ایمیزون کا ملازم جاوید بنا ہوٹلوں کا مالک

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-01-2021
کشمیر کے نوجوانوں کےلئے ایک نئی مثال بن گئے پارسا
کشمیر کے نوجوانوں کےلئے ایک نئی مثال بن گئے پارسا

 

     افضل بٹ/ سری نگر

۔  کہتے ہیں ہمت مرداں مدد خدا۔۔۔اس کی ایک مثال ہے جاوید پارسا ۔

 ۔۔  جاوید پارسا کو یقین تھا کہ ’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔

۔۔  اسی یقین نےاسےاب کشمیر کی نئی نسل کیلئے ایک مثال بنادیاہے۔

کہتے ہیں ہمت مرداں مدد خدا۔۔۔اس کی ایک مثال ہے جاوید پارسا۔ایک کشمیری نوجوان،جس نے اپنی زندگی کا پیشہ ورانہ آغاز تو ایک ملازمت سے کیا تھا مگر بہت جلد اس نے محسوس کر لیا تھا کہ ملازمت سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں کاروباری کامیابی کے امکانات کے پیش نظر بین الاقوامی تجارتی کمپنی ''ایمیزون'' کی نفع بخش نوکری کو خیر باد کر کے ''پارسا'' کے نام سے ریستوراں کا کاروبار شروع کرنے کا  فیصلہ کیا۔ کچھ طوفانی کرنے کا جوش اور جذبہ ہو تو حد پرواز مقرر نہیں کی جاسکتی۔پھر انسان بھروسہ کرتا ہے کہ ’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘۔جاوید پارسا کو بھی اس پر یقین تھا۔جس نے اسے اب کشمیر کی نئی نسل کیلئے ایک مثال بنا دیا ہے۔

 یہ کہانی ہے شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان جاوید اقبال پارسا کی جنہوں نے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اپنا نام کمانے اور دوسروں کو بھی روزگار فراہم کرنے کی ٹھان لی۔32  سالہ جاوید پارسا نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد حیدرآباد میں ایمیزون میں ملازمت اختیار کی لیکن بہت جلد اس ملازمت کو خیرباد کہہ کر سال 2014 کے اواخر میں وادی کشمیر میں اس وقت 'کاٹھی جنکشن' نامی فوڈ آؤٹ لیٹ شروع کیا جب یہاں قیامت خیز سیلاب نے پورے معیشت کو تباہ کردیا تھا۔ انہوں نے کاٹھی جنکشن، جو دراصل دہرادون کی ایک فوڈ آؤٹ لیٹ کمپنی ہے، سے نہ صرف تجربہ حاصل کیا بلکہ حوصلہ پا کر 'پارسا' کے نام سے اپنی کمپنی کی بنیاد ڈالی جس کے فی الوقت جموں و کشمیر، لداخ کے علاوہ دیگر ریاستوں میں کل 23 آوٹ لیٹ چل رہے ہیں۔

'پارساز' فوڈ آؤٹ لیٹس پر کشمیری روایتی کھانوں کے برخلاف مختلف اقسام کے رولز، شاورما اور حیدرآبادی بریانی کے علاوہ دیگر لذیز ضیافتیں بھی دستیاب ہوتی ہیں۔جاوید پارسا نے اپنے اس تجارتی سفر کے بارے میں 'آواز اردو' کے ساتھ تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب کچھ الگ کرنے کا جذبہ ہو تو کسی بھی مشکل کو سر کیا جا سکتا ہے۔'میں نے کچھ الگ کرنے اور دوسروں کو بھی روزگار فراہم کرنے کی ٹھان لی ہے، کچھ نیا کرنے کا سفر بے شک دشوار گذار اور پُرخار ہوتا ہے لیکن جذبہ ہو تو کسی بھی مشکل کو سر کیا جاسکتا ہے۔'پارسا  کہتے ہیں کہ وادی کشمیر کے مخصوص حالات میں اپنا کاروبار شروع کرنا جوکھم بھرا کام ہے۔

parsa

خواب جوحقیقت بن گیا،ایک کوشش جس نے پارسا کو ایک برانڈ بنا دیا

 


وہ کہتے ہیں 'کشمیر میں مخصوص حالات ہیں یہاں کاروباری سرگرمیاں زیادہ تر متاثر ہی رہتی ہیں، ہڑتالیں ہوتی ہیں جن سے یہاں کے کاروبار پر بے حد منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ایسی صورتحال میں یہاں کوئی کاروبار اور وہ بھی نئے ڈھنگ کا، شروع کرنا بہت ہی جوکھم بھرا کام ہے۔''جب میں نے بھی نوکری چھوڑ کر اس کاروبار کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو پہلے پہل گھر والوں کو بھی خدشات و تحفظات تھے لیکن میں نے محنت اور حوصلے سے کام کر کے نہ صرف والدین کے خدشات کو دور کیا بلکہ اپنے خوابوں کے تاج محل کی تعمیر کو بھی یقینی بنا دیا۔
'پارسا ریسٹورنٹ' کے بارے میں بات کرتے ہوئے جاوید کا کہنا تھا 'کشمیر کے لگ بھگ تمام اضلاع میں ہمارے آؤٹ لیٹ چل رہے ہیں- مزید یہ کہ جموں اور لداخ کے دونوں اضلاع میں ایک ایک آؤٹ لیٹ موجود ہیں- اس کےعلاوہ دہلی اور بنگلور میں بھی 'پارسا ریسٹورنٹ' کے آوٹ لیٹ چل رہے اورامید ہے کہ مسقبل میں ملک بھر میں بھی یہ جال بچھ جائے گا۔ جاوید پارسا اپنی اس منفرد پہل سے خوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'میں خوش ہوں کہ کامیابی کی منازل پربتدریج چڑھ رہا ہوں، اتار چڑھاؤ تجارت کا ایک حصہ ہے، اس میں مختلف قسم کے لوگوں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے کچھ لوگ سست ہوتے ہیں۔ کام صحیح ہو اور حوصلہ ہو تو کامیابی ضرور مقدر بن جاتی ہے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کشمیر میں عام تاثر ہے کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہے، کے جواب میں جاوید پارسا نے کہا 'یہ بات کسی حد تک صحیح ہے کہ کشمیر میں کوئی کاروبار شروع کرنا مشکل ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہاں ایسے بے شمار شعبے ہیں جن میں کام کر کے اپنا نام اور روزگار کمایا جا سکتا ہے، یہاں بھی زندگی کے تمام تر شعبوں میں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن سے نئی نئی ضروریات پیدا ہو رہی ہیں، ان شعبوں میں عزیمت کے جذبے سے کام کرنے کی کافی گنجائش ہے۔وادی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا باہر جا کر کام کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا: 'میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں کا باہر جا کر کام کرنا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ اس طرح وہ نہ صرف نیا تجربہ اور نظریہ حاصل کرتے ہیں بلکہ کیا کرنا اور کیسے کرنا ہے، اس سے بھی واقف ہوجاتے ہیں۔'وادی کشمیر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے نام اپنے پیغام میں جاوید پارسا کہتے ہیں 'اپنے سماج کی خدمت کیلئے کچھ الگ کرنے کا حوصلہ پیدا کریں، جن شعبوں پر کام نہیں ہوا ہے ان پر کام کریں اور سب سے بڑھ کر اپنے ساتھ دوسرے بے روزگار نوجوانوں کو بھی روزگار فراہم کریں۔

جاوید اقبال پارسا نے دہرادون میں معروف نجی یونیورسٹی لولی پروفیشنل یونیورسٹی سے ڈیزائنگ میں انڈر گریجویٹ کورس کرنے کے بعد حیدرآباد میں قائم ملک کی واحد ارود یونیورسٹی 'مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی' سے ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن (ایم بی اے) کی ڈگری حاصل کی ہے۔ فوڈ آؤٹ لیٹ میں کامیابی کی بنا پر انہیں سال 2015 میں ایک غیر سرکاری تنظیم جموں و کشمیر انوویٹرس فورم نے 'جے کے یوتھ آئیکون' ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا ہے۔