باحجاب سیدہ سلویٰ فاطمہ کی بلند پرواز

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 22-04-2022
 باحجاب سیدہ سلویٰ فاطمہ کی بلند پرواز
باحجاب سیدہ سلویٰ فاطمہ کی بلند پرواز

 

 

 رتنا چوٹرانی،حیدرآباد

ہندوستانی خواتین کو جن پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہےان میں بیشتر داخلی ہیں۔ یہاں کی خواتین کا پورا ڈی این اے ہی دوہری شناخت والا ہے۔ جب تک وہ گھر میں ہوتی ہے، وہ ایک عام ہندوستانی خاتون کی طرح رہتی ہے، مگر جیسے ہی وہ اپنے پیشے کے حساب سے باہر جاتی ہے تو وہاں اس کا کردار الگ بن جاتا ہے۔

یقیناً ہندوستانی خواتین مشکلات سے گھری ہوئی ہیں مگروہ انہی مشکلات کو چیلنج کرکے گھر کی چہار دیواری سے نکل رہی ہیں۔ یہ خواتین مستقبل میں دوسری خواتین کے لیے امید کی کرن بن رہی ہیں۔ یہاں ایک ایسی خاتون کی کہانی ہے جو تمام تر مشکلات کے باوجود ایک کامیاب پائلٹ بن گئیں۔ایک دہائی قبل ایک نانبائی کارکن کی بیٹی نے ایک تقریب میں کہا تھا کہ وہ پائلٹ بننا چاہتی ہے۔ اس وقت کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ چھوٹی سی لڑکی اپنےخواب کو حقیقت میں بدل دے گی لیکن آج یہ باحجاب خاتون سیدہ سلویٰ فاطمہ اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرچکی ہیں، یعنی وہ ایک پائلٹ بن چکی ہیں۔ جہاں وہ کامیاب شادی شدہ زندگی گزار رہی ہیں، وہیں وہ کامیابی کے ساتھ براعظموں کا سفر بھی کر رہی ہیں۔

سیدہ سلویٰ فاطمہ کی پیدائش ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں ہوئی۔ روایتی طور پر مردوں کے زیر تسلط پیشے میں کیپٹن سیدہ سلویٰ فاطمہ واحد باحجاب خاتون ہیں۔ وہ کمرشیل مسافر ایئربس 320 کی کمانڈ کرنے والی اب تک کی کم عمر ترین خاتون ہیں۔ سیدہ سلویٰ فاطمہ کی عمراس وقت30 سال ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے انہیں سماجی اور مالی مشکلات کا بہت زیادہ سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ ان کی مادری زبان اردو ہے، اس لیے انہیں زبان کی رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑا، تاہم انہوں نے تمام مشکلات پر قابو پالیا۔ نانبائی کے یہاں پیدا ہونے والے ایک معمولی گھرانے سے تعلق رکھنے والی سیدہ سلویٰ فاطمہ نے پائلٹ بننے کا خواب دیکھا توان کے اس خواب کا بہت زیادہ مذاق اڑایا گیا۔

تاہم ان کی محنت اورلگن نےانہیں ایک ناقابل یقین سفرتک پہنچنے میں مدد کی۔ جب انہیں مسافرایئربس 320 کی کمشریل ٹریننگ کا لائسنس ملا تو گویا وہ ان کی پہلی کامیابی تھی۔ ایک غریب لڑکی کا جہاز اُڑانے کے لیے کمرشل لائسنس حاصل کرنے کا سفر ہموار نہیں تھا کیونکہ انہیں اپنی زندگی کی منزل حاصل کرنے کے لیے کئی رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑا۔ انہوں نے آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹی عمرسے ان میں پرواز کرنے کی خواہش تھی۔ جہاں اس کی نوکری کے فوائد ہیں، وہیں بلندی پر اُڑنا بھی انہیں اچھا لگتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کوئی ایسا لمحہ زندگی میں آیا تھا جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پائلٹ بننا چاہتی ہیں؟

انہوں نے جواب دیا کہ دراصل، میں چھوٹی عمر سے ہی آسمان کی طرف دیکھا کرتی تھی، اور مجھے یاد ہے کہ میں آسمان کو من ہی من میں چھو کر بادلوں میں سے اڑنا چاہتی تھی! میں مختلف طیاروں کی تصویریں اکٹھا کرتی تھی لیکن مگرلوگ ان کے خواب کا مذاق اُڑایا کرتے تھے۔ اس خواب کو دیکھتے ہوئے ان کے والدین نے سیدہ سلویٰ فاطمہ کو انجینئرنگ میں داخلہ لینے کا مشورہ دیا۔ بارہویں جماعت پاس کرنے کے بعد انہوں نے ایک اردو روزنامہ کے ذریعہ منعقدہ انجینئرنگ کے داخلےکی تیاری کرانے والی کوچنگ میں داخلہ لیا۔

کوچنگ کے دوران ایک پروگرام میں اردو روزنامہ کے ایڈیٹر زاہد علی خان نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا بننا چاہتی ہے۔انہوں نے فوراً جواب دیا'پائلٹ'۔ زاہد علی خان نے سیدہ سلویٰ فاطمہ کے عزم و حوصلے کو دیکھتے ہوئے ان کی مدد کرنی چاہی۔انہوں نے مختلف طریقوں سے ان کی رہنمائی کی بالآخرسیدہ سلویٰ فاطمہ نے سنہ 2007 آندھرا پردیش ایوی ایشن اکیڈمی (Andhra Pradesh Aviation Academy) میں داخلہ لےلیا۔ سیدہ سلویٰ فاطمہ ناکامیوں کے باوجود ہمیشہ بےخوف رہیں اورآخر کارانہوں نےاپنی تربیت مکمل کر لی۔

سیدہ سلویٰ فاطمہ نے سیسنا 152 فلائٹ میں 200 گھنٹے کی پرواز اور 123 گھنٹے کی سولو فلائٹ پروزا کی۔ سیدہ سلویٰ فاطمہ کہتی ہیں کہ میری زندگی کا بہترین لمحہ وہ تھا جب میں نے پہلی بار پرواز کی تھی۔ اس کے علاوہ جب بھی میں مسافر Airbus 320 کو کمانڈ کرتی ہوں تو مجھ کو ایک عجیب قسم کا احساس ہوتا ہے، ایک الگ سی خوشی ملتی ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے کام کا آپ کا پسندیدہ حصہ کیا ہے؟ سیدہ سلویٰ فاطمہ نے جواب دیا کہ میرا یونیفارم پہننا، سفر کرنا، فضا میں اڑنا بڑا مجھ کو بڑا دلچسپ لگتا ہے۔ انہوں نے ہندوستان اور بیرون ملک تربیت کے اپنے پورے کورس کے دوران حجاب پہن رکھا تھا۔ سیدہ سلویٰ فاطمہ کہتی ہیں کہ وہ یونیفارم کے اوپرحجاب پہنتی تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حجاب کی وجہ سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ درحقیقت بحرین میں گلف ایوی ایشن اکیڈمی(Gulf Aviation Academy) میں ان کی بہت زیادہ تعریف کی گئی اور ان کی باحجاب یونیفارم والی تصویرایک میگزین میں شائع کی گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ کپڑے نہیں بلکہ تعلیم اور قابلیت کی علامت ہے جس سے مدد ملتی ہے چاہے وہ ہوا بازی ہو یا کوئی اور پیشہ۔ انہوں نے کہا کہ آپ کا کام ہی آپ کی اہلیت کا ثبوت ہے، کسی کو کچھ ثابت کرکے دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔آپ کوجوپسند ہے، آپ اس کو کریں، پھرآپ کو کامیابی ملے گی۔

سیدہ سلویٰ فاطمہ نے2013 میں اپنا کمرشل پائلٹ لائسنس حاصل کیا تاہم اس وقت انہیں یہ احساس ہوا کہ انہیں بڑے ہوائی جہاز اڑانے کے قابل ہونے کے لیے ملٹی انجن ٹریننگ اور ٹائپ ریٹنگ کےلیے بڑے رقم کی ضرورت ہے۔ اس وقت وہ 24 سال کی تھیں اور اس کے والدین نے انہیں شادی کرنے کامشورہ دیا۔انہوں نے والدین کے مشورہ کے بعد شادی کرلی۔ سیدہ سلویٰ فاطمہ کہتی ہیں کہ میرے پاس کوئی مالیاتی آپشن نظر نہیں آرہا تھا اس لیے مجھ کو شادی کرنی پڑی۔ جب وہ اپنی فیملی لائف شروع کرچکی تھی، حکومت تلنگانہ نے ان کی ملٹی انجن ٹریننگ اور ٹائپ ریٹنگ کے لیے 36 لاکھ روپے کی مالی امداد کا اعلان کیا۔

پائلٹ سیدہ سلوا فاطمہ کو 2015 میں تلنگانہ حکومت کی اسکالرشپ ملی تھی اور وہ بقیہ تربیت مکمل کرنے میں کامیاب ہوگئیں اور فروری 2019 میں انڈیگو میں شریک پائلٹ کے طور پر شامل ہوگئیں۔ جب انہوں نے اپنے پہلے بچے کو جنم دیا تولوگ اس سے پوچھنے لگے کہ کیا وہ اب بھی ہوا بازی میں اپنا کیریئر جاری رکھے گی۔

سید سلویٰ فاطمہ نے اس موقع پرجواب دیا کہ انہوں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے اتنا لمبا عرصہ صرف کیا ہے، وہ اب پیچھے نہیں ہٹے گی۔ ایک سال انتظار کرنے کے بعد انہوں نے اپنی ملٹی انجن ٹریننگ کے لیے تلنگانہ ایوی ایشن اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی لیکن اس وقت ہوائی جہاز ان کے لیے دستیاب نہیں تھا۔ جب حکومت نے رقم جی ایم آرایوی ایشن اکیڈمی کو منتقل کی اور وہ ٹریننگ شروع کرنے ہی والی تھی کہ حادثے کی وجہ سے طیارے کو گراؤنڈ پر روک دیا گیا۔ تمام تر مشکلات کے باوجود انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور تلنگانہ حکومت سے اپیل کی کہ وہ اسے تربیت کے لیے بیرون ملک بھیج دیں، حکومت نے ایسا ہی کیا، انہوں نےبحرین میں ٹریننگ حاصل کی۔ اب وہ پائلٹ کے طور پر انڈیگو میں کام کر رہی ہیں لیکن فی الوقت وہ حاملہ ہیں، اس لیے انہوں نے چھٹی لے رکھی ہے۔

دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد وہ پھرسےاپنا کام جاری رکھنے کا عزم رکھتی ہیں۔ ہوا بازی جیسے مرد کے زیر تسلط پیشے میں خاتون ہونا کیسا ہے؟ کیا آپ کو کسی امتیاز کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اگر ایسا ہے تو آپ نے اس سے کیسے نمٹا؟انہوں نے جواب دیا کہ ایک خاتون کے طور پر میں نے بھی دوسری خاتون کی طرح مختلف چیلنجز کا سامنا کیا ہے،یہ وہ چلینجز ہیں جواس پیشے سے جڑی ہوئی خاتون کو کرنا پڑتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ کام پر توجہ مرکوز رکھنا ہی اہم رہا ہےاور پیشہ ورانہ مہارت کے احساس نے میری مدد کی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ خواتین اپنے آپ کو پہچانیں، کبھی بھی خود کو کمترنہ سمجھیں۔ جوبھی کام کریں، اس کو بہترین انداز میں کریں۔ اسی میں کی کامیابی چھپی ہوئی ہے۔ اگر آپ خود پر بھروسہ نہیں کریں گی تو کوئی اور کیسے آپ پر بھروسہ کر سکتا ہے۔