جانیے! : افروز شاہ نے دنیا کی سب سے بڑی صفائی مہم میں مدارس کے بچوں کو کیسے بنایا حصہ دار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-09-2022
جانیے! : افروز شاہ نے دنیا کی  سب سے بڑی صفائی مہم میں مدارس کے بچوں کو کیسے بنایا حصہ دار
جانیے! : افروز شاہ نے دنیا کی سب سے بڑی صفائی مہم میں مدارس کے بچوں کو کیسے بنایا حصہ دار

 

 

منصور الدین فریدی : آواز دی وائس 

’’ ہائی کورٹ میں ایک مدرسہ کے معلم اپنا کیس لے کر آئے،میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ مدرسے کے بچوں کو میری صفائی مہم کا حصہ بنائیں گے تو میں کیس کی فیس نہیں لوں گا۔ وہ مجھے بڑی حیرت دیکھنے لگے،مگر پھر رضامند ہوگئے ۔ اس طرح ورسوا کی ساحل پر پہلی بار مدرسے کے بچوں نے صفائی مہم میں حصہ لیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔‘‘

 یہ الفاظ ہیں  افروز شاہ کے ۔ جو نہ تو فلمی دنیا کا کوئی چہرہ ہے نہ ہی کھیلوں کی دنیا کا، لیکن ممبئی میں  بچہ بچہ اس نام سے واقف ہے۔ یہی نہیں بالی ووڈ کا شہنشاہ ہو یا سیاست کا بادشاہ، وہ بھی اس چہرے کے پرستار ہیں ۔ کیونکہ افروز شاہ نے ممبئی میں ورسوا کی ساحل سےصفائی  کی جو مہم  شروع کی تھی وہ اب ایک تحریک بن چکی ہے۔یاد رہے کہ 2016 میں اقوام متحدہ نے ان کی مہم کو ساحلی صفائی کی دنیا کی سب سے بڑی مہم قرار تھا اور انہیں چیمپئین آف دی ارتھ کے ایوارڈ سے نوازا تھا۔ ’جی کیو‘  نے انہیں میں آف دی ائیر 2019 قرار دیا تھا اور اس کے ساتھ ’سی این این ہیرو 2019 بھی قرار دیئے گئے تھے۔

آواز دی وائس  سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ صفائی تو نصف ایمان ہے،مگر اس کو خود تک محدود نہیں فرض نہیں، ہمیں اپنے آس پاس کے ماحول اور فضا کو بھی پاک صاف رکھنا چاہیے۔ ہر کسی کو صفائی اور ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام اور اس کے تئیں بیداری پیدا کرنے  کے لیے کچھ نہ کچھ وقت نکالنا چاہیے ۔ یہی اسلام ہے اور یہی سنت ہے۔

 وہ کہتے ہیں کہ مسلم معاشرے کو ایسی مہم سے زیادہ سے زیادہ جڑنا چاہیے  کیوکہ پیغمبر اسلام کی یہی تعلیم ہے۔ مسلمانوں کو آگے آنا ہوگا ،ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر جڑنا ہوگا۔یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے جشن کے ساتھ اور بھی بہت کچھ کرنا ہوگا کیونکہ سال میں ۳۶۵ دن ہوتے ہیں ۔

 پیشہ سے وکیل افروز شاہ کی پہل اب ایک تحریک ہے۔ کبھی اقوام متحدہ نے، کبھی امیتابھ بچن نے پیٹھ تھپتھپائی ،بگ بی نے  ان کے کام میں مدد کے لیے ایک  ٹریکٹر دیا۔ ایسے ہی کسی نے مدد کا ہاتھ بڑھایا ، کسی نے ساز و سامان مہیا کرایا۔ اسکول آگے آئے، بچوں نے ساحل پر آنا شروع کیا ، مختلف تنظیموں نے دلچسپی لی اور مختلف اہم شخصیات نے خود کو اس مہم سے جوڑا۔

ورسوا بیچ سے ہر اتوار کو کوڑا نکالنے اور ساحل کو صاف کرنےکے ساتھ عام بیداری پیدا کرنے مشن تین سوستاسی  ہفتے کا سفر طے کرچکا ہے۔ مگر افروز شاہ کہتے ہیں کہ یہ تو آغاز ہے،یہ ایک طویل سفر ہے،جس میں ہر کسی کی شمولیت ہی لازمی ہے

awazurdu

مدرسے کے بچے بنے صفائی مہم کا حصہ 

 مدارس کو دعوت

 افروز شاہ نے ’آواز دی وائس ‘ سے ممبئی ہائی کورٹ میں ایک مولانا صاحب سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مدارس کے بچوں کا جوش قابل دید رہتا ہے۔ان کے لیے ایک نیا تجربہ ہوتا ہے،اس لیے پر جوش رہتے ہیں، ایک دوسرے سے مل رہے ہیں اور معاشرے کو سمجھ رہے ہیں ۔

خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ  وہ نہ صرف  اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ بلکہ اس سے بہت کچھ سیکھ رہے ہیں۔سمجھ رہے ہیں اور اپنی زندگی میں اس کو شامل کررہے ہیں ۔ سمندر میں کوڑا اور پلاسٹک کے نقصانات سے واقف ہورہے ہیں ۔وہ ان دو گھنٹوں کو بھر پور طور پر جی رہے ہیں ۔

 افروز شاہ نے کہا کہ  مدرسے میں ان  کا شیڈولڈ بہت مصروف رہتا ہے جس کے سبب ان سب کے لیے باہر نکلنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اس مہم میں جڑنے کے سبب وہ ساحل سمندر پر آرہے ہیں ۔وہ جان رہے ہیں کہ ہم یہ سب کیوں کررہے ہیں۔ اس کی کیا اہمیت ہے اور کیوں وقت کی ضرورت ہے۔  

awazurdu

افروز شاہ : اگر بچے بدل گئے تو مستقبل بدل جائے گا

بچے قوم میں بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں

 افروز شاہ نے ’’آواز دی وائس ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں میونسپل اسکول کا طالب علم تھا،بچپن غریبی میں گزرا تھا،مگر تعلیم کی راہ نہیں چھوڑی۔ تعلیم کے ساتھ دنیا کو دیکھا اور سمجھا۔ اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا ۔

اب میں چاہتا ہوں کہ مدرسے کے بچوں کو ایسی مہم میں آگے لانا چاہیے۔ اس سے نہ صرف دنیا سے واقف ہوں گے بلکہ بہت کچھ سیکھ سکیں گے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ  میرا ماننا ہے کہ اگر بچے سیکھ جائیں گے تو  قوم میں بڑی تبدیلی آئے گی۔ میں مدارس اور مساجد میں جاتا ہوں اور علما حضرات سے بات کرتا ہوں ۔انہیں بتاتا ہوں کہ کیا ہے نصف ایمان اور ہمیں کس طرح اپنی موجودگی اور حصہ داری کو منوانا ہوگا۔ بات صرف صفائی  کی نہیں بلکہ  اخلاق اور عمل کی بھی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ جو بچے آج ان مدارس میں دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں ،وہ کل امام بھی بنیں گے اور خطبہ بھی دیں گے۔ ہم ایسے امام تیار کریں جو قوم کو نہ صرف انسانی حقوق کے بارے میں بتائے بلکہ دوسری مخلوقوں کے حقوق کے بارے میں بھی بتائیں اور سمجھائیں۔ ماحولیات کے بارے میں معلومات مہیا کرائیں بلکہ گائڈ کا کردار نبھائیں۔ دنیا کے ساتھ کائنات کو بچانے کی سوچ رکھیں ۔

 میں ان بچوں کو بتاتا ہوں کہ قرآن پاک میں لکھا کہ دنیا میں آپ تنہا نہیں ،دیگر مخلوقوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ اگر ہم سمندر میں کوڑا پھینکیں گے تو مچھلیوں کا کیا ہوگا ؟ ان کی زندگی مشکل بنتی جائے گی۔ یہ سب باتیں سن کر بچے بہت بیدار ہورہے ہیں بلکہ ان باتوں کو دیگر لوگوں تک پہنچا رہے ہیں ۔ یہی ایک وقت ایک امام کے طور پر قوم کی رہنمائی کریں گے۔

awazurdu

افروز شاہ کی ایک کوشش ۔ایک تحریک بن گئی

 مذہبی عبادت گاہوں کا رخ

 ورسوا کی ساحل سے صفائی کی مہم کو ممبئی میں ایک تحریک بنانے والے افروز شاہ کہتے ہیں کہ ہم اب نہ صرف مساجد بلکہ مندروں اور چرچ  کا بھی رخ کریں گے ۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سب سے اس مہم میں ہر ہفتے دو دو گھنٹے دینے کی درخواست کریں گے ۔ اگر عبادت گاہوں سے تعاون ملے گا تو اس مہم میں مزید شدت پیدا ہوسکتی ہے۔  اس سطح پر بیداری پیدا کرنا ضروری ہے۔  لوگ مذہنی پیشواوں کو سنتے ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں۔

گنیش وسرجن اور ساحل کی صفائی

گنیش وسرجن کے دوران پچھلے چھ سال سے افروز شاہ اپنی ٹیم کے ساتھ  سرگرم ہیں،وہ وسرجن کے دوران سمندر سے مورتیوں اور پھولوں کے ڈھیر نکالنے کا کام کرتے ہیں۔ ساحل  سمندر پر پڑے پھول اور پلاسٹک کے کوڑے کو چننے کا کام کیا جاتا ہے۔  رات کے اندھیرے میں ہی ساحل کو صاف کردیا جاتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی مہم کے دوران وسرجن کرنے والوں کو یہ بتاتے ہیں کہ آپ ماربل یا دھات کی مورتیوں کو استعمال کریں ۔اس سے سمندر میں آلودگی روکی جاسکے گی۔ مثبت بات یہ ہے کہ  لوگ ان مشوروں کو نہ صرف سنتے ہیں بلکہ اس پر عمل بھی کررہے ہیں ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کو قاعدے سے سمجھایا جائے تو کچھ بھی تبدیلی ممکن ہے۔

awazurdu

افروز شاہ  رات کی تاریکی میں بھی اس مشن کو جاری رکھتے ہیں

 کائنات پر رحم کریں

 میں نے ہر سطح پر یہی پیغام دیا ہے کہ انسانوں اور دیگر جانداروں کے حقوق میں ٹکراو نہ ہو۔ دنیا میں ہم پھیلتے جارہے ہیں ،ایک بوجھ بن کر دوسری مخلوقوں کا حق بھی مارنے لگے ہیں،اپنی زندگی کے سوا کچھ دیکھ نہیں پا رہے ہیں ۔جن کی حق تلفی ہورہی ہے وہ بے زبان ہیں ۔ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ اپنی زندگی کو آسان اور عام بنائیں گے تو دیگر مخلوقوں کے ساتھ حقوق کا ٹکراو کم ہوگا۔ ہم سب کو جینے دیں۔ پانی صاف رہے گا تو مچھلیاں بچ سکیں گی،ہوا صاف رہے گی تو انسان کے ساتھ پرندے بھی بچ پائیں گے۔ یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوگا جب ہم اپنی زندگی کا انداز بدل لیں گے۔

افروز شاہ کا کہنا ہے کہ لوگوں میں بیداری لانے کے ساتھ ہلکے سے دھکے کی ضرورت ہوتی ہے ،اس کے بعد ہر کوئی اس راہ پر چل پڑتا ہے۔ صرف ایک بار گائڈ کرنے کی ضرورت ہے۔

awazurdu

صفائی نصف ایمان ہے  ۔۔ یہی افروز کا پیغام ہے

کام کا دائرہ

 ورسوا سے شروع ہوا یہ کام بہت جلد ممبئی کی دیگر  ساحلوں پر پھیل گیا۔ممبئی میں 18 ساحلی علاقے ہیں جو سمندری اور خشکی کے کوڑے سے بری طرح متاثر ہیں۔ افروز شاہ نے ان ساحلوں صاف کرنے کی مہم شروع کی ۔

انہوں نے اس مہم میں ہزاروں رضاکاروں کی مدد سے ممبئی کے ورسوا ساحل سے گزشتہ تین برسوں میں 2 کروڑ کلو گرام کوڑا یا کچرا صاف کر دیا ہے ۔

ورسوا ممبئی کے شمال میں تین کلو میٹر پر محیط ایک ساحلی علاقہ ہے جہاں بڑی تعداد میں غیرقانونی کچی آبادیاں موجود ہیں۔ صفائی اور نکاسی کا انتظام نہ ہونے کے بعد لوگ اپنا کوڑاکرکٹ ساحل پر پھینک دیتے تھے جس سے یہ علاقہ شدید آلودگی کا شکار ہو چکا تھا۔ کوڑے کرکٹ کے ان ڈھیروں میں پلاسٹک کا وہ کوڑا بھی شامل ہو گیا تھا جسے سمندر کی لہریں اپنے ساتھ پانی میں سماں جاتا ہے۔

awazurdu

 افروز شاہ :ہمت مرداں مدد خدا

پلاسٹک کے خلاف مہم

 اس مہم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ پلاسٹک کے استعمال کو روکا جائے۔ اس عادت کو بدلا جائے۔اس کے لیے افروز شاہ سبزی منڈیوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنے رضاکاروں کے ساتھ صبح صبح پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال کی روک تھام کے لیے متبادل طریقے بھی متعارف کراتے ہیں ۔

ان کا کہنا ہے کہ کوڑا کرکٹ کے وجود میں آنے سے بھی پہلے  ہمیں اس سلسلے میں اپنے طور طریقوں میں تبدیلی لانے کا عمل شروع کردینا چاہئے۔ اس میں کوئی عقلمندی نہیں ہے کہ کوڑا کرکٹ پیدا کیا جائے اور پھر اس کے بعد اس کو  نمٹانے کے بارے میں فکر کی جائے اور یہ سب کچھ  گھر سے  شروع کیا جاتا ہے۔ ہمیں  ہوش مندی کے ساتھ اس کا فیصلہ کرنا چاہئے کہ کوڑے کرکٹ میں کمی کس طرح لائی جائے۔ دنیا میں تمام مخلوقوں کے حقوق کا تحفظ کیسے کیا جائے ؟

پڑوسی کے ساتھ بسم اللہ

افروز شاہ  نے ’آواز دی وائس ‘‘ کو بتایا کہ یہ مہم کسی منصوبہ کے تحت نہیں شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ ان کے ایک بزرگ پڑوسی ہربنش ماتھور ان کے ساتھ روزانہ ساحل سے پلاسٹک کا  کوڑا اپنے ہاتھوں سے سمیٹنا شروع کیا تھا۔

افروز شاہ کہتے ہیں کہ  2015 کا ورسوا ساحل کا منظر کچھ اس طرح ہے کہ وہاں جگہ جگہ کوڑے کے پانچ پانچ فٹ تک اونچے ڈھیر نظر آتے تھے۔ جنہیں صاف کرنے والا کوئی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی سرکاری یا فلاحی ادارہ اس پہلو پر .سوچ رہا تھا کہ غیر قانونی بستیوں کے مکینیوں میں اپنی اور اپنے آس پاس کی صفائی کا شعور اجاگر کیا جائے۔

 

 وہ اپنے ماضی کے ساحل کو لوٹانا چاہتا تھا، لیکن اس کے لیے بہت محنت اور سرمائے کی ضرورت تھی مگر کوئی ادارہ اس کی مدد کے لیے تیار نہیں تھا۔ لیکن افروز شاہ مایوس ہو کر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھ گیا۔ اس نے اپنے دوستوں اور بستی والوں کی مدد سے ساحل کی صفائی کا عزم کیا اور آج ہر ممبئی والے کے لیے ایک مثال بن گیا۔

ورسوا میں اس منظر کو ہر روز کسی نہ کسی نے دیکھا ۔اس بات کو محسوس کیا کہ کوڑا پھیلانے والے تو بہت ہیں مگر صفائی کرنے والے بہت کم ۔ یہی وجہ ہے کہ ساحل کی صفائی کرتے دیکھ کر آس پاس کے دوسرے لوگوں میں بھی جذبہ بیدار ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دو افراد سے شروع ہونے والی اس مہم ہزاروں افراد کی ایک رضاکار ٹیم کی شکل میں بدل گئی۔

awazurdu

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل ۔۔۔۔۔۔۔۔

 کارواں بنتا گیا

بلاشبہ ورسوا کی ساحل پر یہ سرگرمیاں قابل توجہ تھیں ۔اس لیے اردگرد کے لوگ، اسکولوں کے طالب علم، ممبئی کے ہزاروں رضاکاراس مہم میں ان کے ساتھ شریک ہو تے چلے گئے۔بقول افروز اس کامیابی نے ان کا حوصلہ مزید بڑھا دیا اور انہوں نے ممبئی کے دوسرے ساحلی علاقوں کی صفائی اور لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے تربتی مہم شروع کی۔

جو کام دو لوگوں نے شروع کیا تھا،اب ایک کارواں بن گیا۔ جس میں ہزاروں لوگ شامل ہو چکے ہیں۔ جنہوں نے ساحلی بستیوں کے گرد بکھرے ہوئی پلاسٹک کے لاکھوں ٹن کوڑے کو سمندر میں جانے سے روکا۔

awazurdu

امیتابھ بچن جن کی دنیا  مداح ہے ،وہ افروز شاہ کا دیوانے ہیں 

افروز شاہ کہتے ہیں  کہ میں ایک وکیل ہوں اور اب بھی میں جیسے ہی موقع ملتا ہے ساحلوں اور دریاؤں کی صفائی کا کام انجام دیتا ہوں۔ ہم سب  ہفتے میں  دو گھنٹے ضرور صفائی ستھرائی کے لئے وقف کریں۔ ہمیں صرف  باتیں ہی نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان باتوں پر عمل بھی کرنا چاہئے۔

افروز شاہ نے آواز دی وائس سے کہا کہ اس ملک نے مجھے بہت کچھ دیا،میں ملک کو کچھ نہ کچھ دینا چاہتا ہوں،جس کام کو میں نے چنا ہے وہ مذہبی طور پر بھی لازمی ہے اور دنیا وی طور پر بھی۔  میں اپنی فکر بھی ہے اور دنیا کی بھی۔ انسانیت کی بھی اور کائنات کی بھی۔

awazurdu