دونوں ہاتھوں سے محروم مگر حوصلے کی مثال بنے ارشاد

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 28-10-2022
دونوں ہاتھوں سے محروم مگر حوصلے کی مثال بنے ارشاد
دونوں ہاتھوں سے محروم مگر حوصلے کی مثال بنے ارشاد

 

 

آواز دی وائس، سری نگر

جو خصوصی صلاحیت والے انسان ہوتے ہیں، ان میں الگ الگ قسم کی خوبیاں ہوتی ہیں، وہ کچھ ایسا کر گزرتے ہیں، جو عام انسان بھی نہیں کرپاتے ہیں۔ ایسے ہی خصوصی صلاحیت والے انسان ارشاد احمد گنائی ہیں۔ جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع کپواڑہ کے لولاب کے گاؤں سیور سے تعلق رکھنے والے 23 سالہ ارشاد احمد گنائی پیدائشی طور پر بے بازو ہیں۔

ہلال احمد کی ایک رپورٹ کے مطابق  لکھنے پڑھنے کا کام ارشاد احمد گنائی اپنے پیروں کی مدد سے کرتے ہیں۔ وہ پیرکے انگوٹھے کے درمیان ایک قلم رکھ کرلکھتے ہیں۔ ان کی والدہ حنیفہ بیگم کہتی ہیں کہ جب میں نے اسے جنم دیا تو دو دنوں تک اس بارے میں نہیں بتایا گیا کہ ارشاد کو  بازو نہیں ہے۔ جب مجھ کو پتہ چلا تو میں بہت روئی تھی۔ پھر رشتہ داروں نے مجھے تسلی دی تھی، اگرچہ  میں پریشان تھی کہ اس کا مستقبل کیسا ہوگا۔

ارشا احمد گنائی کے گھر والوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اسکول جا سکتا ہے۔ ارشاد بتاتے ہیں کہ جب میں چھ سال کا تھا تو میرے بڑے بھائی نے مجھےحروف تہجی سکھائی۔  پھر میں نے ایک سادہ سلیٹ پر مہینوں کی مشقت کے بعد لکھنا پڑھنا سیکھ لیا۔ایک دن ایک استاد عتیق اللہ شاہ ہمارے گاؤں سے گزرے اور مجھے دیکھا۔

awazthevoice

والدہ کرتی ہیں مدد

 انہوں نے میرے بارےمیں میرے اہل خانہ سے بات کی اور بعد میں اسکول جانے میں میری مدد کی۔  وہ روزانہ میرے گھر آتے اور مجھے اپنے ساتھ اسکول لے جانے لگے۔ ارشاد احمد گنائی نے بارہویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔اپنے خاندان کی مالی مشکلات کی وجہ سے وہ مزید تعلیم کے لیے داخلہ نہیں لے سکے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 2014میں جب میں نے بارہویں جماعت کے امتحان میں شرکت کی تو مجھے اپنے ساتھ کسی مددگار کو لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ میں اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکا۔

 میں نے باہر کے کالج میں پروفیشنل کورس میں داخلہ لیا لیکن میری صحت کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے والدین نے مجھے جانے نہیں دیا۔ ارشاد احمد گنائی نے بعد میں کمپیوٹر کا کورس کیا جو اس کے لیے بہت مشکل تھا۔ اس نے مین بازار کپواڑہ میں واقع ایک کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ میں کمپیوٹر سائنس میں ایک سالہ ڈپلومہ کے لیے داخلہ لیا۔ وہ کمپوٹر ٹیچرصباحت میڈم کو بہت ہی شدت سے یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں ان کا شکرگزار ہوں ۔انہوں نے کمپیوٹر سیکھنے میں میری مدد کی تھی۔

awazthevoice

پیروں سے موبائل کی مرمت

کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاون سے قبل تک ارشاد نے سوگام لولاب میں موبائل کی مرمت کی دکان چلائی تاہم اس سے انہیں بہت زیادہ منافع نہیں ہوا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والدین بیمار رہتے ہیں کہ جب کہ پانچ افراد پر مشتمل خاندان ہے۔ والدین میرے لیے  کام کرنے سے قاصر ہیں جس سے میرا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے۔ میں پریشان ہوں کہ مستقبل میں میرے ساتھ کیا ہو گا۔ اپنے پیر سے ٹائپ کرنے کے باوجود، ان کی ٹائپنگ کی رفتار دس الفاظ فی منٹ ہے۔  وہ موبائل مکینک بھی ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ کوویڈ 19 اور لاک ڈاؤن کے بعد میں نے سری نگر شہر کے خانیار میں موبائل مرمت کرنے والے کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔مجھے اپنے پیر کے ساتھ کام کرنا کوئی مشکل نہیں لگتا، جو کام دوسرے لوگ اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں، وہیں میں پیر سےکرتا ہوں ۔  ارشاد احمد گنائی نے مدد کے لیے سبھی  اہلکاروں کے دروازےکھٹکھٹائے لیکن کسی نے ان کی بات نہیں سنی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ  گورنر اور ضلعی انتظامیہ سے میری باقاعدہ درخواستوں کے باوجود کوئی مدد نہیں ملی۔

 مجھے یقین ہے کہ اگر مجھے حکام سے کچھ مدد مل جائے تو میں اپنی صلاحیتوں کو آگے بڑھا سکتا ہوں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر اس کے گھر میں اس کی مالی حالت اچھی ہوتی تو وہ نجی ملازمت کا انتخاب نہ کرتے۔ وہ کہتے ہیں  کہ مجھے اپنے خاندان کی کفالت کے لیےکام کرنا پڑتا ہے۔ مجھے اپنی دوائی کے لیےتقریباً 3 سے 4 ہزار روپے ماہانہ درکار ہیں۔  میں اس رقم کا خود بندوبست کرتا ہوں۔

awazthevoice

لیپ ٹاپ بھی پیروں کی مدد سے چلاتے ہیں

ارشاد احمد گنائی سرکاری نوکری کے لیے بے چین ہیں۔اس کے دو بڑے بھائی والدین سے الگ رہ رہے ہیں۔ ان کی والدہ حنیفہ کہتی ہیں کہ بہت سارے میڈیا والے ہمارے گھرکہانیوں کے لیے آئے ہیں۔  لیکن اس سے ہماری کوئی مدد نہیں ہوئی۔ ہم نے انتظامیہ سے مدد کرنے کی اپیل کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ جب  ارشاد احمد گنائی کام پر نکلتا ہے تو وہ اس کے بارے میں غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں۔  ہمارے بعد اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔اس کی دونوں بہنیں اس کے کپڑے بدلتی ہیں اور وہ اسے نہلاتی بھی ہیں۔ لیکن ان دونوں کی جلد ہی شادی ہو جائے گی۔ اس کے دو بڑے بھائی پہلے ہی الگ رہ رہے ہیں۔ اسے گھر کے سارے کام کرنے پڑتے ہیں۔ اگر اسے نوکری مل گئی تو میں آسانی سے مر سکتی ہوں۔