حوصلہ کی کہانی : لوہار کی بیٹی بنے گی ڈاکٹر

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-10-2021
حوصلہ کی کہانی : لوہار کی بیٹی بنے گی ڈاکٹر
حوصلہ کی کہانی : لوہار کی بیٹی بنے گی ڈاکٹر

 

 

بریلی : خواب ان کے سچ ہوتے ہیں جو ان کو دیکھنے کی ہمت رکھتے ہیں۔آپ کی ہمت اور محنت آپ کو منزل پر پہنچا تی ہیں۔ اگر آپ میں لگن ہے اور جذبہ ہے تو آپ کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔

اس کی زندہ مثال ایک  لوہار کی بیٹی فرحت اصغر ہیں۔جنہوں نے بہت کچھ برداشت کیا ،طعنہ سنے اور مذاق بنی مگر انہوں نے اپنی منزل سے نگاہ نہیں ہٹائی ۔جس کے سبب آج لوہار کی بیٹی ڈاکٹر بننے کی جانب پہلا قدم اٹھا چکی ہے۔ اس نے ثابت کردیا کہ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ معاشرہ آپ کو طعنہ دے رہا ہے ، چاہے لوگ آپ کو کتنا ہی بدنام کردیں ، لیکن آپ کو اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش کبھی نہیں چھوڑنی چاہیے۔

فرحت اصغر جو کہ اترپردیش کے بریلی کے علی احمد کا تالاب علاقے میں رہتی ہیں ، ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان کے والد محمد اصغر لوہار تھے۔ فرحت بچپن سے ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ 

تاہم اپنے خاندان کی کمزور مالی حالت کے پیش نظر اس نے یہ خواب اپنے ذہن میں رکھا۔ اس کے ذہن میں اکثر یہ خیالات آتے تھے کہ اگر میں نے اپنے خواب کے بارے میں سب کو بتا دیا تو کیا ہوگا؟ لوگ کیا کہیں گے؟

در حقیقت ، جب بھی فرحت اپنے خوابوں کا ذکر اپنے رشتہ داروں سے کیا تو وہ اسے یہ کہہ کر خاموش کر دیتے تھے کہ 'ایم بی بی ایس تعلیم پیسوں والوں کے لیے ہے ، آپ کے والد کے لیے اس کی قیمت برداشت کرنا ممکن نہیں ہوگی۔

 تاہم لوگوں کے اس رویہ کے باوجود فرحت نے خواب دیکھنا نہیں چھوڑا۔ وہ محنت کرتی رہی۔ پھر اس نے دسویں اور بارہویں جماعت میں ٹاپ کیا۔ اس سے اس کے خوابوں کو مزید پر لگ گئے ۔

فرحت نے تین سال تک سخت محنت کی اور اچھی تیاری کرنے کے بعد ، وہ گورکھپور ایمس میں ایم بی بی ایس سیٹ کے لیے منتخب ہو گئی۔ اب اس کا خواب ڈاکٹر بننا اور معاشرے کی خدمت کرنا ہے۔ اس کے لیے وہ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز یعنی ایمس ، گورکھپور میں پورے دل سے ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

 فرحت اپنی کامیابی کا سارا کریڈٹ اپنے لوہار والد محمد اصغر کو دیا۔ وہ کہتی ہے کہ میں آج جہاں بھی ہوں ، میں صرف اپنے والد کی وجہ سے ہوں۔ وہ شاید میری فیس کا بندوبست نہیں کر سکتے ، لیکن وہ ہمیشہ میری پڑھائی سے متعلق کچھ سامان لاتے تھے۔

 میرے والد کی محنت اور یقین نے میری حوصلہ افزائی کی۔ اس کے بعد میں نے محنت سے پڑھائی کی ۔ سخت محنت کی ، اپنا سو فیصد دیا۔ جہاں اس نے کوچنگ بھی کی ، اس کے ذہانت کی بنیاد پر اسکالرشپ حاصل کی۔ اس سے ایم بی بی ایس پڑھنے کی لاگت بھی کم ہوئی۔

 فرحت کا ڈاکٹر بننے کا خواب جلد پورا ہوگا۔ لیکن اب اس نے ایک اور نیا خواب بھی دیکھا ہے۔ اس کا خواب ہے کہ وہ اپنے والد کے نام پر اسپتال اور کوچنگ کھولے۔ یہاں وہ ان لوگوں کو سہولیات فراہم کرنا چاہتی ہے جو مہنگے اخراجات کے خوف سے بڑے اسپتالوں اور کوچنگ سے روکتے ہیں۔ اس نئے اسپتال اور کوچنگ میں لوگ اپنی سہولت کے مطابق فیس ادا کر کے علاج یا تعلیم حاصل کر سکیں گے۔