جہاں کانسٹبل تھے فیروز وہیں بنیں گے افسر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 27-05-2021
کامیابی نے بدل  دیا  وردی کا انداز
کامیابی نے بدل دیا وردی کا انداز

 

 

 منجیت ٹھاکر / نئی دہلی

سفر کو جب بھی کسی داستاں میں رکھنا

قدم یقین میں منزل گماں میں رکھنا

مشہور شاعر ندا فاضلی کے کلام کو سچ کر دکھایا ہے فیروز عالم نے ۔ جس شخص نے 2010 میں دہلی پولیس میں بطور کانسٹیبل شمولیت اختیار کی تھی ، اب وہ بطور اے سی پی اسی دفتر کی ذمہ داری  سمبھالیں گے ۔ ان کی تربیت 26 مئی سے شروع  ہو گئی اور اس طرح  ان کے خوابوں کو صحیح معنوں میں پرواز مل چکی ہے ۔

دہلی پولیس کےنسٹیبل فیروز عالم کی کہانی بلند حوصلوں کی زندہ مثال ہے جس میں سخت محنت اور لگن کامیابی کے نئے دروازے کھول کر استقبال کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ فیروز کی کامیابی اس لئے بھی بہت بڑی ہے کیونکہ انہوں نے اپنی طے شدہ منزل کو بھی حاصل کر لیا ہے ، جگہ بھی وہی ہے اور لباس بھی خاکی ، لیکن اس بار ان کا رتبہ اور مقام بڑھ چکا ہے۔

کانسٹیبل سے افسر بننے کے خواب میں  فیروز عالم نے دہلی پولیس میں  عہدے کے اعتبار سے بیک وقت 4 پوسٹوں کی چھلانگ لگائی ہے ۔ مطلب ہیڈ کانسٹیبل ، اے ایس آئی ، ایس آئی اور انسپکٹر کو پیچھے چھوڑتے ہوئے کانسٹیبل سے براہ راست اے سی پی کے مسند پر فائز ہوئے ۔عام حالت میں تو اس چار عہدوں کی پروموشنز ملنے تک تو عالم کی نوکری کی مدت بھی مکمل ہو جاتی ، لیکن فیروز عالم اپنی محنت کی وجہ سے یو پی ایس سی امتحان کے ذریعہ کانسٹیبل سے براہ راست اے سی پی بن چکے ہیں ۔

اب فیروز عالم نے دہلی پولیس میں دوبارہ بطور ٹرینی اے سی پی شمولیت اختیار کرلی ہے کیونکہ انہیں یو پی ایس سی پاس کرنے کے بعد دہلی ، انڈمان اور نیکوبار پولیس سروس کا کیڈر ملا ہے ، جس کے تحت عالم کو دہلی ہی میں بطور اے سی پی تعینات کیا گیا ہے۔ پوسٹنگ موصول ہوئی۔ فیروز عالم کا دہلی پولیس میں کانسٹیبل کی حیثیت سے ملازمت کا آخری دن 31 مارچ 2021 تھا۔

اپنے لاسٹ ورکنگ ڈے کے موقع پر فیروز نے ایک جذباتی خط لکھا ہے جسے انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر شیئر بھی کیا ۔ اس پوسٹ میں فیروز عالم نے 10 جون ، 2010 کو کانسٹیبل کی حیثیت سے دہلی پولیس میں شامل ہونے سے لے کر اب تک کے پورے سفر کو بیان کیا ہے اور دہلی پولیس کے اپنے ساتھی سینئر افسران کا بھی شکریہ ادا کیا ہے۔ بہت سے پولیس اہلکاروں نے فیروز عالم کی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہے اور حقیقی ہیرو کی حیثیت سے مبارکباد دی ہے۔

فیروز عالم نے آواز دی وائس کو بتایا کہ مجھے اصل ترغیب اپنے سینئر افسران سے ہی ملی ہے ۔ انہیں دیکھنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے یو پی ایس سی کی تیاری کرنی ہے۔ اور 2014 سے میں نے تیاری شروع کردی۔ یہ میری آخری کوشش تھی۔ میں اس سے پہلے چار بار اس امتحان میں شامل ہوا تھا۔

فیروز عالم کا تعلق یوپی کے ہاپور ضلع ہاپور کے  گاؤں اعظم پور - مہگانوا سے ہے۔ محمد شہادت اور منی بانو کے گھر میں پیدا ہونے والے فیروز عالم بارہویں کلاس پاس کرنے کے بعد ہی 2010 میں دہلی پولیس میں کانسٹیبل کی حیثیت سے شامل ہوگئے تھے۔ فیروز عالم کے پانچ بھائی اور تین بہنیں ہیں۔

کسی بھی طالب علم کے لئے یو پی ایس سی امتحان کو پاس کرنا ایک خواب مکمل ہونے جیسا ہوتا ہے اور نوکری کے دوران اس امتحان کو پاس کرنے میں انتہائی محنت درکار ہوتی ہے ۔ فیروز عالم کہتے ہیں کہ مجھے چار چیزوں میں توازن رکھنا پڑا۔ کام ، تعلیم ، دوستوں اور کنبہ ۔ میں نے پولیس کی ڈیوٹی کو ایمانداری کے ساتھ انجام دیا۔ ڈیوٹی کے بعد زیادہ تر وقت مطالعہ کو دیا ۔ اس دوران میں نے اپنے دوستوں اور کنبہ سے وقت مانگا ۔ میں نے بر ملا ان کا تعاون طلب کیا کچھ بھی چھپایا نہیں۔ لہذا دوستوں اور رشتہ داروں نے بھی کھل کر تعاون کیا۔

فیروز کا کہنا ہے کہ ان چار چیزوں کے مابین بہترین توازن کے نتیجے میں یہ کامیابی ملی ہے۔ فیروز نے اس کامیابی پر اپنے روم میٹ وشال سارسو ت کا دلی شکریہ ادا کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ "وشال نے نوٹ بنانے سے لے کر ڈسکشن تک اور پیچیدہ معاشی موضوعات پر میری مدد کرکے کام آسان بنا دیا" ۔

خوشی کی بات ہے کہ ان کے دوست وشال 2019 میں اتر پردیش پبلک سروس کمیشن کے امتحان کے ٹاپر بھی رہ چکے ہیں ۔ فیروز کا کہنا ہے کہ پانڈو نگر پولیس اسٹیشن میں تعینات دہلی پولیس کے انسپکٹر منیش ان کے رول ماڈل ہیں۔ ان کا کام کرنے کا انداز ، اس کا مثبت رویہ ، اور ان کی فیصلہ سازی کی صلاحیت انہیں ایک قابل افسر بنا دیتی ہے۔

 وہ کہتے ہیں آپ کی منزل چاہے جو بھی ہو، مثبت سوچ اور جذبے کے ساتھ آپ اپنی کوشش جاری رکھیں ۔ کبھی کبھی ناکامی اور مایوسی ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں یہیں سے راستے بھی نکلنے ہوں گے ۔ میں نوجوانوں سے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے جو مقصد طے کیا ہے, پوری لگن کے ساتھ اس کے لئے کام کریں۔ ایک اور بات جو میں کہنا چاہتا ہوں کبھی بھی تعاون لینے سے گھبرانا نہیں چاہئے ۔ کھل کر مانگنا چاہئے ۔

کیا فیروز کی کامیابی نے گاؤں میں لوگوں کے تعلیم کے تعلق سے رویہ کو بدلا ہے؟ فیروز کا خیال ہے کہ کامیابی ملنے کے ساتھ لوگوں کی نگاہیں بدل ہی جاتی ہیں۔ لیکن اب گاؤں کے بچوں میں نیا جوش و جذبہ بیدار ہوگیا ہے۔ اب فیروز اور ان کے تایا نے مل کر گاؤں میں پہل کی ہے۔ وہ اپنے گاؤں میں ایک لائبریری بنوا رہے ہیں جس میں ڈھائی سو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔

فیروز نے اپنی کامیابی کے بعد گاؤں میں لائبریری بنوانے کا کام شروع کیا تاکہ گاؤں کے دیگر بچوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ گاؤں کے بچوں نے بھی خواب دیکھنا شروع کردیئے ہیں۔ اگرچہ اس سے پہلے بھی گاؤں کے لوگ نوکری تو کرتے تھے ، لیکن اب فیروز کی کامیابی کے بعد گاؤں کے بچے میں افسر بننے کے خواہش جاگ اٹھی ہے ۔ فیروز کا کہنا ہے کہ افسر بننے کے لئے گاؤں میں ماحول پیدا کرنا ضروری تھا۔ اس سلسلے میں لائبریری ایک اہم کردار ادا کرے گی۔ اب بچے سڑکوں پر آوارہ گھومنے میں وقت نہیں گزاریں گے۔

فیروز کے گاؤں میں لائبریری کی تعمیر کا کام شروع ہو چکا ہے اور اس کی چھت کا کام مکمل ہونے جا رہا ہے۔ لائبریری کی یہ چھت حقیقت میں گاؤں کے بچوں کے روشن مستقبل کی بنیاد ہے۔