مبشر بشیر: کشمیر کے واحد ٹیٹو آرٹسٹ

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 03-01-2022
مبشر بشیر: کشمیر کے واحد ٹیٹو آرٹسٹ
مبشر بشیر: کشمیر کے واحد ٹیٹو آرٹسٹ

 

 

رضوان شفیع وانی، سری نگر

کشمیر بدل رہا ہے ،نئی نسل اب اونچی اڑان بھر رہی ہے،مختلف میدانوں میں نوجوانوں نے اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کردیا ہے،بات اسپورٹس کی ہو یا پھر تعلیم کی۔ کاروبار کی ہو یا مقابلہ جاتی امتحانات کی،یا پھر فیشن کی۔ کشمیر کی نئی نسل نے اب سرخیاں بٹورنی شروع کردی ہیں۔پچھلے ایک سال کے دوران وادی کشمیر سے لاتعداد نام اور چہرے سامنے آئے ہیں جنہوں نے نہ صرف کشمیر بلکہ ہندوستان کو متوجہ کیا ہے۔ ان میں ہی ایک نام ہے مبشر بشیر بیگ ۔وادی کشمیر کے مقبول و معروف ٹیٹو آرٹسٹ  جو نہ صرف جسم پر متحرک ٹیٹوز بناتے ہیں بلکہ ان کے 'اِنک آرٹ' سے محبت کرنے والوں کے لیے موزوں سائز اور ڈیزائن کے بارے میں مشورے بھی بہت قیمتی ہوتے ہیں۔

مبشر بشیر کا تعلق دارالحکومت سرینگر کے بمنہ علاقے سے ہے اور وہ وادی کشمیر کے واحد ٹیٹو آرٹسٹ ہیں۔ انہوں نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'میں نے آج سے پانچ برس قبل ٹیٹو شاپ کا آغاز کیا۔ میں وادی کا پہلا ٹیٹو آرٹسٹ ہوں۔ اس وقت میرے ہزاروں گاہک ہیں، جن میں نوجوان لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ ہم نہ صرف ٹیٹوز بناتے ہیں، بلکہ 'پیرسنگ' کا کام بھی کرتے ہیں۔ یہ کشمیر میں مقبول ہو رہا ہے۔ پیرسنگ صرف لڑکوں تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ لڑکیاں بھی کرا رہی ہیں'۔

وہ کہتے ہیں کہ پیرسنگ ایک فیشن بن گیا ہے۔ یہ ایک ٹیکنیک ہے جس کے تحت نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے جسم کے کسی بھی حصے پر سوراخ کرتے ہیں اور چھوٹی رِنگ یعنی انگوٹھی لگاتے ہیں۔ نوجوانوں میں ہونٹ، زبان، پلک اور پیٹ پر سوراخ کرکے ڈائمنڈ یا گولڈ رِنگ لگانا ایک ٹرینڈ بن گیا ہے۔

مغربی ثقافت کی وجہ سے ملک کے مختلف شہروں کی طرح وادی کشمیر میں بھی جسم پر نقش و نگاری کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔روانہ دس سے پندرہ نوجوان اپنے جسم پر ٹیٹو بنوانے کے لیےان کے اسٹوڈیو میں آتے ہیں۔

awazthevoice

مبشر بشیر بیگ کے ٹیٹو کا نمونہ

مبشر بشیر کے بقول کشمیر میں ٹیٹو بنوانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ 5 برس قبل جب میں نے یہ کام شروع کیا تو اس وقت مجھے ایک سے دو کلائنٹ ملتے تھے۔ اب مجھے روزانہ 15 سے 20 گاہک ملتے ہیں۔

وادی کے مختلف علاقوں کے ساتھ ساتھ کشمیر کے باہر سے بھی کلائنٹ آتے ہیں۔کچھ سیاح بھی ٹیٹو بنوانے آرہے ہیں۔ کچھ سیاح اپنے جسم پر کشمیر کے خوبصورت مقامات کی تصاویر بنوانے کو بھی کہتے ہیں۔ابھی تک تقریباً 30 ہزار لوگوں کے جسم پر ٹیٹوز بنا چُکا ہوں''ٹیٹو بنوانے سے ٹینشن غائب ہو جاتی ہے۔

لوگ ٹیٹو اس لیے بنواتے ہیں تاکہ اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں۔ اس کلچر نے نوجوانوں کو بہت متاثر کیا ہے ۔ اسٹوڈیو میں کلائنٹس کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے'

کامرس گریجویٹ مبشر بشیر نے اس فن کو سیکھنے کے لیے پہلے پہل یوٹیوب کا سہارا لیا۔ انہیں اس فن کا جنون تھا، جس نے انہیں ممبئی کا رُخ کروایا۔ پانچ سال قبل وہ سرینگر آئے اور 'مبیز ٹیٹو' کے نام سے اپنا اسٹوڈیو شروع کیا، جو وادی میں اپنی نوعیت کا پہلا اسٹوڈیو ہے۔وہ کہتے ہیں کہ کامرس میں گریجویشن حاصل کرنے کے بعد سرینگر کے ایک کالج سے فائن آرٹ میں ڈپلوما کیا۔ اس کے بعد حیدرآباد میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت شروع کی۔ اسی دوران میں نے یوٹیوب کے ذریعے اس فن کو سیکھنے کی کوشش کی۔

'میں پینٹنگ اور خاکہ نگاری کرتا تھا لیکن میں کچھ الگ کرنا چاہتا تھا، میرے اندر ٹیٹو فنکار بننے کا شوق پیدا ہوا جس کے بعد نوکری چھوڑ دی اور پنجاب کا رُخ کیا جہاں مہارت حاصل کرنے کے لیے 6 ماہ کا ڈپلوما کیا۔

اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے ممبئی، دہلی اور پنجاب سمیت مختلف شہروں میں کام کیا۔ آج میں پروفیشنل آرٹسٹ ہوں'۔مبشر بشیر کے لیے یہ سفر آسان نہیں رہا۔ اس فن کو سیکھنے کے لیے انہیں کافی مشقتیں کرنی پڑی، ہرکوئی اس کی مخالفت کر رہا تھا۔

awazthevoice

مبشر کے بنائے ہوئے منفرد ٹیٹو

مبشر نے جگر مراد آبادی کے شعر

جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں

 وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں   

 کے مِصداق ہمت نہیں ہاری اور آگے بڑھتے گئے۔ اب ان کا کاروبار بھی تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں جب میں نے اس میدان میں قدم رکھا تھا تو اس کے بارے میں لوگوں کا نظریہ انتہائی تنگ تھا۔ لوگ مجھے تنگ نظر سے دیکھتے تھے اور تانے دیتے تھے لیکن میں نے ان کی باتوں پر دھیان نہیں دیا اور اپنا کام کرتا رہا۔ انگلی اٹھانا لوگوں کا کام ہے۔ لیکن ارادے بلند ہوں تو انسان کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ میں نے ٹھان لی تھی کہ اسی کام میں مجھے اپنا کرئیر بنانا ہے اور شکر الحمداللہ میں اس میں کامیاب ہو گیا۔

مبشر بشیر کے لیے ٹیٹو بنانا فن اور کاروبار دونوں ہے۔ انہوں نے ملک کے مختلف شہروں میں بھی کام کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمیر میں ٹیٹو بنوانا سستا ہے۔ جب میں کچھ سال پہلے باہر کام کرتا تھا تو ہم پندرہ سو روپے لیتے تھے۔ یہاں میں اب 500 روپے لیتا ہوں۔ ان کے بقول ٹیٹو بنوانے کے عمل میں ایک گھنٹہ سے زیادہ وقفہ لگتا ہے۔ ہڈی والے حصوں پر ٹیٹو بہت مشکل رہتا ہے کیونکہ اس سے تکلیف زیادہ ہوتی ہے۔