رضوانہ : جس نے شادی پرتعلیم کوترجیح دی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
وقت کی اہم ضرورت ہے جہیز کے خلاف بیداری مہم : رضوانہ خاتون
وقت کی اہم ضرورت ہے جہیز کے خلاف بیداری مہم : رضوانہ خاتون

 

 

 سلطانہ پروین، پورنیہ

 یہ بہت ہی مشکل لمحہ تھا جب گھر والوں نے رضوانہ خاتون سے کہا کہ ہمارے پاس تھوڑی سی زمین ہے، اسے بیچ کریا توہم تمہیں تعلیم دلاسکتے ہیں یا اسے بیچ کر جہیز کے اخراجات پورے کئے جا سکتے ہیں۔

گھروالوں نےان سے یہ بھی کہا کہ اب تم خود سوچ لو، تمہیں کیا کرنا ہے۔ گھروالوں نے رضوانہ سے یہ بھی کہا کہ اگر تم پڑھنا چاہتی ہوتوتمہیں اسٹیمپ پیپر پر یہ لکھنا پڑے گا کہ جہیزکے اخراجات ہمارے ذمہ نہ رہیں گے، یعنی بغیر جہز کے ہی شادی کرنی ہوگی۔

اس وقت رضوانہ کی عمر کافی کم تھی، تاہم انہوں نے اس چھوٹی سی عمر میں یہ فیصلہ لیا کہ وہ شادی کے موقع پر والدین سے کوئی خرچ نہیں کروائے گی، انہوں نے اسٹیمپ پیپر وہ ساری باتیں لکھ کر دے دی، جو اس کے گھروالے چاہتے تھے۔

اسٹیمپ پیپر پر دستخط کرنے کے بعد رضوانہ خاتون جہیز کے لیے رکھی ہوئی زمین بیچ کر اپنی ایم بی بی ایس تعلیم مکمل کرنے کے لیے کرغستان چلی گئی۔

 دور افتادہ گاوں سے تعلق

رضوانہ خاتون ایک کسان کی بیٹی ہیں۔ ریاست بہار کے ضلع پورنیہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں لتامباری کی رضوانہ آج اپنے علاقے میں جہیز کے خلاف مہم چلا رہی ہے اور لوگوں کو اس کے مضر اثرات سے آگاہ کر رہی ہیں۔

رضوانہ تقریباً روزانہ اسکول، کالج اور کوچنگ انسٹی ٹیوٹ وغیرہ جاتی ہیں اور وہاں طلبا کو جہیز نہ دینے اور نہ لینے کا حلف لیتے ہیں۔ وہ ہر طالب علم سے ایک حلف برداری کا فارم پر کرواتی ہیں۔

اس کے علاوہ وہ سب کو ایک پودا لگانے کی بھی ترغیت دیتی ہیں اور سگریٹ نوشی نہ کرنے کا بھی حلف دلاتی ہیں۔

رضوانہ خاتون کا کہنا ہے کہ وہ ایک سال سے جہیز کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔ انہوں نے اس دوران سینکڑوں افراد کو اس مہم سے جوڑا ہے۔ اس دوران رضوانہ خاتون کو مختلف قسم کے تجربات پیش آئے جو ہمت و ولولے سے بھرے ہوئے ہیں۔

ان کے والد محمد سجاد کاشتکار ہیں، جب کہ والدہ رشید ایک گھریلو خاتون ہیں۔ رضوانہ خاتون کا کہنا ہے کہ 2011 میں جب انہوں نے میٹرک پاس کیا تو انہی دنوں ان کے خالہ(والدہ کی بہم)کی شادی ہوگئی۔ خالہ کی شادی میں زمین بیچ کر تین لاکھ جہیز دیا گیا تھا۔

رضوانہ اپنی خالہ کے ساتھ ان کے سسرال کے گھر گئی۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ سسرال والےجہیز کو لے کر ان کی خالہ کے ساتھ برا برتاو کر رہے ہیں، اور انہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کر رہے ہیں۔

وہ زمین اور پیسے کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے سامان کا بھی مطالبہ کررہے تھے۔ پھر رضوانہ کو لگا کہ اس کی خالہ کے ساتھ جوکچھ ہو رہا ہے وہ اس کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔

وہاں سے واپس آنے کے بعد انہوں نے پڑھائی کا فیصلہ کیا اور2014 میں انہوں نے بارہویں جماعت پاس کیا۔ 

awaz

رضوانہ اپنی خالہ کی زندگی کے حالات دیکھ کر ہمیشہ کچھ پڑھنا اور کرنا چاہتی تھی۔ لیکن پڑھائی کے لیے پیسے نہیں تھے۔ میٹرک پاس کرنے پروزیراعلیٰ کی ترغیبی اسکیم کے تحت انہیں دس ہزار ملے۔ اسی رقم سے انہوں نے بارہویں جماعت پاس کیا۔ بارہویں پاس کرنے کے بعد بھی دس ہزار دوبارہ اسی اسکیم کے تحت انہیں ملے۔

اس رقم سےانہوں نے مقابلہ جاتی کتابیں خریدیں اور پورنیہ میں اپنے ماموں کے گھر رہ کراین ای ای ٹی ( NEET )کی تیاری ذاتی طور پر شروع کردی۔ وہ میڈیکل اوراین ای ای ٹی کی تیاری کے لیے کوٹہ جانا چاہتی تھی، تاہم پیسےنہ ہونےکی وجہ سےنہیں جا سکی۔

پورنیہ میں رہ کرہی انہوں نےامتحان کی تیاری کی اورنیٹ کا امتحان بھی ذاتی مطالعہ سے پاس کر لیا۔اسی دوران رضوانہ کی شادی کے لیے پیغامات آنے لگے۔ تاہم جو بھی رشتے آتے وہ پہلے جہیز کی بات کرتے تھے، اور یہ بھی سوال کیا جاتا کہ ان کے والد چھوٹے کسان ہیں یا بڑے۔

زمین بیچ کر میڈیکل میں اندراج

مالی مشکلات کے باوجود رضوانہ خاتون تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھیں لیکن ان کے گھروالے ان کی شادی کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنی والدہ رشیدہ خاتون سے کہا کہ جو زمین میرے جہیز کے لیے رکھی گئی ہے انہیں بیچ کر میری تعلیم کےلیے پیسے کا انتظام کیجئے۔ اس پر ان کے گھر والے سخت ناراض ہوگئے۔

جب رضوانہ نے اصرار کرنا شروع کیا تو گھروالوں کی جانب سے کہا گیا کہ اسے یہ بات اسٹیمپ پیپر پر لکھر کر دینی پڑے گی کہ وہ مزید پیسے اپنے گھروالوں سے وصول نہیں کرے گی۔

ان کے والدین نے کہا کہ ہم یا توتمہاری شادی کرسکتے ہیں یا تعلیم کےلیے پیسے فراہم کرسکتے ہیں۔

اس سلسلے میں رضوانہ خاتون بتاتی ہیں کہ انہوں نے گھروالوں کی منشا کے مطابق اسٹیمپ پیپر پر وہ تمام باتیں لکھ دیں جو وہ لوگ چاہتے تھے۔

اس کے بعد وہ کرغستان چلی گئیں، جہاں انہوں نے ایم بی بی ایس میں داخلہ لیا۔ جب وہ کالج میں داخلہ لے کر کرغستان سے واپس لوٹیں تو ایک بار پھر ان کے رشتے کی بات شروع ہوگئی۔ تاہم اس بار معجزہ ہوگیا،اس بار رشتے وال اب ان کی تعلیم کی بات کر رہے تھے نہ کہ جہیز کی۔

لوگوں کے اس بدلے ہوئے رویے سے رضوانہ نے محسوس کیا کہ اگر کوئی لڑکی تعلیم حاصل کرتی ہے تو وہ ہر چیز حاصل کر سکتی ہے جو وہ چاہتی ہو۔اگرانہیں پڑھائی کرنے سے فائدہ ملا ہے تو دوسرے بھی اسے حاصل کر سکتے ہیں اور فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔

اس تجربے کے بعد سے ہی انہوں نے جہیز کے خلاف مہم شروع کردی، وقت کی اہم ضرورت ہے جہیزکے خلاف بیداری مہم۔ اس کے علاوہ انہوں نے لڑکیوں سے کہنا شروع کردیا کہ وہ اپنے والدین سے کہیں کہ جو رقم جہیز کے لیے رکھی گئی ہے، اسے وہ ان کی تعلیم پرخرچ کریں۔

لڑکیوں کی تعلیم ضروری

ایم بی بی ایس کی طالبہ رضوانہ خاتون کا کہنا ہے کہ ہروالدین کے لیے بیٹے کو تعلیم دلانے کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کو بھی تعلیم دلانا ضروری ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ لڑکیاں دو گھروں کو سنبھالتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ہر لڑکی کو خود پر منحصر ہونا چاہیےتاکہ کوئی اسے سسرال میں ہراساں نہ کر سکے۔ انہوں نے دیکھا ہے کہ سسرال میں کس طرح لڑکیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے،اس سے ان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔

رضوانہ خاتون نے اپنی مہم کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔اس مہم میں انہوں نے اپنے چچا مرتضیٰ اور بھائی محمد احسان کو جوڑا۔ یہ دونوں جب بھی پورنیہ سے باہر جاتے ہیں رضوانہ ان کے ساتھ جاتی ہیں۔

رضوانہ نے پورنیہ ضلع کے متعدد اسکولوں اور کالجوں میں جا کر طلبا سے جہیز نہ لینے اور جہیز نہ دینے کا حلف لیا ہے۔ اس کے علاوہ رضوانہ کی جانب سے یہ مہم سہرسہ اور کشن گنج وغیرہ کے اسکول و کالجوں میں بھی شروع کی جا چکی ہے۔

ان کی دوست روگنی کماری اور ان کی خالہ ریحانہ بانو بھی اس مہم میں رضوانہ کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔

ریحانہ پیشے سے ٹیچر ہیں وہ کہتی ہیں کہ جب رضوانہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے کرغستان جائیں گی تو وہ وہاں بھی اپنی مہم جاری رکھیں گی اوراسکول اور کالج میں جا کر طلباء کےعلاوہ معاشرے کے تمام طبقات کے لوگوں کو بھی آگاہ کرے گی۔

مہم کرغستان میں جاری رہے گی

رضوانہ خاتون کا کہنا ہے کہ جلد ہی وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے کرغستان چلی جائیں گی۔ وہاں وہ اپنی مہم جاری رکھیں گی۔ بہت سے ہندوستانی لڑکے اور لڑکیاں وہاں پڑھتے ہیں۔ یہاں پورنیہ میں ، صرف آس پاس کے لوگوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے، جب کہ کرغستان میں ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے طلباء کو بھی اس مہم میں جوڑنے کا  موقع ملے گا تا کہ وہ بھی بیدار ہوں اوراپنے لوگوں کو بھی بیدارکریں۔ کرغستان میں بھی یہ مہم جاری رہے گی۔