اسلام میں خواتین کے لیے تجارت کی آزادی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 13-02-2024
اسلام میں خواتین کے لیے تجارت کی آزادی
اسلام میں خواتین کے لیے تجارت کی آزادی

 

زیبا نسیم : ممبئی 

 اسلام میں خواتین کے لیے ہر میدان میں بہتر مواقع فراہم کیے ہیں ،مکمل آزادی دی پہے،بلاشبہ اس میں کچھ ضابطہ اخلاق ہیں لیکن انہیں کسی بھی صورت میں خواتین کے لیے رکاوٹ نہیں مانا جاسکتا ہے۔انہیں حفاظت اور احترام میں ترجیح دی گئی ہے ۔ حقیقت یہی ہے کہ مسلم معاشرے میں خواتین کو پوری طرح مقام اور وہ آزادی میسر نہیں جو انھیں اسلام عطا کرتا ہے۔اسلام کی تعلیمات ،رسولؐ کی سیرت اورخواتین کے تعلق سے اسلام کی ہدایات کے مطالعے سے آپ یہ محسوس کریں گے کہ نبی اکرم ؐ کی بعثت اگر کسی طبقہ ٔ انسانیت کے لیے سب سے زیادہ مفید ہے تو وہ خواتین کا طبقہ ہے ۔عورت کو دور جاہلیت میں عام انسانی حقوق بھی حاصل نہیں تھے ،ایسا صرف عرب میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں تھا۔وہ صرف خادمہ تھی، اسے رائے دینے کا کوئی حق نہ تھا ،اس کو تعلیم حاصل کرنے کی آزادی نہ تھی، کاروبار کرنے اور قیادت کرنے کے بارے میں تو وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔اللہ کے رسول ؐ نے خدائی ہدایات کی روشنی میں ان کو وہ حقو ق عطا فرمائے جن کے بارے میں نام نہاد آزاد خیال اورآج کے روشن خیال دانشور سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

 دراصل سماج کی ضرورتیں ہر زمانہ میں بدلتی رہتی ہیں،اس کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں، کبھی خواتین صرف چہار دیواری کا حصہ ہوا کرتی تھیں، انہیں کچھ بھی کرنے کی اجازت نہیں تھی، تاہم اب خواتین کی زندگی میں بہت زیادہ تبدلی آگئی ہے۔اب خواتین ہر میدان اورہرمحاذ پرنہ صرف دکھائی دیتی ہیں، بلکہ اپنےمنفرد وجود کااحساس بھی دلاتی ہیں۔اب گھریلوخواتین بھی اپنے فارغ اوقات میں گھرمیں رہتے ہوئے پیشہ وارانہ کام کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ آئیے ہم آپ کوکچھ ایسی ہی گھریلوخواتین بتاتے ہیں،جو گھر میں رہ کراپنے پیشہ ورانہ مہارت کا جوہر دکھا رہی ہیں۔

خواتین کی ملازمت کی مختلف خصوصیات ہیں جیسے تنخواہ اور ملازمت کی قسم جو خواتین کی معاشی شرکت اور خواتین کے معاشی استحکام کے معنی خیز اشارے ہیں۔ یہ اشارے کچھ اکثریتی مسلم ممالک میں عورتوں کی معاشی حیثیت اور معیشت میں ان کی شمولیت کے استحکام کو واضح کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ترقیاتی معاشیات میں تنخواہ دار کام پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے کیونکہ یہ آمدنی کا مستحکم ذریعہ فراہم کرتا ہے۔

اکثریت مسلم ممالک جنسی عدم مساوات کو برقرار رکھنے والی پالیسیوں کو نافذ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ قانون کی حکمرانی کے تحت خواتین کے معاشی حقوق کی حدود کئی مسلم ممالک میں موجود ہیں

تاہم ، اس موضوع پر تعلیمی ادب ملا ہوا ہے۔ کچھ علما اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ اکثریتی مسلم ریاستوں میں صنفی عدم مساوات اسلام کی پیداوار ہے۔ حقوق نسواں کے ماہر معاشیات ویلنٹائن موگدام نے مسلم دنیا میں صنفی عدم مساوات بشمول روزگار کی عدم مساوات پر بڑے پیمانے پر لکھا ہے۔

موغادم کے مطابق خواتین بہت سے اسلامی ممالک میں واضح سیاسی ، معاشی اور سماجی تفاوتوں کا شکار ہیں جو عوامی اور نجی شعبوں میں صنفی امتیاز پیدا کرتی ہیں۔ یہ خواتین کی حکومت میں حصہ لینے یا نجی شعبے میں پیش قدمی کرنے کی صلاحیت کو روکتا ہے۔ موغادم خاص طور پر مسلم ریاستوں میں خواتین کے لیبر فورس کی کم شمولیت کی طرف اشارہ کرتا ہے جیسا کہ دوسرے علما کی طرح صنفی عدم مساوات کی علامت ہے (یوسف 1978 ، سیوارڈ 1985)۔

تاہم وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتیں کہ اسلام مسلم دنیا میں صنفی عدم مساوات کی بنیادی وجہ ہے کیونکہ اسے مختلف ممالک میں مختلف طریقے سے نافذ کیا جاتا ہے ، مسلم دنیا میں خواتین کی حیثیت مختلف ہے اور بہت سے دوسرے عوامل (ریاستی نظریہ ، معاشی ترقی ، شہری کاری وغیرہ) صنفی مساوات کو متاثر کرتی ہے۔ وہ ان مخصوص نظریات کی طرف اشارہ کرتی ہیں

ایک دو نہیں سیکڑوں صحابیات کو آپ پائیں گے جو سامان حرب بنانے، تجارت،زراعت،صنعت کرنے میں مصروف نظر آئیں گی ۔ظاہر ہے انھیں ان کاموں کے لیے گھر سے باہر بھی جانا ہوتا ہوگا ۔ان کے شوہروں کو کچھ زحمتیں بھی اٹھانی پڑتی ہوں گی ۔اس وقت کے حالات تو جنگ کے تھے ،مسلمانوں پر ہر طرف سے خطرات تھے ۔آج کے حالات تو قدرے پر امن ہیں ،ابلیس اور اس کی ذریت اس دن بھی تھی اور آج بھی ہے ۔یہ تو ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین کے ٹیلینٹ سے کیسے فائدہ اٹھائیں ۔اگر اس طرح خواتین چار پیسے کمائیں گی تو اپنے اخراجات خود برداشت کرلیں گی ،اپنے شوہروں کا ہاتھ بٹائیں گی،مالدار ہوں گی تو غریبوں کی مدد کرسکیں گی