مہرالنسا: ڈانس کلب کی پہلی خاتون باؤنسر

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 11-08-2021
https://www.urdu.awazthevoice.in/upload/news/1628683919ba8338c0-f9b9-11eb-b7f7-21548cc41856.jpg
https://www.urdu.awazthevoice.in/upload/news/1628683919ba8338c0-f9b9-11eb-b7f7-21548cc41856.jpg

 

 

 آواز دی وائس، نئی دہلی

خاتون کسی بھی میدان میں اب مردوں سے کم نہیں ہیں، اب وہ ہر میدان میں مردوں کے شانہ بہ شانہ قدم سے قدم سے ملاکر چلتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔

رکشا چلانے سے لے کر ہوائی جہاز اڑانے تک خاتون مردوں کی طرح عزم و استقال سے پر کام کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

وہیں زندگی کے دیگر شعبہ جات میں بھی خواتین کی حصہ داری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

آئیے خاتون کی ہمت اور استقلال کی ایک اور کہانی سنتے ہیں، یہ کہانی ہے کہ نئی دہلی کی باؤنسر مہرالنسا کی ہے، جس کے چرچے آج ہر زبان پر ہیں۔

اگرآپ یہ سوچتے ہیں ڈانس کلب میں باؤنسر کا کام صرف مردوں کا ہے تو آج آپ کو اپنی سوچ بدل لینی چاہئے کیوں کہ ہم ایک ایسی خاتون کے بارے میں آپ کو بتانے جا رہے ہیں جو ہندوستان کی ایک معروف باؤنسر ہیں۔

ایک مسلمان خاندان سے تعلق رکھنے والی 42 سالہ مہرالنسا نائٹ کلب کی لڑائیوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین گاہکوں پر نظر سخت نگاہ رکھنے کا کام کرتی ہیں۔

حالاں کہ مہرالنسا سے مل کر ایسا نہیں لگتا ہے کہ وہ نائٹ کلب میں باؤنسر ہیں، کیوں کہ وہ نہایت پرسکون انداز میں گفتگو کرتی ہیں۔

مہرالنساء کو تین بھائی اور چار بہنیں ہیں، اب مہرالنساء کی ایک اور بہن بھی ان کے نقش قدم پر چل پڑی ہیں۔

خیال رہے کہ مہرالنساء کا تعلق ریاست اترپردیش کے سہارنپور ضلع سے ہے۔ وہ پیشہ ورانہ طور پر سنہ2004 باؤنسر کا کام کر رہی ہیں، حالاں کہ دسویں جب وہ دسویں جماعت میں تھی، جبھی سے انھوں باؤنسر کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔

تاہم ابتداً میں اسے باؤنسر کے بجائے سکیورٹی گارڈ کہا جاتاتھا، جس کی انھوں نے سخت مخالفت کی، اس کے بعد اسے باؤنسر تسلیم کیا گیا۔

یہی وجہ ہے کہ مہرالنساءنے ایک انٹرویو کے ذیل میں کہا کہ میں ہندوستان کی پہلی خاتون باؤنسر ہوں۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس درجہ کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے سخت جدوجہد کی۔ وہ کہتی ہیں کہ مجھے اس وقت بہت غصہ آتا تھا جب مجھے کوئی سکیورٹی گارڈ کہا جاتا تھا۔ تاہم سخت جدوجہد کے بعد مجھے ملک کی پہلی خاتون باؤنسر بننے کا درجہ ملا۔

تاہم ان کے والد ان کے کام سے سخت ناراض تھے۔ مقامی لوگوں کے طعنے سن کر ان کے والد اسے ہر وقت نوکری چھوڑنے کے لیے کہتے تھے مگر انھوں نے اہل خانہ کے رویہ کو خاموشی سے نظر انداز کرتی رہیں۔

awazurdu

مہرالنسا مستقل جدو جہد کرتی رہیں اور وقت نے ایسا موڑ لیا ہے کہ ان کے اہل خانہ سے لوگ کہتے ہیں کہ اگر مہرالنساآپ کی بیٹی ہے تو آپ کو اپنی بیٹی پر فخر ہونی چاہئے۔

مہرالنساء نائٹ کلب میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ وہ آزادانہ طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ انھوں نے پریانکا چوپڑا، پریتی زنٹا ، ودیا بالن وغیرہ جیسی مشہور شخصیات کے یہاں ہونے والی تقریبات میں سیکورٹی فراہم کرنے کے لیے آزادانہ ذمہ داریاں بھی سنبھالیں ہیں۔

وہ 40 ہزار سے 50 ہزار ماہانہ کماتی ہیں۔جس سے ان کے روز مرہ کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔

کورونا وائرس کی وجہ سے ان کا کام بہت برُی طرح متاثر ہوا ہے، جس کی وجہ سے انہیں کئی طرح پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

فی الوقت مہرالنسان اپنے ضعیف والدین ، ​​دو بہنوں اور اپنی بڑی بہن کے تین بچوں کے ساتھ نئی دہلی کے خان پور کے علاقے کی کچی آبادی میں رہتی ہیں۔

اس کی چھوٹی بہن ترنم اب خاندان کی اکلوتی کمائی ہے جس نے ایک پرائیویٹ فرم میں اکاؤنٹنگ کی نوکری لی ہے۔

awazurdu

وبائی امراض کے دوران انہیں مختلف جگہوں سے کچھ تعاون ملے، جس سے ان کی ضرورتیں پوری ہوئیں۔اس کے علاوہ رواں برس خواتین کے عالمی دن کے موقع پر دہلی کمیشن برائے خواتین کی جانب سے ایک ایوارڈ اور 10 ہزار روپے کا اعزازیہ بھی شامل ہے۔

مہرالنساء سیکیورٹی انڈسٹری میں ایک مشہور نام ہے ، ہزاروں خواتین باؤنسرز جو اس صنف سے متعلق فوائد کے لیے انڈسٹری میں شامل ہوئیں وہ وبائی مرض سے تباہ ہو گئیں۔

awazurdu

خواتین باؤنسرز کی بڑھتی ہوئی ضرورت جو کہ خواتین کی ریسٹورانٹ اور باروں میں حفاظت کرتی ہے۔

لاک ڈاؤن اور سخت پابندیوں ایسی جگہیں کھل رہی ہیں، جس کی وجہ سے ان کا کام بے حد متاثر ہو ا ہے۔