عبدالحمید بھٹ: جس کے اندر ہے شجرکاری کا جنون

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 20-07-2021
عبدالحمید بھٹ
عبدالحمید بھٹ

 

 

احسان فاضلی، آواز دی وائس، سری نگر

ترقی کی تیز رفتاری نے ہمیں جہاں جدید تکنالوجی پر انحصار بڑھا دیا ہے، وہیں شجرکاری اور ماحولیات کی جانب عدم دلچسپی ایک خطرے کا باعث بنتی جا رہی ہے۔

بڑی تعداد میں کمپنیاں کارپوریٹ سوشل ریسپانسٹیبلٹی (سی ایس آر) سماجی فلاح و بہبود کے لیے اپنے منافے کا ایک حصہ خرچ کرتی ہیں۔

تاہم جموں و کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کے عبدالحمید بھٹ نے ایک الگ ہی ہذف اپنی زندگی میں لے لیا ہے۔انھوں نے آئندہ دس برسوں میں دس لاکھ درختوں کو لگانے کا ہدف لیا ہے۔

عبدالحمید بھٹ ایک آٹوموبائل ورکس شاپ کے مالک ہیں، انھوں نے اب تک 2.25 لاکھ درخت لگا دیے ہیں۔

عبدالحمید بھٹ کہتے ہیں کہ سنہ 2009 میں سرینگر ہوائی اڈے کے راستے میں دیکھا کہ حکومت کے ذریعہ لگائے گئے درخت سوکھنے لگے ہیں۔درخت لگانے کے بعد اس کی دیکھ بھال نہیں ہوئی ہے۔ اب وہ جلدی سوکھ جائیں گے، ان خیالات نے انہیں درخت کے تئیں پیار و محبت اور ان کی دیکھ ریکھ کا جذبہ پیدا کر دیا۔اسی برس انھوں نے 25000 درخت لگائے۔

عبدالحمید بھٹ نے آواز دی وائس کو بتایا کہ مجھے ماحول اور فطرت سے بہت پیار ہے۔ ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کرنے والے عبدالحمید بھٹ کا تعلق ایک کسان خاندان سے ہیں۔ وہ بچپن سے ہی ماحول و فطرت سے پیار کرنے والے ہیں۔

حالانکہ انھوں نے اپنے معاش کے لیے آٹوموبائل ورک شاپ کا کام شروع کیا ، لکین قدرت سے ان کی دلچسپی میں کبھی کمی نہیں آئی ہے۔ سنہ 2009 سے وہ ہر سال فروری اور مارچ کے دوران کم از کم 25 ہزار درخت لگاتے ہیں۔

عبدالحمید بھٹ نے آواز ڈائس نے کہا کہ اس سال ہم نومبر دسمبر کے مہینے کے دوران 25 ہزار کے قریب بھی ہیں۔اس سال 50 ہزار درخت ضرور لگا لیں گے۔

عبدالحمید بھٹ نے مزید بتایا کہ انھوں نے آئندہ دس برسوں میں 10 لاکھ درخت لگانے کا ہذف لیا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا واساتذہ کو بھی اس مہم میں شامل کر رہے ہیں کہ ہر سال ایک لاکھ درخت لگائیں گے۔

اس کے لیے وہ حکومت سے تعاون کی اپیل کر رہے ہیں۔

 وہ عوامی سرگرمیوں والی جگہوں پر درخت لگاتے ہیں، مندروں ومسجدوں کے باہر اور دیگر مذہبی مقامات کی کھلی جگہوں پر درخت لگانا بھی وہ ضروری سمجھتے ہیں۔

عبدالحمید بھٹ نے ایک بیان میں کہا کہ شجرکاری کی مہم کے لئے انھوں نے کسی بھی قسم کا فنڈ بیرون ممالک سے نہیں وصول کیا ہے۔

انھوں نے اپنی شجرکاری کی مہم کا نام 'رحیم گرینس'(Rahim Greens) رکھا ہے۔اس کا مقصد لوگوں کو ماحولیات کے تئیں بیدار کرنا ہے۔

کیوں کہ درختوں سے انسان آکسیجن لیتے ہیں، جو ہماری زندگی کے لیے سب سے زیادہ ضروری شے ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی تمنا ہے کہ تمام لوگ دفتر سائکل سے جائیں۔

وہ خود سائکل کے ذریعہ لبمی لمبی دوری طے کر چکے ہیں۔ انھوں نے اب تک 172 کیلو میٹر کا لبما سفر بذریعہ سائکل کیا ہے۔

شجرکاری کے علاوہ وہ رفاہی کاموں میں بھی مصروف نظر آتے ہیں، اپنی والدہ کی وفات کے بعد انھوں نے مفت ایمبولینس سروس بھی شروع کی،جو سری نگر کے بٹامالو علاقے میں چلتی ہے۔

عبدالحمید بھٹ کے کام کی قومی اور بین الاقوامی سطح کی شناخت مل چکی ہے، وہ پانچ الگ الگ یونیورسٹیوں میں ویزیٹنگ لیکچرر کے طور پر شرکت کرچکے ہیں۔

انھوں نے جنوبی کوریا ، ملیشیا، امریکہ وغیرہ کی کانفرنس شرکت کی ہے۔۔۔ اس کے علاوہ وہ مقامی یونیورسٹیوں کے مختلف پرگراموں میں شرکت کرتے رہتے ہیں، مثلاً کشمیر یونیورسٹی، اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، این آئی ٹی سری نگر، آئی ایم پی اے وغیرہ کے پروگرام میں حصہ لے شجرکاری اور ماحولیات کے تعلق سے لوگوں کو بیدار کرتے رہتے ہیں۔

عبدالحمید بھٹ اپنے کام کی بدولت ملکی اور غیر ملکی سطح پر شہرت رکھتے ہیں اور جہاں بھی انہیں موقع ملتا ہے، وہاں وہ شجرکاری اور ماحولیات کے تعلق سے لوگوں کو بیدار کرتے رہتے ہیں، تاکہ زندگی کی سانس سے جڑی ہوئی سب سے اہم چیز کے تئیں لوگ بے خبر نہ رہیں۔