیا تب بہادر شاہ نے انہیں وہاں سے چلے جانے کو کہہ دیا۔واضح ہوکہ بخت خان کے دہلی چھوڑنے کے بعد بادشاہ کی بھی گرفتاری ہوگئی تھی اور انھیں رنگون جلا وطن کردیا گیا تھا۔ یہیں بادشاہ کی موت ہوئی اور آج بھی یہیں قبر موجود ہے۔

بخت خان کی نیپال کی طرف روانگی

بہادر شاہ ظفر نے جنرل بخت خان کو بہادری اور عوامی مقبولیت کی وجہ سے اپنی مملکت میں سپہ سالار یعنی جنرل کا عہد عطا کیا تھا۔حالانکہ وہ اس عہدے کے بجا طور پر مستحق بھی تھے۔ویسے حالات کچھ اچھے نہیں تھے۔ لال قلعے کے اندر اور بادشاہ کے اہل خانہ تک میں انگریزوں کے جاسوس گھسے ہوئے تھے۔بوڑھے بادشاہ کی سردمہری اور شہزادوں کے عدم تعا ون کی وجہ سے بخت خان کچھ خاص کرنے سے قاصر تھے۔جب حالات زیادہ بگڑ گئے اور دلی پر انگریزوں کے دوبارہ قبضے کا یقین کامل ہوا تو بخت خان نے نہایت مایوسی کے عالم میں دلی کو چھوڑ دیا اوراپنے کچھ جان نثار ساتھیوں کے ساتھ نیپال کے پہاڑوں میں چلے گئے۔

نیپال کا راستہ دشوارگزارپہاڑیوں اور ندی نالوں سے بھرا پڑا تھا۔ظاہر ہے کہ دیسی سپاہیوں کے لئے جان بچانے اور فرنگی دشمن سے بچنے کی خاطر نیپال کے گھنے جنگلوں سے زیادہ محفوظ جگہ شاید ہی کوئی اور ہوتی۔ جنرل بخت خان ان جنگلوں میں کہاں روپوش ہوئے یہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ بخت خان کے پیچھے میرٹھ، کانپور اورکچھ دوسرے علاقوں سے آنے والی دیسی سپاہیوں کی ٹکڑیاں بھی بڑی تعداد میں ان ہی جنگلوں میں جا چھپی تھیں۔

ایک روایت یہ ہے کہ 13 مئی، 1859ء میں زخمی ہوکر ترائی کے جنگلات میں بخت خان شہید ہوئے۔ حالانکہ دوسری روایت یہ ہے کہ وہ بعد کے دور میں سوات کے علاقے میں چلے گئے تھے جو پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع ہے۔ اسی علاقے سے ان کا خاندان کسی زمانے میں آیا تھا اور آخری وقت میں ان کی مٹی یہیں کھینچ لائی تھی۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ خیبرپختونخواہ کے سوات علاقے میں انھیں دفن کیا گیا تھا اور آج بھی ان کی قبر یہیں بونیر ضلع میں ہے۔

کہاں ہیں آج وہ شمع وطن کے پروانے

بنے ہیں آج حقیقت انہیں کے افسانے