سبینا رحمان : شمشان گھاٹ کی پہلی مسلمان خاتون انچارج

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-05-2021
ذمہ داری نبھاتے ہوئے سبینا
ذمہ داری نبھاتے ہوئے سبینا

 

 

ترواننتاپورم: ہندو روایت میں ایک طویل عرصے سے آخری سفریعنی کہ ارتھی میں خواتین کی موجودگی کو پسند نہیں کیا جاتا ہے، مگر یہ کورونا کا دور ہے اور شمشان گھاٹ میں آخری رسوم کی نگراں ایک خاتون ہے اور وہ بھی مسلمان۔ تو پھر کیا ہوگا؟

 ایک ایسے وقت میں جب کورونا کے سبب ہر کوئی کشمکش کا شکار ہے۔ 29 سالہ سبینا رحمان شمشان گھاٹ میں اپنی ذمہ داری بخوبی انجام دے رہی ہیں۔وہ پہلی مسلم خاتون ہیں جو شمشان گھاٹ کے برقی سیکش کی ذمہ دار ہیں۔وہ تریچور میں ایزوا کمیونٹی کی فلاحی تنظیم ایس این بی ایس سماجم کے زیر انتظام الیکٹرک شمشان خانہ میں لاشوں کی آخری رسوم ادا کررہی ہیں۔

 کرائسٹ کالج کے پیچھے شمشان گھاٹ پر جب اس سے ملاقات ہوئی تو ہر جانب بھاگ دوڑ کا عالم تھا۔کئی ایمبو لینس کھڑی تھیں اور لاشیں لائی جارہی تھیں۔ ایمبو لینش کے سائرن کی آواز بھی گونج رہی تھی۔وہ بتاتی ہیں کہ کورنا کے دور سے قبل ہر دن دو یا تین لاشیں آتی تھیں لیکن اب میں ہر روز سات سے آٹھ لاشوں کی آخری رسوم ادا کی جاتی ہیں۔لاش کو بجلی کی بھٹی میں ڈالنے سے استھیاں تیار کرنے تک تقریبا دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ کورونا کی دوسری لہر میں کام کا دباو بہت بڑھ گیا ہے۔میں ڈھائی سال سے اس شمشان خانہ میں کام کر رہی ہوں۔ لیکن پچھلے کچھ ہفتوں میں ایسا ہوا کہ ہمیں آخری رسوم کی اائیگی اگلے دن تک کےلئے ٹالنا پڑی۔ اب یہ ایک مشکل کام بن گیا ہے ، کیوں کہ مجھے یہاں دن میں 14 گھنٹے گزارنا پڑتےہیں۔

 اگرچہ ابتدائی طور پر اسے شمشان گھاٹ ان کو دفتری عملہ کی ملازمت دی گئی تھی لیکن وہ آخری رسومات میں شرکت کرتی اور اس کے کاموں میں مدد کیا کرتی تھیں۔ بعدازاں ، جب شمشان گھاٹ میں نگراں کا عہدہ خالی ہوا تو آٹھ سالہ لڑکے کی گریجویٹ والدہ ، خاتون نے اس ملازمت کو قبول کرلیا۔