'ٹی 20 ورلڈ کپ: کشمیری بلے کی'بلے بلے

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-10-2021
'ٹی 20 ورلڈ کپ: کشمیری بلے کی 'بلے بلے'
'ٹی 20 ورلڈ کپ: کشمیری بلے کی 'بلے بلے'

 

 

  رضوان شفیع  وانی /  سری نگر

کرکٹ لیجنڈ سچن ٹنڈولکر سمیت متعدد کرکٹرز نے اگرچہ وادی کشمیر میں بننے والے بیٹ کا استمعال کر کے اپنی بیٹنگ کا لوہا منوایا ہے، وہیں اب ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پہلی بار اس بلے کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

کشمیری بید کی لکڑی سے بنے بلے کا استعمال ابھی تک کسی بھی بین الاقوامی سطح پر کھیلے گئے کرکٹ مقابلے میں نہیں کیا گیا تھا، تاہم یہ پہلا موقع ہے جب جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے سنگم علاقے میں قائم ایک فیکٹری میں تیار ہونے والے کشمیری ولو بیٹ ٹی 20 ورلڈ میں اپنے جلوے بکھیرے گا۔

متحدہ عرب امارات میں جاری ٹی 20 ورلڈ کپ میں عمان کی انٹرنیشنل کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی کشمیری بید کی لکڑی سے تیار ہونے والے بلے استعمال کریں گے۔

یہ بلے فضل کبیر نامی ایک مقامی شخص کے کارخانے میں تیار کیے گئے ہیں۔ فضل کبیر گذشتہ 28 برسوں سے کرکٹ کے بلے بنانے کی صنعت سے وابستہ ہیں۔

کشمیری ولو بیٹ کو عالمی سطح تک لے جانے کے لیے انہیں کڑی محنت کرنی پڑی اور بالآخر ان کی محنت رنگ لائی ہے۔

فضل کبیر کہتے کہ 'کامیابی خود کسی کے قدموں میں نہیں آتی ہے۔ آپ کو اس کے لیے خود کام کرنا پڑتا ہے۔'

فضل کبیر کو بیٹ بنانے کا کاروبار والد سے ورثے میں ملا۔ سنہ 1974 میں ان کے والد عبدالکبیر نے یہ کاروبار شروع کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں: 'میرے والد چاہتے تھے کہ ان کے کارخانے میں بننے والے بیٹ بین الاقوامی سطح پر استمعال کیے جائیں۔ دن رات محنت کرنے کے بعد بالآخر والد کا خواب پورا ہوا۔ اس سے نہ صرف بلے سازی کی صنعت کو فروغ ملے گا بلکہ انٹرنیشنل کرکٹ میں کشمیر کے لیے یہ قابل فخر بھی ہوگا۔'

awazurdu

فضل کبیر کے بیٹ کارخانے میں ہر برس 65 ہزار کے قریب بلے تیار کیے جاتے ہیں اور ملک کی مختلف ریاستوں میں قائم فیکٹریوں کو سپلائی کیے جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ 'ہمارے پاس جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی اسی وجہ سے ہم کسی مخصوص برانڈ نام کے بغیر سامان جالندھر اور میرٹھ کی کمپنیوں کو بھیجا کرتے تھے۔ ہم نے ماہر اور تجربہ کار کاریگروں کو ملک کی دیگر ریاستوں سے لایا ہے۔ ان کی بدولت سے اب انٹرنیشنل لیول پر آئی سی سی کے رولز کے مطابق اس فیکٹری میں بلے تیار کر رہے ہیں۔'

کشمیری ولو یعنی بید کا درخت اچھے معیار کی لکڑی کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس لکڑی سے اعلیٰ معیار کے کرکٹ بلے تیار کیے جاتے ہیں۔

فضل کبیر کا کہنا ہے کہ بید دو قسم کا ہوتا ہے ایک نر اور دوسرا مادہ۔ یہ درخت صرف برطانیہ اور کشمیر میں ہی پائے جاتے ہیں۔ کشمیر میں پائے جانے والے بید نر ہوتے ہیں جبکہ برطانوی بید مادہ ہوتے ہیں۔

'کشمیری بید کے بلے بین الاقوامی کرکٹ معیار کو پورا کر سکتے ہیں اور بیٹنگ کے لیے بھی موزوں ہیں۔ انگلش ولو کے برعکس سخت اور ٹوٹنے کے امکانات کم ہوتے ہیں، اس لیے انہوں نے کشمیر ولو کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرنے کی بھرپور کوشش کی۔'

انہوں نے بتایا: ’اب ہمیں احساس ہوا کہ ہم انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی رہنمائی میں عمدہ معیار کے بلے تیار کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے کشمیر کے باہر سے اچھے کاریگروں کی خدمات اور مہارت حاصل کی ہے تاکہ اچھے بیٹ بنا سکیں جو عالمی معیار پر پورے اترتے ہوں۔ اس سے نہ صرف بلے سازی کی صنعت کو فروغ ملے گا بلکہ عالمی کرکٹ میں کشمیر کے لیے یہ قابل فخر بھی ہوگا۔‘

awazurdu

کشمیری بید کے بلوں کی جگہ بنانے کے لیے فضل کبیر عالمی مارکیٹ کا جائزہ لے چکے ہیں تاکہ انٹرنیشنل کرکٹر یہ بیٹ استعمال کریں اور اب ان کا یہ خواب پورا ہوگیا ہے کیونکہ عمان کی کرکٹ ٹیم کے بعض کھلاڑی پہلی بار کشمیری بید کے بیٹ سے کھیلیں گے۔

 اعداد و شمار کے مطابق کشمیر میں 400 سے زائد کرکٹ بیٹ یونٹ کام کر رہے ہیں اور سینکٹروں افرد اس کاروبار کے ساتھ وابستہ ہیں، تاہم گذشتہ برسوں کے دوران بید کی لکڑی کی قلت میں اضافہ دیکھنے کو ہے۔

 فضل کبیر کہتے ہیں کہ کشمیر میں بید کی پیداوار ختم ہوتی جا رہی ہے جو ایک تشویش ناک بات ہے۔

جس طرح سے دن بہ دن کرکٹ ایک مقبول ترین کھیل بن کر ابھر رہا ہے اس کے برعکس کشمیر میں ولو ختم ہو رہا ہے حکومت کو چاہیے کہ اس صنعت کو بچانے کے لیے موثر اقدامات اٹھائیں۔

awazurdu