ریاض الدین ۔ ’مٹھی بھر‘ سیٹلائیٹ کی ایجاد

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-01-2021
                            نوجوان سائنس داں ریاض الدین اہل خانہ کے ساتھ
نوجوان سائنس داں ریاض الدین اہل خانہ کے ساتھ

 

                                                                 آشا کھوسہ / رام کمار
 
 رات کے ایک بجے اپنی تحقیق میں کھوئے ہوئے ریاض الدین کی نظر اچانک سے اپنی ای میل پر پڑی۔ ای میل پر موجود پیغام کو دیکھ کر وہ ششدررہ گئے۔ ای میل میں ان کے ذریعہ بنائے گئے سیارہ  کوامریکا کی خلائی ایجنسی’ناسا‘نے دنیا کا سب سے ہلکا سیٹلائٹ قرار دیا۔ 18 سال کے ریاض الدین، جو انجینرنگ کے طالب علم ہیں اور چینّئی سے 36 کلو میٹر دور تنجاور میں واقع کرانتہی قصبے میں رہتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں یہ خبر سن کر کافی پرجوش تھا اور بھاگتے ہوئے اپنے اہل خانہ کے کمرے میں گیا اور انہیں جگا کر یہ خوشخبری سنائی۔ ’آواز دی وائس‘سے گفتگو میں ان کی آواز میں جوش تھا،ولولہ تھا۔ بین الاقوامی سطح پر حاصل ہوئی اس غیرمتوقع کامیابی سے ریاض الدین خوشی سے سرشار تھے - مذکورہ مقابلے میں دنیا کے 73  ممالک  کے طلبا نے تکنیکی پروجیکٹس اور تخلیکی کاموں کے ساتھ حصّہ لیا۔
 
ریاض الدین کے ہر سیٹلائٹ کا وزن محض 33 گرام ہے۔اپنی اس کامیابی کے بعد انہوں نے چینّئی کے ہی ایک طالب علم رفعت شاہ رخ اور اس کی ٹیم کا پچھلا ریکارڈ توڑ دیا جس میں انہوں نے  64 گرام وزن والے سیٹلائٹ کو بنایا تھا۔
 شاہ رخ کے بھی سیٹلائٹ کو ناسا نے  2018 میں لانچ کیا تھا- ریاض الدین نے اب تک دو سیٹلائٹ بنائے ہیں - ریاض بیرون ملک جانے کے بجائے اپنا خود کا اسٹارٹ اپ کھولنا چاہتے ہیں۔ ملک کی معروف شاستر ی یونیورسٹی نے ان کے اسٹارٹ اپ کے لئے پانچ لاکھ روپے گرانٹ دینے کی بھی پیش کش کی ہے۔
 ریاض الدین گذشتہ کئی دنوں سے اس نتیجے کے منتظر تھے- حالانکہ اس سے قبل وہ اس مقابلے کے آخری مرحلے میں پیچھے رہ گے تھے کیوں کہ ان کا ماڈل ٹرانسپورٹ وجوہات کی بنا پر امریکا نہیں پہنچ سکا تھا۔ ملک کے اس نوخیز سائنس داں نے بتایا کہ اس نے سیٹلائٹ کا جو ماڈل بنایا تھا اسے آخری مرحلے میں ہی خارج کر دیا گیا، منتظمین کا کہنا تھا کہ وہ اس ماڈل کو امریکا کورئیر نہیں کر سکے۔  چینّئی کے ان دونوں ننھے سائنس دنوں نے سیٹلائٹ پر فضا میں ہونے والے اثرات کو دیکھنے کے لئے متعدد تجربے کئے۔ رفعت نے’یُوذد کاربن‘ اور ریاض الدین نے اس سے بھی ہلکے میٹریل ’پولی تھیری مائد تھرمو پلاسٹی ریزن‘ کے ساتھ ٹیسٹ کیا تھا۔
ناسا ان ابتداء نوعیت کے سیٹیلائٹس کی لانچنگ کا ڈیٹا اپنی تحقیق کے لئے استعمال کرتا ہے۔واضح رہے کہ ریاض الدین اور رفعت دونوں ہی سابق صدر جمہوریہ عبد الکلام سے کافی حد تک متاثر ہیں - رفعت نے تو اپنے سیٹلائٹ کا نام ’کلام
سیٹ‘رکھا جو ان کی کلام سے محبت اور لگاؤ کو ظاہر کرتا تھا۔’کلام سیٹ‘ کو ناسا نے بعد میں دوسال بعد لانچ کیا۔
REYAAZUDDIN
اس کامیابی کے بعد ریاض الدین اپنے مرشد اور سابق صدر جمہوریہ عبد الکلام کے حوالے سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ ریاض الدین کہتے ہیں کہ ملک کی تمام نوجوان نسل ان سے متا ثر ہے۔ اور میرے لئے ان کی زندگی، انکا مزاج، کام کرنے کا انداز اور اپنے مقصد کے لئے ان کی لگن سے میں ترغیب حاصل کرتا ہوں۔''جنتا کے راشٹرپتی'' کے نام سے مشہور کلام کو ’میزائل من آف انڈیا‘ کا لقب ملک کی جوہری توانائی کو دی جانے والی ان کی خدمات کے پیش نظر دیا گیا- عوام بھی ان سے ان کی سادگی، خدمت خلق کے جذبہ اور حب الوطنی کے باعث ان سے بے انتہامحبت کرتے تھے۔ ان کی غیر معمولی خصوصیات اور نوجوانوں کے لئے ان کے پیغام نے نئی نسل کے ابھرتے ہوئے ٹیلنٹ کا آئیکون بنا دیا ہے۔ یہ بات قبل ذکر ہے کہ ڈاکٹر عبد الکلام بھی تامل ناڈو سے تھے
ریاض الدین ایک متوسط خاندان سے آتے ہیں - ان کے والد شمش الدین ایئر کنڈیشننگ انجنیئر ہیں اور وہ ہونا کاروبار کرنے سے پہلے نوکری کرتے تھے- ریاض الدین نے چینّئی سے اپنی اسکولنگ شروع کی' جہاں انکے والد نے بیس برس کام کیا
اپنے فرزند کی کامیابی پر فخر کرتے ہوئے شمش الدین کہتے ہیں کہ جب وہ پرائمری اسکول میں تھا تبھی میں نے سائنس کے لئے اس کی دلچسپی کو دیکھ لیا تھا۔وہ اسکول کی سطح کے سائنسی مقابلوں میں حصّہ لیتا تھا۔ اس نے متعدد انعامات بھی جیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر چہ یہ سب ہماری استطاعت سے باہر تھا لیکن خداداد صلاحیتوں کے پیش نظر بیٹے کو روبوٹکس کے نجی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں داخل کرا دیا تھا-ریاض الدین چینّئی  کی شاستر یونیورسٹی میں دوسرے سال کے اسٹوڈنٹ ہیں - انہیں یہ یاد نہیں کہ انہوں نے سائنس کے حوالے سے پہلا تجربہ کب کیا تھا- اسکی واضح بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سائنسی تجربات اور تخلیقی سرگرمیوں میں ڈوبے رہتے تھا
 
انہوں نے ایوارڈ حاصل کرنے والے دونوں سیٹیلائٹس کا نام ویژن-1 اور ویژن-2 رکھا ہے- ریاض الدین انہیں انٹرنیشنل کورئیر سروسز کی مدد سے امریکا بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں - ریاض الدین کو اس کی لانچنگ کے لئے مدعو کیا گیا ہے اگر کورونہ وبا میں سدھار ہوا تو ریاض الدین جانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔
اس کی ایجاد میں خلائی تکنیک میں پولی تھیری مائد تھرمو پلاسٹی ریزن کا استمعال کیا گیا ہے- ناسا نے انہیں یہ دیکھنے کے لئے بلایا ہے کہ خلا میں انکے ذریعہ بنایا گیا سیٹلائٹ موثر ہے یا نہیں۔ ایسے سیٹلائٹ کو سب آربیٹل سیٹلائٹ کہا جاتا ہے جو خلا میں جانے کے بعد الگ الگ ہو جاتے ہیں - اس اثناء اس پر ہونے والے اثرات کے بارے میں اعداد و شمار جمع کے جاتے ہیں - مکعب کی شکل والا سیٹلائٹ ناسا کو گیارہ پیرا میٹرز پر اعداد و شمار مہیا کر ے گا، اس سے حاصل
عداد و شمار کا استعمال خلا، ہوابازی، روبوٹکس، اور دیگر تکنیکی حوالوں سے کیا جا سکے گا۔
rayeezuddin
                   
ریاض الدین نے محنت اور لگن سے حاصل کی کامیابی

ریاض الدین کے سیٹلائٹ کا انتخاب ساونڈنگ راکٹ اور زیرو۔ پریشر سائنٹفک بیلون کے نام سے موسوم دو زمروں کے اندر ہوا ہے۔ یہ سیٹلائٹ  100 گرام وزن سے کم اور سستے و عام پرزوں سے تعمیر کے گئے سیٹلائٹ کے زمرے میں آتے ہیں۔گیارہ سے  سے 18 عمر کے طلبا  کے اندر اختراعی صلاحیتوں کے فروغ کے لئے  ناسا  ہر سال’کیوبس ان اسپیس‘ نام کا مقابلہ منعقد کرتا ہے۔   یہ مقابلہ بین الاقوامی سطح  کا ہوتا ہے۔
ریاض الدین سے جب یہ پوچھا گیا کہ سیٹلائٹ ڈیزائن کے دونوں نوجوان فاتح سائنس دانوں کا تعلق چینّئی سے ہی کیوں ہے؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ چینّئی میں ایسے متعدد انسٹیٹیوٹ اور ادارے ہیں جو ورکشاپ منعقد کرتے ہیں۔ طلبا کو روبوٹکس اور خلائی تکنیک کے میدان میں تجربے اور ایجاد کی اجازت دیتے ہیں - ریاض الدین کا مزید کہنا ہے کہ چینّئی نوجوان سائنس دانوں کو سب سے بہتر ماحول مہیا کرتا ہے۔
  ان کے لئے INROنام کے ادارے نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ریاض نے بتایا کہINRO'' صنعتی  روبوٹکس کی سطح پر کام کرتی ہے جس کی وجہ سے طلبا کو تکنیک اور اس کے اطلاق میں خاصی مدد ملی ہے۔ ریاض الدین سائنسی صلاحیتوں کے سطح سطح اخلاقی اقدار کے بھی دھنی ہیں - ان کاپلان ہے کہ وہ اپنا خود کا سٹارٹ اپ شروع کریں جس سے دوسرے نوجوان سائنسدانوں کو ترقی کا موقع مل سکے۔شاستر یونیورسٹی نے ریاض الدین کو پانچ لاکھ روپے کا وظیفہ دینے کی پیش کش کی ہے۔اسکے علاوہ ریاض الدین موسیقی میں بھی شغف رکھتے ہیں۔ وہ بڑے شوق سے پیانو بجاتے ہیں۔ لوگ انکا موازنہ اے پی جے عبد الکلام سے کرتے ہیں کیونکہ کلام بھی فاضل وقت میں رودر وینا بجاتے تھے۔