بابرعلی ۔ علم کی شمع روشن کرنے والاروشن چہرہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 31-01-2021
آنند شکشا نکیتن-ایسا اسکول جو اسٹوڈنٹس میں حوصلہ پیدا کرتا ہے
آنند شکشا نکیتن-ایسا اسکول جو اسٹوڈنٹس میں حوصلہ پیدا کرتا ہے

 

  سینتنی چودھری / کولکتہ

ایک اسکول کے پرنسپل کو سب سے زیادہ خوشی کب ہوتی ہے؟ شاید اس وقت جب وہ اپنے سابق اسٹوڈنٹس کواسی اسکول میں ایک ٹیچر کے طور پردیکھتا ہے۔27 سال کا نوجوا ن بابر علی مغربی بنگال کے ضلع مرشد آباد کے ’آنند شکشا نکیتن‘ کا خوش قسمت استاد ہے۔ انہیں کبھی دنیا کے سب سے کم عمر پرنسپل کے طور پر جانا جاتا تھا۔ لوگوں کو خواندہ بنانے کی سمت میں ان کا کام تب شروع ہوا جب وہ صرف نو سال کے تھے، تب سے وہ ا س قول پر عمل کررہے ہیں -”یکساں مواقع والے سبھی کے لئے تعلیم“۔

بابر علی نے 2002 میں اپنے اسکول کی شروعات کی۔ ان کے الفاظ میں وہ اپنے گاؤں کے اکلوتے بچے تھے جنہیں اسکول جانے کے لئے کچھ کلو میٹر پیدل چلنا پڑتاتھا۔ لیکن انہیں اپنے بھائی،بہنوں اور دوستوں کودیکھ کر تکلیف ہوتی تھی جو یا تو کچرا اکٹھا کرتے یا قرب و جوار میں لڑائی جھگڑے کرتے ۔انہوں نے کہا ”میں نے انہیں اپنے گھر میں پڑھانا شروع کیا۔میرے اسکول میں جو بھی آتا،میں اسے پڑھا یا کرتا تھا۔ طلبا کی ٹیم کا آغاز میرے بہن بھائیوں کے ساتھ ہوا جن میں میری پانچ سال کی بہن آمنہ اور گاؤں کے کچھ لڑکے شامل تھے" ۔بابر علی کے گھر کے برآمدے سے آٹھ اسٹوڈنٹس کے ساتھ شروع ہونے والے اس اسکول کا افتتاح 19 اکتوبر 2002 کو کیا گیاتھا۔ انہوں نے کہا ”میں نے اپنی والدہ اور چچی کی ساڑیوں کو جوڑ کر ایک چھوٹا سا پنڈال بنایا،جہاں میں نے رسمی طور پر اسکول کے بارے میں اعلان کیا۔ اب میرے اسکول میں 300٠ اسٹوڈنٹس ہیں،اور اب تک 18 برسوں میں میرے اسکول سے تقریبا6000 اسٹوڈنٹس پاس ہوئے ہیں۔ہمارے پاس 8ویں کلا س کے پرمٹ کے لئے پری پرائمری ہے“۔

آغاز میں صرف لڑکے ہی اسکول آتے تھے۔ بابرعلی کیلئے اپنے اسکول میں طالبات کو لانا مشکل ہوگیا۔ لیکن اپنی ضدی فطرت کے سبب علی نے لڑکیوں کے والدین سے ملاقات کا سلسلہ شروع کیا۔علی نے کہا ”یہ میری والدہ بانو آرا بی بی تھیں جس نے مجھے اتنا بڑا قدم اٹھانے کے لئے تحریک دی۔اسی لئے میں نے بچیوں کی تعلیم کی اہمیت سے منہ نہ موڑسکا۔ کونسلنگ کے کامیاب سیشنز کے ساتھ اب علی کے اسکول میں 60 فیصد طالبات ہیں۔ چھ طالبات نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، اور بطور ٹیچرز اسی گاؤں کے اسکول میں پڑھانے لگیں۔ بابر علی نے کہا ”میں بچوں کوپڑھانے کے لئے اپنے اسکول سے چاک لایا کرتا تھا۔میرے اسکول کے ٹیچروں نے سوچا کہ میں دیواروں پر لکھنے کے لئے چاک چرارہاہوں،لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ میں اپنے گھر پر دوسرے بچوں کو پڑھارہاہوں تو انہوں نے مجھے ہر ہفتہ چاک کا ایک پیکٹ دینا شروع کردیا“۔ ایک مسلم ہونے کے ناطے میں رام کرشن دیب اور سوامی وویکانند سے متاثر ہوں، جو میرے لئے ایک چیلنج بن گیا ہے۔بابر علی نے کہا آغاز میں لوگ میری حمایت کرتے تھے لیکن جب میں نے سوامی وویکانند کے ’مین میکنگ ایجوکیشن‘پر توجہ دینی شروع کی تو لوگوں نے مجھے تبدیل شدہ ہندو قرار دیا۔ انہوں نے افواہیں پھیلانا شروع کردیں کہ میں بچوں کو ہندو یا عیسائیت میں تبدیل کرتا ہوں“۔

ضلع مرشدآبادکے گاؤں شنکر پاڑہ میں واقع یہ اسکول اب عطیہ دہندگان کے ذریعہ ہی چلایا جاتاہے۔ اس اسکول میں تعلیم مفت ہے۔ جدوجہد کے دنوں میں علی کو یہ ’گیان‘ حاصل ہوا کہ ایک بچی کو تعلیم سے آراستہ کرنا لوگوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے- خاص طور سے اقلیتی فرقہ کے کنبوں میں۔ ان کی سوچ ہے کہ بیٹی کی شادی کرنا لڑکی کے والدین کی اکلوتی ذمہ داری ہے۔ لیکن وقت اور صبرو استقلال کے ساتھ علی نے بیٹییوں کو بھی بیٹوں کی طرح یکساں مواقع دینے کے لئے ان کے والدین کو سمجھانے میں کامیابی حاصل کی۔ حالانکہ،بابر علی کا کہنا ہے کہ ان کی جد جہد ابھی ختم نہیں ہوئی ہے- جب تک اسٹوڈنٹس کو پوری طرح سے مفت تعلیم اور تعلیم سے متعلق دیگر سہولیات فراہم نہیں کردیتے تب تک اطمینان نہیں ہوگا- ان کا کہنا ہے کہ ہمیں عطیہ دہندگان کے مسلسل عطیہ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ میں اب تک اپنے اسکول چلانے اور بچوں کو یونیفارم،کتابیں اور پڑھنے کی دیگر چیزیں مفت فراہم کررہاہوں۔ میری خواہش ہے کہ ریاستی حکومت سے میرے اسکول کو کچھ مدد مل سکے۔ گزشتہ10 برسوں سے مجھے ریاستی حکومت سے کوئی مدد نہیں ملی ہے۔ اس سے قبل سرکار کی جانب سے چھوٹی موٹی امداد مل جایا کرتی تھی،لیکن اب اسے پوری طرح سے روک دیا گیا ہے“۔

ہندوستان کے بچوں کو ان کی معاشی اور مذہبی پس منظر سے قطع نظرمعیاری تعلیم دینے کی غرض سے گزشتہ کئی برسوں سے غربت سے دوچار سینکڑوں بچہ مزدروں میں علم کی جوت جلانے والے وہ ایک خاموش لڑاکے ہیں۔ انہوں نے وباکے دور اور لاک ڈاؤن پر اظہار افسوس کیا۔ اس حوالہ سے انہوں نے کہا کہ ہم غریب بچوں کو تعلیم دیتے ہیں،لاک ڈاؤن کے سبب ہمیں کافی نقصان ہورہاہے،ہمارے اسٹوڈنٹس کے پاس آن لائن کلاسز لینے کے لئے گیجیٹ اورانٹر نیٹ نہیں ہے۔ ہم نے لاک ڈاؤن کے ضابطوں پر عمل کرتے ہوئے وقفہ وقفہ سے کلسٹر کلاسیں لیں۔ لیکن پھر بھی اس وبا نے ہمیں پیچھے دھکیل دیا ہے- بابر علی نے اپنے اسکول کے لئے دسویں کلاس تک افلیئیشن کی درخواست دے دی ہے۔ لیکن اب جو چیزانہیں پرجوش بناتی ہے وہ ہے اپنے اسٹوڈنٹس کو تکنیکی اور کمرشل تربیت دینا تاکہ وہ کسی پیشہ سے جڑجائیں اور کمائی شروع کردیں۔علی کہتے ہیں کہ میں جن اسٹوڈنٹس کو پڑھاتا ہوں وہ محروم اور غریب کنبوں سے آتے ہیں۔ان کے لئے جلد سے جلد روزگار حاصل کرنا انتہائی اہم ہے۔ کئی معاملوں میں پڑھائی اچھی ہونے کے باوجود انہیں کچھ پیسہ کمانے کے لئے کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ شاید گاؤں چھوڑ کسی دوسری ریاست میں کارخانوں،فیکٹریوں میں کام کرنے چلے جائیں۔ اسلئے میں نے انہیں کمرشل اور تکنیکی ٹریننگ فراہم کرنے کی اسکیم تیار کی ہے تاکہ وہ مقامی سطح پر کام کرسکیں یا اپنے دم پر کچھ شروع کرسکیں۔

بابر علی کے مطابق کئی بار وہ ہر روز دوپہر میں کچھ گھنٹوں کے لئے ایک آم کے پیڑ کے نیچے بیٹھ کر پڑھانا شروع کردیتے ہیں، تاکہ وہ بچے جو کوڑآ جمع کرتے ہیں یا بیڑی (غیر محفوظ سے طریقے تیار سگریٹ) بناتے ہیں، کچھ سیکھ سکیں“۔ تقریباً 80 لاکھ آبادی والے ضلع مرشدآباد میں بچوں کا ایک بڑا طبقہ ہے جویومیہ مزدوری پر کھیتوں میں کام کرتا ہے ۔ اس کےعلاوہ یہ ضلع ملک میں سب سے زیادہ بیڑی تیار کرتا ہے۔ 2015 میں بابر کے اسکول کو ویسٹ بنگال ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ایک پرائیویٹ اسکول کے طور پر منطوری ملنے کے بعد ان کے گھر کے قریب ایک عمارت میں منتقل کردیا گیا ہے۔