امروہہ کی ادبی کہکشاں کا درخشند ہ ستارا، زبیرؔرضوی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 26-12-2023
امروہہ کی ادبی کہکشاں کا درخشند ہ ستارا، زبیرؔرضوی
امروہہ کی ادبی کہکشاں کا درخشند ہ ستارا، زبیرؔرضوی

 

سراج نقوی

غالباً 20فروری 2016کی بات ہے،دلّی اردو اکاڈمی کی کشمیری گیٹ واقع عمارت کے ‘قمر رئیس ہال’ میں اردو سے متعلق ایک سیمینار ہو رہا تھا۔سیمینار کا پہلا اجلاس ختم ہو چکا تھا اور دوسرے اجلاس میں راقم کے پیپر سمیت دیگر مقررین اپنے مقالے پیش کر چکے تھے۔مہمان خصوصی نعمان خاں سامعین سے خطاب کر چکے تھے،اور اب اجلاس کے صدر زبیرؔ رضوی کو اپنا صدارتی خطبہ پیش کرنا تھا۔زبیرؔ رضوی مائک پر آئے، اردو کی صورتحال سے متعلق گفتگو شروع کی اور دوران گفتگو ہی اتنے جذباتی ہو گئے کہ بولنا مشکل ہوگیا۔جذباتی انداز میں ہی فرمایا کہ میں اب بول نہیں پاؤنگا،اور واپس کرسی صدارت پر جا کر بیٹھ گئے۔چند لمحوں بعد طبیعت بگڑی۔راقم سامعین کی اگلی صف میں موجود تھا۔نعمان صاحب کی طرف اشارہ کیا ،انھوں نے بوتل سے پانی کے چند قطرے زبیر صاحب کے منھ میں ڈلنے چاہے لیکن ان کی گردن ڈھلک گئی۔اکاڈمی کے وائس چئیرمین ماجد دیوبندی جو اس وقت مائک پر تھے فوراً زبیرؔ صاحب کی سمت دوڑے ،انھیں کئی لوگوں نے مل کر اٹھایا اور اکاڈمی کی گاڑی سے ماجد دیوبندی سمیت کئی لوگ انھیں فوراً اسپتال لے گئے۔چند منٹ بعد ہی اسپتال سے خبر آگئی کہ زبیر رضوی اب اس دنیا میں نہیں رہے،اور یوں سرزمینِ امروہہ کا یہ نایاب ہیرااپنے بے شمار مداحوں کی موجودگی میں ہی اپنے مالک حقیقی کے پاس پہنچ گیا۔امروہہ میں زبیر ؔرضوی کے آبائی قبرستان میں اسی روز انھیں منوں مٹی کے تلے دفن کر دیا گیا،لیکن ان کی موت نے پوری دنیا میں ان کے مداحوں کو سوگوار کر دیا۔

زبیر ؔرضوی ہمہ جہت ادبی صلاحیتوں کے مالک تھے۔وہ ادب کے بہترین پارکھی بھی تھے او ر اردو کے ادبی ورثے کے تعلق سے بیدار شعور کے مالک بھی تھے۔انھوں نے ادبی صحافت میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور مشاعروں سے لیکر ادبی جریدوں میں بھی ایک مقبول شاعر کے طور پر ان کے قدر دانوں کا ایک بڑا حلقہ تھا۔انھوں نے ہندوستان و پاکستان سمیت دنیا بھر کے مشاعروں میں ایک کامیاب شاعر کے طور پر اپنی پہچان بنائی اور عصری شعری منظر نامے کو بھی ایک نئے لہجے سے آشنا کیا۔ وہ ایک کامیاب براڈ کاسٹر بھی تھے اور پختہ فکر نقاد بھی۔ دہلی میں آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت کے دوران ہی کچھ عرصہ کے لیے ان کا تبادلہ بحیثیت اسٹیشن ڈائریکٹر رامپور ہو گیا۔اسی زمانے میں وہ میرٹھ کے ایک مشاعرے میں آئے۔رومانیت اور عصری مسائل سے بھرپور جو غزل انھوں نے اس مشاعرے میں پڑھی اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے مشاعروں میں بھی اپنے معیار سے سمجھوتا نہیں کیا۔بات تقریباً چار یا پانچ دہائی پرانی ہے،اس لیے مشاعرے میں سنائی گئی ان کی غزل کے چند شعر ہی یاد رہ گئے ہیں۔ان میں سے بھی کسی شعر میں غلطی کا امکان ہے۔بہرحال اشعارملاحظہ فرما لیں،

 نہ اپنے زخم گنے ہیں نہ پٹیاں ہم نے.................بہت خلوص سے جھیلی ہیں سختیاں ہم نے

نئے مکانوں میں ہجرت کے لوٹتے ہیں مزے.. ..........اجاڑ دی ہیں پرانی حویلیاں ہم نے

یہ کس نے تازہ ہواؤں کے پر کتر ڈالے ........ ...بڑے یقین سے کھولی تھیں کھڑکیاں ہم نے

زبیرؔچھوڑ کے اب رامپور آجاؤ.................... ........اداس دیکھی ہیں دہلی کی لڑکیاں ہم نے

مشاعرے میں پڑھی گئی مذکورہ غزل میں معاملات عشق سے لیکر عصری مسائل تک کو جس اچھوتے انداز میں چھیڑا گیا ہے اس سے زبیرؔرضوی کے شعری کینواس کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔حالانکہ مطلع کے مصرعہ ثانی کے تعلق سے مجھے یہ اعتراف ہے کہ بھول کے سبب اس کے ابتدائی الفاظ میں کچھ تبدیلی ہو گئی ہے۔اس کے باوجود اشعار کا بنیادی حسن متاثر نہیں ہوا ہے۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مشاعروں سے الگ ادبی جریدوں اور دوستوں کی محفل میں زبیرؔجو کلام سناتے تھے وہ معیار کے اعتبار سے زیادہ بلند ہوتا تھا۔البتہ مشاعروں میں پڑھی گئی ان کی ایک بے حد مشہور نظم ‘‘یہ ہے میرا ہندوستان’’ نے نہ صرف مشاعروں میں زبردست مقبولیت حاصل کی بلکہ کئی نصابی کتابوں میں بھی اس نظم کو شامل کیا گیا۔

 زبیر رضوی نے 15اپریل1935میں امروہہ کے ایک ایسے علمی و مذہبی گھرانے میں آنکھیں کھولیں کہ جہاں ماحول دینی اور روحانی خوشبوؤں سے معطر تھا۔ان کے والد محمد رضوی اور والدہ فہمیدہ رضوی کو دینی اور علمی شخصیات کے طور پر شہرت حاصل تھی۔زبیرؔکا نسبی سلسلہ دسویں صدی کے ایک مشہور و معروف بزرگ اور روحانی شخصیت حضرت شاہ ابّن بدر چشتیؓسے ملتا ہے۔ جن کا مزار اقدس آج بھی روحانیت اور حق کے متلاشیوں کے لیے مرکز عقیدت ہے۔ان کی تعلیم حیدر آباد اور دلّی میں ہوئی۔

awazurdu

امروہہ میں زبیر رضوی کا مکان  اور شہر کا ایک منظر

سال 1966میں زبیر ؔنے بحیثیت اسکرپٹ رائیٹر آل انڈیا ریڈیو سے ملازمت کا سلسلہ شروع کیا،جہاں انھوں نے امیتابھ بچن،دھرمیندر،لتا منگیشکر اوردلیپ کمار جیسی قد آور فلمی شخصیات سے بھی انٹڑ ویو لیے۔بعد میں انھیں کھیلوں سے متعلق کوریج کی ذمہ داریاں سونپی گئیں اور وہ بحیثیت ڈائیریکٹر آف اسپورٹس ریٹائر ہوئے۔دو سال تک دلّی اردو اکاڈمی کے سکریٹری کے طور پر بھی انھوں نے اپنی خدمات انجام دیں۔شاعری میں انھوں نے سات شعری مجموعے چھوڑے جن میں غزلیں،نظمیں، آزاد نظمیں اور نثری نظمیں بھی شامل ہیں۔بحیثیت مرتب ‘اردو ڈرامے کا سفر’ ان کی اہم کاوش ہے۔ دراصل ڈرامہ نگاری سے بھی انھیں خاص دلچسپی تھی ۔‘آزادی کے بعد اردو اسٹیج ڈرامے’اور ‘عصری ہندوستانی تھئیٹر’ بھی اسی موضوع پر مرتب کردہ کتابیں ہیں۔قلی قطب شاہ اور ٹیپو سلطان پر ان کے اوپیرا اپنی مقبولیت کے سبب کئی مرتبہ اسٹیج کیے گئے۔گردش پا’ زبیرؔ کی سوانحی یادوں پر مشتمل کتاب ہے،جو اردو اکاڈمی دہلی کے تعاون سے سن 2000میں شائع ہوئی۔ مسافت شب’،نظموں پر مشتمل مجمعہ کلام ہے۔لہر لہر ندیا گہری’ جو کافی مقبول ہوئی نظموں،غزلوں اور گیتوں کا مجموعہ ہے۔خشت دیوار’،دامن،پرانی بات ہے،سبزہ ساحل اور سنگ صدا ’ان کے دیگر شعری مجموعے ہیں۔

اس کے علاوہ انھوں نے کئی کتابیں ترتیب بھی دیں۔ان میں سے چند کا ذکر بالائی سطور میں کیا گیا۔ان کے علاوہ‘انگلیاں فگار اپنی’،،‘فسادات کے افسانے’ ‘دس افسانے’اور ‘ایوان اردو کے منتخب افسانے’ بھی مرتب کردہ کتابیں ہیں۔‘اردو فنون اور ادب’ اس اعتبار سے اہم کتاب ہے کہ اس میں زبیر نے تھئیٹر،مصوری،رقص،سنگیت،فلم،ریڈیو اور ٹی وی جیسے فنون لطیفہ پر بھی اردو کے حوالے سے گفتگو کی ہے کئی اہم ادیبوں اور شعرا سے متعلق تنقیدی مضامین بھی اس میں شامل ہیں۔بحیثیت ترجمہ نگار بھی انھوں نے کافی کام کیا اور کئی کتابوں کے ترجمے کیے۔’اسلم پرویز نے زبیرؔ کے ادبی کارناموں پر مشتمل ‘متاع سخن’ ترتیب دی ہے۔ جس سے زبیر کی شخصیت کے مختلف پہلؤں کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔

ڈاکٹر عبد الحی کی مرتب کردہ ‘زبیر رضوی شخصیت اور خدمات :ایک جائزہ’میں بھی زبیر رضوی کی شخصیت اور ادبی کارناموں کا بہت سلیقے سے احاطہ کیا گیا ہے۔زبیرؔ رضوی پر ترتیب دی گئی یہ کتابیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کے ادبی مرتبے اور خدمات کا بڑے پیمانے پر اردو دنیا نے اعتراف بھی کیا۔بہرحال یہ زبیرؔـ کا حق بھی تھا۔اپنے تمام تخلیقی و تحقیقی کارناموں کے شانہ بشانہ انھوں نے ادبی صحافت میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور تقریباً چھبّیس برس تک بہت پابندی سے سہ ماہی ادبی جریدہ ‘ذہن جدید’ شائع کرتے رہے۔کہنے کی ضرورت نہیں کہ ‘ذہن جدید’ کی اشاعت زبیرؔکے لیے کوئی کاروباری فائدے کا سودا نہیں تھا۔اس کے قارئین کی تعداد بھی محدود تھی،لیکن اس کی اشاعت میں جس انہماک اور دلچسپی سے زبیر رضوی طویل عرصے تک مصروف رہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ صرف شاعری کے سہارے ہی اپنے ادبی سفر سے مطمئن نہیں تھے ۔یہ رسالہ 1991سے 2016میں ان کے انتقال کے وقت تک شائع ہوتا رہا۔اس رسالے میں شاعری سے لیکرترجمے، ،ڈرامے،رقص وموسیقی سے متعلق مضامین اور تنقیدی و تحقیقی مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زبیرؔ نے ‘ذہن جدیدکو ’خالص ادب نہیں بلکہ دیگر فنون لطیفہ کا بھی ترجمان بنایا۔ اس کے علاوہ انھوں نے مرکزی حکومت کے ایک سینئر فیلو شپ کے تحت ‘‘اردو کارشتہ فنون لطیفہ سے’’جیسے اہم موضوع پر بھی کام کیا۔دراصل تھکنا ان کی سرشت میں ہی نہیں تھا،اور اس خوبی نے ہی انھیں فن اور ادب کی مختلف جہتوں میں کام کرنے کا حوصلہ بخشا۔

زبیر رضوی کی شخصیت پر ان کی زندگی میں بھی اور ان کے انتقال کے بعد بھی بہت کچھ لکھا گیا،لیکن مشہور و معروف طنز و مزاح نگار مجتبیٰ حسین نے زبیر ؔرضوی کے اعزاز میں منعقد ایک پروگرام میں ان پر جو دلچسپ مضمون پیش کیا وہ زبیرؔ کی شخصیت کو ایک منفرد انداز میں متعارف کراتاہے۔مضمون کی ابتدائی چند سطور اور پھر مزید دو پیراگراف ملاحظہ فرما لیں،

زبیررضوی کو پہلے پہل1962میں حیدر آباد میں دیکھا تھا(وجیہہ و شکیل،حسین و جمیل زبیر رضوی کو دیکھنے کے ماہ و سال یہی تھے)ایسا سیکولر مردانہ حسن پایا تھا کہ مر د و زن،پیر و طفل،بلا لحاظ مذہب و ملّت زبیرؔ کو دیکھتے رہ جاتے تھے۔.۔۔

ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ

‘‘زبیر کے ساتھ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ حیدر آباد والے انھیں حیدر آبادی کہتے ہیں اور دلّی والے انھیں دلّی کا۔حالانکہ یہ تو حیدر آبادی ہیں نہ دلّی کے۔یہ ہیں تو امروہہ کے،یہ اور بات کہ امروہہ والے ان پر

اپنا حق جتانا نہیں چاہتے ۔کیونکہ زبیر کے مزاج میں وہ ‘امروہہ پن نہیں جسے مصحفیؔکی ذات میں دیکھ کر مولانامحمد حسین آزاد ؔکو شکایت ہو گئی تھی۔مجھے خود نہیں معلوم کہ یہ امروہہ پن کیا ہوتا ہے۔’’اسی مضمون میں مجتبیٰ حسین نے اپنے ایک امروہوی دوست کے حوالے سے یہ رائے بھی ظاہر کی ہے کہ امروہہ والے ان پر اس لیے اپنا حق نہیں جتاتے تھے کہ‘ زبیرؔرضوی کی شخصیت اور طرز زندگی اپنے گھرانے کے مذہبی و دینی ماحول سے بڑی حد تک مختلف تھی’،اور یہ گھرانہ ملک بھر میں اسی حیثیت سے مشہور بھی تھا اور محترم بھی۔ بہرحال معاملہ یہ ہے کہ مجتبیٰ حسین نے مذکورہ رائے امروہہ میں زبیر ؔ کے تعلق سے صرف ایک شخص کے ذریعہ ظاہر کیے گئے خیالات کے حوالے سے پیش کی ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ امروہہ کو اپنے اس ہیرے پر فخر ہے۔

awazurdu

یہ الگ بات کہ خاندانی ماحول سے الگ طرز زندگی کے سبب کچھ لوگ زبیر کو پسند نہ کرتے ہوں،لیکن یہ معاملہ تو جونؔ ایلیا کے ساتھ بھی ہے۔بہرحال زبیرؔسے متعلق مجتبیٰ حسین کے مذکورہ مضمون کا ایک اور پیراگراف بھی ملاحظہ فرمالیں،‘‘میں زبیرؔکی شاعری کو پڑھتا ہوں یا سنتا ہوں تو نہ جانے کیوں مجھے ہاتھی کے دانتوں کا خیال آتا ہے۔ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں دکھانے کے اور۔زبیر ؔبھی سنانے کے شعر الگ کہتے ہیں اور لیٹ کے پڑھنے کے شعرالگ۔سنانے والے شعر مشاعروں کے لیے کہتے ہیں اور پڑھنے والے شعر ادب میں اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے کہتے ہیں۔اسی مضمون میں مجتبیٰ حسین نے زبیرؔ کے تعلق سے ایک بہت دلچسپ جملہ تحریر کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ،‘‘زبیر ؔایک ایسی موم بتّی ہے جس کے دونوں سِرے ایک ساتھ جل رہے ہیں۔’’ دراصل مجتبیٰ حسین بتانا یہ چاہ رہے ہیں کہ زبیرؔرضوی نے جہاں ایک طرف مشاعروں میں کثرت سے شرکت کی وہیں خالص ادبی شاعری اور تنقیدی وتحقیقی کام بھی جاری رکھا۔یعنی وہ شاعری کے ساتھ ساتھ نثر نگاری بھی کرتے رہے۔ظاہر ہے اس کے لیے جس لگن اور صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے وہ زبیر کی شخصیت میں موجود تھی۔یہی سبب ہے کہ ان کا دبی سفر تقریباً پچاس سال تک یعنی ان کے انتقال تک جاری رہا۔بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان کی آخری سانس تک جاری رہا،اس لیے کہ دم نکلنے سے محض ایک دو منٹ پہلے تک وہ اردو کے مسائل پر دلّی اردو اکاڈمی کے سیمنار میں بطور صدر گفتگو کر رہے تھے،جس کا ذکر مضمون کی ابتدا میں ہی کیا گیاہے۔

جہاں تک مجتبیٰ حسین کی اس رائے کا تعلق ہے کہ زبیر کی شخصیت میں ‘امروہہ پن ’ نہیں تھا تو اس سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔اس لیے کہ محمد حسین آزاد ؔ نے مصحفیؔ کے تعلق سے ‘امروہہ پن’ کی بات کسی بھی سبب سے کہی ہو،لیکن راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہ ‘امروہہ پن’ ہر اس امروہوی میں ہے کہ جسے امروہہ کی تہذیب و ثقافت ،یہاں کے رسم و رواج،یہاں کے میلوں ٹھیلوں ،یہاں کی مخصوص زبان و ادب ،ہم آہنگی اور یکجہتی کی فضا سے پیار ہے۔زبیرؔ رضوی کو ان سب سے پیار تھا۔اپنی خود نوشت سوانح

‘‘گردشِ پا’’ میں انھوں نے کئی جگہ ان سب کا ذکر بہت ہی دلچسپ انداز میں کیا ہے۔امروہہ میں عزاداری کی روایت کافی مضبوط ہے ،اور شہر کے تمام طبقات اپنے اپنے انداز میں ماہ محرم اور عزاداری کی اس روایت سے وابستہ ہیں۔اس دوران امروہہ کی فضا کیسی ہوتی ہے اور غم حسین کس طرح منایا جاتا ہے اس کی ایک جھلک زبیر ؔرضوی کی خود نوشت سوانح کے ایک پیرا گراف میں ملاحظہ فرمائیں۔

محرم کا مہینہ شروع ہو گیا تھا۔ساری بستی سے جیسے سب کے سب رنگ کسی نے پانی سے دھو دیے تھے۔صرف ایک کالا رنگ تھا جو سفید کپڑوں کو ماتمی بنا رہا تھا۔سر ٹوپی سے اور پیر جوتوں سے بے نیاز ہو گئے تھے۔روشن چولھوں کی آگ محرم آتے ہی سرد سی پڑ جاتی،جیسے لوگ ذائقے بھول گئے ہوں۔ عورتیں سنگھار کرنا چھوڑ دیتیں اور مردوں کے چہرے بڑھی ہوئی داڑھی کے سبب بے رونق ہو جاتے۔ پانی ہوتے ہوئے بھی ہونٹوں پر پیاس سے پپڑیاں جمی رہتیں۔کبھی کبھی زبانوں پر کانٹے سے اگ آتے تھے۔مجھے نہ جانے کیوں اس سوگوار کر دینے والے مہینے کا انتظار رہتا۔میرا جی چاہتا میں بھی کالا کرتا پہن کر ماتمی بن جاؤں۔بستی کے سارے امام باڑوں کی دھول ،گرد جھاڑی جاتی۔سفیدی ہوتی۔ جھاڑ فانوس چمکائے جاتے ۔سارے محراب،طاق،دروازے،منبر سب چراغوں سے جگمگا اٹھتے۔ شام ڈھلتی تو امام باڑے سوگواران حسین سے لبا لب بھر جاتے ۔مرثیے پڑھے جاتے ۔صفیں باندھی جاتیں اور ہاتھ سینہ کوبی کے لیے خود بخود اٹھ جاتے۔اس سینہ کوبی میں ایک ایسا ماتمی آہنگ ہوتا جو امام باڑے کی ساری فضا کو دہلا دیتا۔میں یہ سب کچھ دیکھتا۔ننگے سر اور ننگے پیر ہوکر سینہ کوبی نہ کر سکنے کا ملال مجھے بے چین رکھتا۔میرے ہاتھ جب بھی سینہ کوبی کے لیے اوپر اٹھتے کوئی ان دیکھا ہاتھ میرے اٹھے ہوئے ہاتھوں پر قینچی مارتا اور میں چیخ مار کر اندھیری گلیوں کو دوڑ کر پار کرتا ہوا گھر واپس لوٹ آتا۔’’ زبیر ؔرضوی کی یہ تحریر جو منظر پیش کرتی ہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امروہہ کی عزاداری اپنی تمام تر غمناکی اور ماحول کی سوگواری کے باوجود ایک ایسی ثقافتی کشش بھی رکھتی ہے کہ جس کی اثر پذیری مذہب و مسلک کی قید سے بالاتر ہو کر پورے شہر کو اتحاد ویکجہتی کی ڈور میں پرونے کا اہم کام بھی کر رہی ہے۔

یہ تصویر2016میں دہلی اردو اکاڈمی کے پروگرام کی ہے جس میں خطاب کے دوران ہی زبیر رضوی کا انتقال ہوا تھا

زبیر رضوی کا اس موضوع پر قلم اٹھانا اور دلچسپ انداز میں اس کی منظر کشی کرنا دراصل زبیرؔکے امروہہ پن کا ہی ثبوت ہے۔زبیر رضوی کی زندگی کا بڑا حصہ بھلے ہی حیدر آباد اور دہلی میں گزرا ہو لیکن لیکن انھیں اپنے شہر سے پیار تھا۔امروہہ کی تہذیب و ثقافت اور یہاں کے ماحول سے پیار تھا،یہاں کی زبان سے پیار تھا۔محرم کے جلوسوں سے متعلق مندرجہ بالا تحریر میں آگے چل کر انھوں نے مراسم عزاداری سے متعلق جن لفظیات،تلمیحات اور استعاروں کا استعمال کیا ہے وہ خالص امروہہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کی تحریریں اور پر کشش انداز بیان میں بھی امروہویت کی جھلک ہے۔لیکن جو بات انھیں یا ان کی تحریروں کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ لہجے کا کھرا پن ہے۔اپنی خودنوشت سوانح میں انھوں نے اپنی ذات اور واردات کے تعلق سے جواعترافات کیے ہیں وہ صرف دلچسپ ہی نہیں بلکہ ان سے زبیرؔرضوی کی شخصیت کے داخلی پہلوؤں کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے،اور کسی تحریر کو اس حد تک آئینہ بنا دینا بہت دل گردے کا کام ہے۔‘گردش پا’ کے شروع میں ہی انھوں نے اپنے شعری مجموعے ‘دھوپ کا سائبان’ کی ایک مختصر آزاد نظم پیش کی ہے،جو دراصل اس خط کے لفافے کی طرح ہے کہ جسے دیکھ کر قاری خط کا مضمون بھانپ سکتے ہیں۔نظم دیکھیں

 آؤ

ہم اپنی سوانح لکھیں

اور یہ جانیں

کون کتنا جھوٹ

اور سچ لکھ سکتا ہے

کہ بولا ہوا جھوٹ اور سچ

لکھے ہوئے سے آسان ہے

یا یوں کہو

 پردہ کھینچ کے کپڑے اتارنااور بات ہے

اور سب کے سامنے بے لباس ہونا اور بات ہے

 نظم میں جو نظریہ پیش کیا گیا ہے زبیر رضوی کی خود نوشت سوانح میں وہ صاف نظر بھی آتاہے۔یہ ممکن ہے کہ تہذیب کی آڑ میں حقائق کی پردہ پوشی کے طرفدار زبیر ؔکے اعترافات پر مختلف رائے کا اظہار کریں،لیکن بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے تعلق سے سچ بولنے کا حوصلہ ہر ایک میں نہیں ہوتا۔زبیر کا یہ حوصلہ انھیں بڑا شاعر اور ادیب بناتا ہے۔ان کے مزاج کا یہ کھرا پن اور بیباکی ان کی شاعری میں بھی جھلکتی ہے۔یہ الگ بات کہ ان کی رومانی شاعری کو زیادہ مقبولیت نصیب ہوئی۔ ان دونوں مختلف حوالوں سے زبیرؔرضوی کے دو بے حد مشہور اشعار ملاحظہ فرمالیں ،اور اجازت دیں۔

پرانے لوگ دریاؤں میں نیکی ڈال آتے تھے

ہمارے دور کا انسان نیکی کرکے چیخے گا

بھٹک جاتی ہیں تم سے دور نظروں کے تعاقب میں

جو تم چاہو مری آنکھوں پہ اپنی انگلیاں رکھ دو