’صائمہ سید:پہلی خاتون’ون اسٹار رائڈر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 22-02-2021
شان راجستھان  صائمہ سید
شان راجستھان صائمہ سید

 

 

منصور الدین فریدی/ نئی دہلی 

صائمہ سید۔ گھڑ سواری میں ملک کی پہلی خاتون‘ون اسٹار رائڈر’بن گئیں۔راجستھان کی 20  سالہ صائمہ سید نے گھڑ سواری میں پرچم گاڑ دئیے اور سرخیوں میں چھا گئی۔ راجستھان میں نئی تاریخ رقم کی،معاشرے کو ایک پیغام دیا ہے لڑکا ہو یا لڑکی۔ سب کیلئے میدان حاضر ہے۔ کسی کیلئے کوئی پابندی یا رکاوٹ نہیں ہے،کھیل ہو یا فن بس ضرورت ہے محنت کی،لگن کی اور ڈسپلن کی۔اس کے ساتھ ہی صائمہ سید کے والدین کی سراہنا کرنا ہوگی جنہوں نے اپنی بیٹی کو ایک ایسے کھیل کا حصہ بنایا جس میں مردوں کی اجارہ داری یا غلبہ رہا ہے۔جنہوں نے بیٹی کی   پسندکو اپنی پسند بنایا۔اس کا بھر پور ساتھ دیا۔یہی وجہ ہے کہ سات سال سے گھڑ سواری کررہی صائمہ سید نے اب یہ کارنامہ انجام دیا۔اہم بات یہ ہے کہ۔۔۔

’ون اسٹار‘ کے درجے نے اب صائمہ سید کیلئے بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کا راستہ کھول دیا ہے۔جودھ پور کی بیٹی اس کامیابی ساتھ ملک کی پہلی ’خاتون ون اسٹار‘گھڑ سواری بن گئی ہیں۔یاد رہے کہ ہندوستان میں ابتک صرف تین‘ون اسٹار’ہیں۔

گریجویشن فائنل ائیر کی طالبہ صائمہ سید نے ’آواز دی وائس‘سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”۔ مجھے ہمیشہ گھر سے پشت پناہی ملی ہے،میرے دادا جان اور پاپا دونوں اسپورٹس مین رہے ہیں۔میرے شوق کو اہل خاندان کی حمایت سے بہت طاقت ملی ہے۔اب یہ درجہ میرے لئے بیرون ملک کے مواقع پیدا کرے گا،جس کا مجھے بڑی بے صبری سے انتظار تھا۔“ صائمہ سید جودھ پور کے چوپاسانی میور اسکول میں زیر تعلیم ہے،اسکول میں گھڑ سواری کی بہترین سہولیت موجود ہے۔جس کا فائدہ صائمہ سید نے اٹھایا۔ اہم بات یہ ہے کہ گھڑ سواری کے بنیادی گر اور باریکیوں سے واقف کرانے میں اسکول کےانسٹرکٹر گورو جوشی نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد صائمہ نے احمد آباد کے مشہور ایچ آر جی گروپ کے انسٹرکٹر کرن پٹیل اور کے ساتھیوں سے تربیت حاصل کی۔جس نے اس کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔

saima

مقابلہ مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ تھا

لڑکے۔لڑکی میں کوئی فرق نہیں

یوں تو گھڑ سواری ہی ایک سخت کھیل یا فن ہے،جبکہ گھڑ سواری میں‘ون اسٹار’کیلئے کوالیفائی کرنا ذرا اور مشکل ہوجاتا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ اس میں لڑکے اور لڑکیوں الگ الگ زمرے میں نہیں رکھا جاتا ہے۔’ون اسٹار‘ کیلئے مقابلہ مشترکہ ہوتا ہے۔ جس میں لڑکیوں کو کچھ زیادہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام طور پر مختلف کھیلوں میں لڑکیوں کو الگ زمرے میں ہونے کے سبب کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔مگر اس کے باوجود صائمہ سید نے بازی مارلی۔’آواز دی وائس‘ سے بات کرتے ہوئے صائمہ سید نے کہا کہ ”۔ بات صرف مقابلے کی تھی۔لڑکوں کے ساتھ میدان میں اترنے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔میرے لئے ٹارگیٹ اہم ہوتا ہے نہ کہ حریف۔“

saima

سب سے بڑا انعام ۔ون اسٹار رائڈر

کوالیفائی کرنے کی شرائط

ون اسٹار رائڈر بننے کے لئے 40 اور 60 کلومیٹر اور 80 کلومیٹر کے دو مقابلوں میں کوالیفائی کرنا ہوتا ہے۔عام طور پر یہ ٹارگیٹ تین سال میں پورا ہوتا ہے لیکن صائمہ سید نے ایک ہی سیزن میں تینوں دوڑوں کو پورا کرلیا ہے۔اس سے قبل صائمہ نے شاندار پرفارمنس دے کر 'ونڈر ویمن' کا خطاب جیتا تھا۔ اس کے علاوہ صائمہ سید نے شو جمپنگ، ہیکس وغیرہ مقابلوں میں حصہ لے کر بہت سے تمغے حاصل کئے ہیں۔

papa

صائمہ سید اپنے والد ڈاکٹر معین الحق کے ساتھ

ابھی تو آغاز ہے

صائمہ سید کے والد ڈاکٹر معین الحق ہیں جو خود ایک صحافی ہیں۔ان کا تعلق تو ناگور سے ہے لیکن اب جودھ پور میں مقیم ہیں۔ڈاکٹر معین الحق کہتے ہیں کہ ’صائمہ کو اسکول میں گھڑ سواری میں دلچسپی ہوئی تھی کیونکہ اسکول میں گھڑ سواری کی بہت اچھی سہولت ہے۔اس کی ساخت اور اسٹمینا ایسا تھا جو گھڑ سوار ی کیلئے موزوں تھا۔یہی وجہ ہے کہ اس نے گھڑ سواری میں قسمت آزمائی اور کامیابی بھی پائی حالانکہ ابھی یہ شروعات ہے،ایک لمبا سفر ابھی باقی ہے۔

saima ayed

صائمہ سید ۔ چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ

‘صائمہ کی سہیلی ’اراولی

دلچسپ بات یہ ہے کہ صائمہ کی کامیابی میں اہم کردار ان کی ایک‘سہیلی’اراولی کا رہا ہے جو ان کی’گھوڑی‘ہے۔وہ شروع سے ہی‘اراولی’کی سواری کررہی ہیں۔دونوں میں زبردست تال میل ہے۔بیشتر مقابلے مارواڑی گھوڑی کی سواری پر ہی جیتے ہیں۔

یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ گھڑسواری کے مقابلہ میں گھوڑے بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گھوڑااور گھڑسوارایک اکائی کے طورپر دیکھا جاتا ہے۔ دونوں کا تال میل کہیں نہ کہیں جیت اور کامیابی میں اہم ترین کردار نبھاتا ہے۔اس بارے میں خود صائمہ سید کا کہنا ہے کہ ”۔ جی ہاں!میں اراولی کے ساتھ بہت مطمن ہوں۔اس کو پچھلے دو سال سے استعمال کررہی ہوں،بیشتر کامیابیاں اسی کی پیٹھ پر سوار ہوکر حاصل کی ہیں۔اس لئے کہیں نہ کہیں ’اراولی‘ بھی اس کامیابی کی حصہ دار ہے۔“