صابر حسین،نئی دہلی
اگر آپ سے یہ کہا جائے کہ ایک ڈاکٹر ہے، جس کی فیس محض چپس یا کرکرے کے ایک چھوٹے پیکٹ کے برابر ہے تو شاید آپ یقین نہ کریں۔اگرچہ یہ بات سچ ہے۔ جنوبی ہندوستان کی ریاست آندھرا پردیش کے ضلع کڈپہ میں بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے، ایک نوجوان خاتون ڈاکٹر نوری پروین اپنےعلاقے کے غریبوں کے لیےعلاج قابل رسائی بنانے میں اہم کردار ادا کرہی ہیں۔
ڈاکٹرنوری پروین نے 8 سال قبل ضلع کڈپہ کے فاطمہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سے طب کی تعلیم حاصل کی۔ کڈپہ ان کے آبائی شہر وجے باڑہ سے تقریباً 400 کلومیٹرکے فاصلے پر واقع ہے۔ آج وہ اسی شہرکڈپہ میں سستا علاج فراہم کرکےایک مثالی ڈاکٹر بن گئی ہیں۔ان کا مقصد مادی اور اقتصادی طور پر پسماندہ افراد کی صحت کی دیکھ بھال کرنا ہے۔
ان کی کہانی غیر معمولی ہے۔ وہ ایک نوجوان خاتون ہیں۔ اپنے گھر سے دور رہتی ہیں اور اپنے آپ کو پسماندہ لوگوں کی خدمت میں مصروف رکھے ہوئے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ بہت خوش قسمت ہیں کہ کیوں کہ ان کے والدین بہت سمجھدار ہیں۔ ڈاکٹر نوری پروین نے کہا کہ میرے والد مجھ پر بہت اعتماد کرتے ہیں۔ یہ اعتماد میری سب سے بڑی دولت ہے۔ یہی میری کل دنیا ہےاور یہی وہ ایندھن ہے جو مجھے اپنے کام کرنے پر اکساتی رہتی ہے۔ ڈاکٹر نوری پروین کی عمر 29 سال ہے، انہوں نے مذکورہ خیالات کا اظہار آواز دی وائس سے کیا ہے۔
خیال رہے کہ فروری 2020 میں انہوں نے معاشی طور پر کمزور طبقوں کے لوگوں کے علاج کے لیے 5 لاکھ روپے کا قرض لیا اور کڈپہ کے ایک چھوٹے سے مارکیٹ میں ایک چھوٹا سا کلینک کھولا۔ان دنوں وہ ہر مریض سے صرف 10 روپے وصول کرتی تھی۔اگرچہ ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا کہ انہیں کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے اپنا کلینک بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا ،لیکن ایک ہفتہ بعد وبائی امراض کے درمیان ہی وہ پسماندہ افراد کی خدمت کے لیے واپس لوٹ آئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کڈپہ میں آٹھ سال گزارے ہیں۔ میں میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنے آئی تھی اور ایم بی بی ایس کرنے کے بعد میں نے یہاں رہنے کا فیصلہ کیا اور ان لوگوں کے لیے کچھ کرنے کا فیصلہ کیا جو اسپتال میں ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کے لیے کم از کم 200 روپے یا اس سے زیادہ ادا کرنے کے متحمل نہیں ہیں۔
مقامی لوگوں میں ابتدائی طور پر کچھ ہچکچاہٹ تھی جو ان کی قابلیت پر شک کرتے تھے کیونکہ انہوں نے صرف 10 روپے اپنی فیس رکھی تھی۔ کلینک کھولنے محض ایک سال بعد ڈاکٹر نوری پروین نے مارچ 2021 میں اپنے آپریشنز کے پیمانے کو بڑھایا اور بینک سے 20 لاکھ روپے مزید قرض لے کر تین منزلہ عمارت میں 25 بستر والا ایک اسپتال قائم کیا۔
اگرچہ اس اسپتال کے قیام کے بعد بھی انہوں نے اپنی فیس نہیں بڑھائی، اب بھی ان کے یہاں او پی ڈی کا چارج 10 روپے ہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ مجھے اسپتال کے لیے ماہانہ 50,000 روپے کا کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس اب آرتھوپیڈک، سرجری، اطفال اور امراض نسواں کے شعبے ہیں جن کے انچارج سینئر ڈاکٹر ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ کنسلٹنسی چارجز مریضوں سے 10 روپے جاری ہیں،چونکہ ان میں سے زیادہ تر اپنی دوائیں میرے اسپتال کے فارمیسی سے خریدتے ہیں اورٹیسٹ کے لیے ان کی لیب کا استعمال کرتے ہیں۔ اس سے مریض کو آسانی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر نوری پروین ایک مثالی ڈاکٹر
انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ اخراجات اس کے مریضوں کی پہنچ سے باہر نہ جائیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے اخراجات رعایتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک نارمل ڈیلیوری پر دوسرے اسپتالوں میں 25,000 سے 30,000 روپے کے درمیان خرچ آتا ہے لیکن ان کے یہاں صرف 15,000 روپے وصول کی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ اپنی ایم بی بی ایس کی ڈگری کے بعد، ڈاکٹر نوری نے کریٹیکل کیئر میڈیسن میں فیلوشپ کی اور کچھ عرصے کے لیے ایک کارپوریٹ اسپتال میں بھی کام کیا۔اگرچہ وہ اپنے لیے ایک مختلف کورس کر سکتی تھیں۔ تو کس چیز نے انہیں کلینک اور پھر اسپتال بنانے کی ترغیب دی؟
ڈاکٹر نوری پروین نے آوازدی وائس کو بتایا کہ میں ایک کارپوریٹ اسپتال میں کام کر رہی تھی،جب میں نے بطور ڈاکٹر گریجویشن کیا تھا اور وہیں میں نے دیکھا کہ غریبوں کے لیے اپنے علاج کے لیے رقم کا بندوبست کرنا کتنا مشکل ہے۔اس کے بعد انہوں نے کم مراعات والے لوگوں کی مدد کے لیے اپنے طور پر کچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔
ان کے اسپتال کے کنسلٹنٹ تمام سینئر ڈاکٹرز ہیں کیونکہ ان کی عمر کے ڈاکٹر اب بھی اپنا کیریئر بنانے، شادی کرنے یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ کنسلٹنٹس ان کے ساتھ مسلسل تعاون کرتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں علاج کے اخراجات کو کم رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ اگرچہ انہوں نے منصوبہ بند طریقے سے غریبوں کے علاج کے لیے میڈیکل کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، بلکہ یہ ارادہ اور منصوبہ انہوں نے بعد کے دنوں میں بنایا۔
ڈاکٹر نوری کہتی ہیں کہ ان کے والد ایک مخلص اور ہمدرد انسان ہیں، جن کا اثر ان کی شخصیت پر پڑا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میرے دادا نور محمد 1980 کی دہائی میں اپنے علاقے کے مقامی رہنما تھے، جو مسلسل لوگوں کی خدمت کرتے رہتے رہتے تھے۔ یہی حال میرے والد محمد مقبول کا بھی ہے،جو سماجی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں۔ میرے والد نے مجھے معاشرے کے لیے کچھ کرنے کی ترغیب دی۔ اور میں نے سوچا کہ اگر میں ڈاکٹر بن جاؤں تو میں پسماندہ طبقے کے لوگوں کی مدد کر سکتی ہوں۔
میں اپنا دل و جان سے اس کام میں لگی ہوئی ہوں۔ گویا اللہ نے مجھے اسی کام کے لیے پیدا کیا ہے۔ مریض میرے کلینک میں آنے لگے کیونکہ وہ میرے برتاؤ اور سلوک کو پسند کرتے تھے۔
اپنے مریضوں کے ساتھ ان کی وابستگی کا مطلب ہے کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت اپنے اسپتال میں گزارتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کڈپہ میں میرے کزن ہیں جن کے ساتھ میں کبھی کبھی چلی جاتی ہوں،لیکن عملی طور پر اسپتال میں ہی میں 24 گھنٹے گزارتی ہوں اور اسپتال میں ہی سو جاتی ہیں۔ میرے کزن اسپتال میں لیب اور فارمیسی چلانے میں مدد کرتے ہیں۔
انہوں نے اپنے مریضوں کے ساتھ بہت اچھا تعلق قائم کیا ہے۔ اگرچہ ان کے اسپتال میں سے بہت سے دوسرے ڈاکٹروں بھی علاج کرتے ہیں، مگر مریض ان سے ملنے پر اصرار کرتے ہیں۔ نوجوان خاتون ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ کچھ مریض اصرار کرتے ہیں کہ وہ مجھ ہی سے ملیں گےکیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اس سے وہ اچھا محسوس کرتے ہیں۔
وہ اپنے خاندان میں ڈاکٹر بننے والی پہلی خاتون ہیں۔ان کی چھوٹی بہن نے بھی ان کے نقش قدم پر چل کر میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور اب وہ جلدی امراض کی ڈاکٹر ہیں۔ جب کہ ان کا سب سے چھوٹا بھائی فی الوقت میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہا ہے، جو کہ ابھی گریجویشن میں ہے۔
ڈاکٹر نوری پروین کہتی ہیں کہ میرے والدین نے مجھے اور میرے بہن بھائیوں کا ساتھ دیا اور اسی وجہ سے ہم سب کے لیے ڈاکٹر بننا ممکن ہوسکا۔ میرے والد بہت ہی غیر معمولی آدمی ہیں۔ ہم سب کے لیے وہ بے حد عزیز ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ایک فارماسسٹ ہیں۔ ڈاکٹرنوری کا خاندان وجئے باڑہ میں اب بھی کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔ ڈاکٹر نوری پرویس اپنے پیشے سے بے حد محبت کرتی ہیں حالانکہ انہیں بعض اوقات ایسے مریضوں یا اٹینڈنٹ سے نمٹنا پڑتا ہے جو غیر معقول ہو تے ہیں اور انہیں پریشان بھی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر نوری پروین مریض کی تشخیص کرتی ہوئی
وہ کہتی ہیں کہ آپ سب کو مطمئن نہیں کر سکتے۔
وبائی مرض کی دوسری لہر کے برعکس تیسری لہر نے اسپتال کے آپریشنز کو زیادہ متاثر نہیں کیا۔ ڈاکٹر نوری نے ایک تنظیم قائم کی ہے، اس تنظیم کا نام ہے: انسپائرنگ ہیلتھی انڈیا(Inspiring Healthy India)۔ یہ تنظیم بچوں اور نوجوانوں کوتعلیم اورصحت سے متعلق بیدار کرنے کے لیے مختلف پروگرام کا انعقاد کرتی ہیں۔
اب بڑے پیمانے پران کے کام کو تسلیم کیا جانے لگا ہےاورانہیں کئی تنظیموں کی طرف سے سراہا بھی گیا ہے۔ آخرمیں انہوں نے کہا کہ میں اپنے کام سے مطمئن ہوں اورآگے بڑھ رہی ہوں۔ ہماری زندگی کا کیا فائدہ اگر وہ کسی کمزور اور بے سہارا کے کام نہ آسکے۔