پدم شری جاویداحمدٹاک:جسمانی معذوری جن کا راستہ نہ روک سکی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-09-2021
پدم شری جاویداحمدٹاک:جسمانی معذوری جن کا راستہ نہ روک سکی
پدم شری جاویداحمدٹاک:جسمانی معذوری جن کا راستہ نہ روک سکی

 

 

غوث سیوانی،نئی دہلی

سری نگر

یوں تو سری نگرمیں آئے دن احتجاجی پروگرام ہوتے رہتے ہیں مگرابھی ابھی ایک منفردقسم کا احتجاجی پروگرام ہوا۔ اس میں شامل تمام افراد جسمانی طور پر معذور تھے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ سرکاری نوکریوں میں بحالی کے لئے معذوروں کی درخواستوں پرجلدفیصلہ لیا جائے۔ ان احتجاجیوں کی قیادت پدم شری جاویداحمد ٹاک کر رہے تھے جو خود بھی معذور ہیں اور وہیل چیئرپر رہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری نوکریوں کے لئے جن لوگوں نے اپلائی کیا تھا،ان کے نتائج کا اعلان ہوگیامگرمعذوروں کے لئے ریزروسیٹوں پر درخواست دینے والوں کے ناموں کا اعلان نہیں ہوا۔ اس صورت حال سے معذور افراد دکھی ہیں۔

جب عسکریت پسندوں نے معذورکردیا

جاوید احمدٹاک ایک مدت سے معذور افرادکے حقوق کے لئے تحریک چلارہے ہیں۔ ان کی جدوجہد میں ان کی جسمانی معذوری رکاوٹ نہیں بنی۔ جنوبی کشمیر کے بیج بہار کے رہنے والے جاوید احمد ٹاک پوری وادی کے نوجوانوں کو اپنے کام سے متاثر کر رہے ہیں۔ 1997 میں جنگجووں کی گولیوں کا شکار ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے معذور ہو گئے تھے۔ گولیوں نے ان کی ریڑھ کی ہڈی ، جگر ، گردے وغیرہ کوزخمی کر دیا تھا۔

جاوید پر اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ اپنی خالہ کے گھر گئے تھے۔ اسی دوران آدھی رات کو اچانک کچھ بندوق بردار ان کے کزن کو زبردستی لے جانے آگئے جوکہ ایک سیاسی کارکن تھے۔ احتجاج کرنے پر انھوں نے جاوید پر فائرنگ کردی لیکن خوش قسمتی سے ان کی جان بچ گئی۔

 

 

دوسروں کے مددگار

 

اس دہشت گردانہ حملے کے بعد جاوید کی زندگی بری طرح بکھر گئی ، لیکن انھوں نے دوبارہ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا کہ وہ اپنے جیسے معذوروں اور تشدد کے متاثرین کی مدد کریں گے۔ اس کام کے لیے ، انھوں نے زیبا آپا انسٹی ٹیوٹ کھولا ، جہاں اس وقت وہ 100 سے زائد معذور ، بہرے ، نابینا ، غریب اور دہشت گردی سے متاثرہ بچوں کو مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔حالانکہ اس ادارہ سے مستفید ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

خدمت خلق سے خوداعتمادی آئی

جاوید احمدٹاک کہتے ہیں ایک دن میں بستر پر لیٹا اپنی زندگی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ پھر میں نے گھر کے باہر کچھ بچوں کا شور سنا۔ میں نے اپنی ماں سے بچوں کو بلانے کو کہا۔ تب میں نے انہیں پڑھانا شروع کر دیا۔ چند دنوں میں میرا کمرہ ایک چھوٹا سا اسکول بن گیا۔ اس نے مجھ میں زندہ رہنے کا جوش اور اعتماد پیدا کیا۔ تناؤ بھی کم ہوا۔ پھر میں نے مزید پڑھنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے بتایاکہ میں نے اگنو سے انسانی حقوق اور کمپیوٹنگ میں دو فاصلاتی تعلیمی سرٹیفکیٹ کورسز بھی کیے۔ میں خود ایک متاثر ہونے کے ناطے معذوروں اور عسکریت پسندی کے متاثرین کا درد محسوس کرتا ہوں۔ پھر میں نے تھوڑا آگے جانے کا فیصلہ کیا۔ جاوید نے بتایا ، میں نے کشمیر یونیورسٹی میں سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں ماسٹرز کیا۔ اس دوران میں نے وہاں کی سات عمارتوں میں معذور افراد کے لیے مناسب سہولیات کے انتظامات کرایے۔ اس کے لیے مجھے جو جدوجہد کرنا پڑی اس نے مجھے زیادہ پراعتماد بنا دیا۔

awaz

معذوروں کے لئے جدوجہد

یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد میں نے معذوروں کے لیے کام کرنا شروع کیا۔ میں لوگوں کی مدد کر کے خوش ہوں۔ ٹاک نے کہا کہ جموں و کشمیر کے سابق گورنر این این ووہرا اور معذور افراد کے لیے روزگار کے فروغ کے قومی مرکز کے سابق ڈائریکٹر ، مرحوم جاوید عابدی سے مکمل تعاون اور حوصلہ ملا۔ سال 2006 میں ، میں نے معذور افراد کی بحالی کے لیے کام شروع کیا۔ سال 2007 میں میں نے زیبا آپا انسٹی ٹیوٹ شروع کیا۔ اس میں بیج بہار اور اس سے ملحقہ علاقوں کے بچوں کو مفت تعلیم دی جانےلگی۔ اسکول میں نابینا بچوں کے لیے بریل میں پڑھنے کی سہولیات موجود ہیں۔ ہم روزگار حاصل کرنے کے لیے ووکیشنل کورسز بھی فراہم کرتے ہیں۔ دماغی مریض بچوں کے لیے بھی سہولیات موجود ہیں۔

پدم شری ایوارڈ

اسکول کا نام زیبا آپاکیوں؟اس سوال پر وہ کہتے ہیں ، میری دادی کو ہمارے علاقے میں زیبا آپا کہا جاتا تھا۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لیے موجود رہتی تھیں۔ آپا کا مطلب ہے بہن۔ اسی لیے میں نے اپنے اسکول کا نام بھی زیبا آپا رکھا۔ پدم شری سے نوازے جانے پر ٹاک نے کہا کہ یہ اعزاز ان لوگوں کا ہے جو معذور ہونے کے باوجود کچھ کرنا چاہتے ہیں۔

جاوید احمد ٹاک نے ہائی کورٹ میں تین پی آئی ایل دائر کیں اور حکومت کو معذور افراد کے لیے ریزرویشن کی سہولت کو نافذ کرنا پڑا۔ سال 2003 میں ، انہوں نے ہیلپ لائن ہیومینٹی ویلفیئر آرگنائزیشن شروع کی ، جو مختلف معذوروں اور دہشت گردی کے متاثرین کی مدد کرتی ہے۔ جاوید نے حکومت سے تقریبا 75 ہزار معاوضہ وصول کیا تھا ، وہ بھی ان بچوں کی تعلیم کے لیے خرچ کیا گیا۔ جاویدکہتے ہیں کہ میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ معذوروں کے تئیں معاشرے کا رویہ بدل جائے۔معذوروں کورحم نہیں،حق اور تعاون چاپیے۔معذوروں میں اعتماد پیدا کرنا ، انہیں سمجھانا کہ وہ بھی آسمان کو چھو سکتے ہیں ، یہ میرا مشن ہے۔