عذرا مبین :جنہوں نےلاوارث لاشوں کو دیا سہارا

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 17-05-2021
عذرا مبین
عذرا مبین

 

 

شاہد حبیب /نئی دہلی 

کورونا دور میں صدموں سے نڈھال افراد کو سنبھالنے کے لئے غیر معمولی اعصاب کا مالک ہونا لازی ہے ۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ہر شہر، ہرعلاقے اور ہر گلی میں ایسے آہنی اعصاب کے مالک موجود ہیں جنہوں نےخدمت خلق کے جذبے پر کسی خوف یا ڈر کو حاوی نہیں ہونے دیا۔ دلیری اور ثابت قدمی کے ساتھ ایک نازک وقت میں بھی خود کو انسانی خدمت سے جوڑے رکھا۔جب اپنے ہی ساتھ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں اور قریبی رشتہ دار ہی غائب ہورہے ہیں ،ایسے وقت میں کچھ مسیحا ہیں جو دن رات ایسے لوگوں کی مدد کررہے ہیں جن سے ثن کا خون کا رشتہ ہے نہ کوئی رشتہ داری۔بس ایک انسانی جذبہ ہے جو انہیں خدمت کا حوصلہ دے رہا ہے۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک نام ہے ’عذرا مبین، ۔ہندوستان میں تہذیب کی راجدھانی کہلانے والے لکھنو کی  35 سالہ عذرا مبین ایک سماجی کارکن ہیں جنہوں نے رمضان المبارک کے دوران روزے کی حالت میں بھی تقریبا سات سے آٹھ کووڈ مریضوں کی آخری رسومات کو انجام دیا۔ مرنے والے تمام افراد وہ تھے جن کی تدفین کرنے والا کوئی موجود نہیں تھا۔

پہلا انتم سنسکار  

سب سے پہلے انہوں نے ایک 80 سالہ ضعیف مولچندرا سریواستو کا انتم سنسکار کیا ۔ عذرا کے لئے وہ شخص اجنبی تھا لیکن ان کے بیٹے گور و کے عذرا کو فون کرکے مدد کرنے کی درخواست کے بعد انہوں نے پورے اہتمام سے ان کا انتم سنسکار کرایا ۔کوو ڈ سے متاثر مولچندرا شہر کے ایک نجی اسپتال میں داخل تھے ۔ ان کے بیٹے  جو کہ شوگر کا مریض تھا ، کو انفیکشن کا خدشہ تھا اور اس کا بھائی اور بھابھی اس وائرس سے پہلے ہی متاثر تھے۔

علی گنج ، جہاں عذرا رہتی ہیں ، سے امبولینس میں لاش کو لے کر وہ انتم سنسکار کے لئے بائیکنٹھ دھام پہنچی ۔ اس کے ساتھ صرف ان کا دوست دیپک تھا ۔ دوپہر کی سخت دھوپ تھی اور عذرا روزہ کی حالت میں اپنی بھوک اور پیاس پر قابو پا رہی تھیں ۔ پی پی ای سوٹ پہننے کے بعد انہیں چکر آنا شروع ہو گیۓ ۔ عذرا بتاتی ہیں کہ مجھے تو لگا کہ کہیں میں چتا کے قریب ہی بے ہوش نہ ہوجاؤں ، پھر میں قریب ہی ایک سلیب پر بیٹھ گئی ۔ تاہم میں یہ یقینی بنانا چاہتی تھی کہ پہلے انتم سنسکار مکمل ہو جائے ۔

عذرا بتاتی ہیں کہ شمشان گھاٹ پر دو کارکنان جن میں سے ایک کا نام خورشید تھا ، نے بھی آخری رسومات کے دوران ان کی مدد کی۔ عذرا کی زندگی میں یہ انقلاب پچھلے مہینے اس وقت شروع ہوا جب انہیں ایک کے بعد ایک دل سوز خبریں سننے کو ملیں جس کے بعد وہ خود کو بے بس اور بے حس محسوس کرنے لگیں ۔ 19 اپریل کو سوشل میڈیا پر انہوں نے لوگوں سے کہا کہ اگر انھیں جنازوں کے لئے کسی مدد کی ضرورت ہو تو ان سے رابطہ کریں۔

وہ واقعہ جو اب بھی ان کے اعصاب کو ہلا دیتا ہے

افطار کے بعد ایک دن انکی فون پر 21 سالہ لڑکے امن سریواستو کے ساتھ گفتگو آج بھی ان کے دل حواس پر سوار ہے۔ امن فون پر زار و قطار روتا جا رہا تھا ۔ وہ رایبریلی روڈ پر تھا اور وہ اپنی والدہ کی مدد کے لئے جیسے ہی پہنچا ، وہ چل بسیں ۔ امن کی ایک چھوٹی بہن تھی ۔ اس کے علاوہ اس کے والد بھی کورونا سے متاثر تھے اور تشویشناک حالت میں تھے۔فون پر امن کی پھولتی ہوئی سانسوں کو محسوس کر کے عذرا نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ بھی کورونا سے متا ثر ہے ، جس پر اس نے کہا کہ نہیں، لیکن میں نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا۔ مجھے اپنی ماں کی کمی محسوس ہوتی ہے ، میں کیسے کھانا کھا سکتا ہوں ؟ عذرا نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی اور یقین دلایا کہ اگر کسی مدد کی ضرورت ہو تو وہ موجود ہے۔ اگلے ہی دن وہ ان کا انتم سنسکار کر کے واپس آ گئیں ۔

ان سب کے باوجود ، اس بچے کی آواز ان کے کانوں میں گونجتی تھی کیوں کے اس سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا ؟ کچھ دن بعد اس کی بہن نے عذرا کی کال کا جواب دیا۔ بہن نے کہا کہ آپ کے فون کرنے کے اگلے دن میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ دوسرے دن ، میرے بھائی جس سے آپ نے بات کی تھی ، اس کا بھی انتقال ہو گیا ۔ ان اموات کے صدمے کی تاب نہ لاکر میری دادی کا بھی انتقال ہو گیا ۔اتنا سننا تھا کہ عذرا کے حواس باختہ ہو گیۓ ، ان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی ۔ انہوں نے لڑکی اور اس کے لواحقین کو ہر طرح کی مدد کی یقین دہانی کرائی ، پھر بھی اس لمحے انہیں اپنی بے بسی کا شدت سے احساس ہوا۔

کورونا کی اس دوسری لہر میں جس نے شہری اور دیہی مقامات پر یکساں طور پر تباہی مچائی ہے ، عام شہری حکام کی نا اہلیوں سے پیدا شدہ خلا کو پر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے کاندھوں پر ہی ساری ذمہ داری آن پہنچی ہے ۔روایتی طور پر ہندوستان میں ، ہندو یا مسلم خواتین آخری رسومات میں شریک نہیں ہوتی ہیں ، نہ تو وہ شمشان گھاٹ کا رخ کرتی ہیں نا ہی چتا میں آگ لگاتی ہیں۔ لیکن کورونا کے دور میں تو بہت سے خاندانوں شمشان جانے سے خوفزدہ ہونا عام بات ہو گئی ہے ۔ گھر کے افراد تو دور پڑوسی بھی مدد کرنے سے انکار کر دیتے ہیں ۔

لوگوں نے کی حوصلہ افزائی 

پہلے انتم سنسکار کے بعد عذرا کو لوگوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کے بہت سارے پیغامات موصول ہوئے۔ ایک مسلمان عالم سے لے کر اجنبی افراد تک ، سبھی نے اپنی دعا وں سے نوازا اور جس کی وجہ سے وہ کام کرتی رہیں۔ عذرا کہتی ہیں کہ میں ان لوگوں کے بارے میں سوچتی ہوں جن کی آخری رسومات ادا کی گئیں - کیا وہ مجھے جانتے تھے ؟ کیا انہوں نے کبھی سوچا تھا کہ ان کا کنبہ ان کیآخری رسومات ادا کرے گا؟ میرے خیال میں شاید خدا نے مجھ سے کسی وجہ سے یہ کام کرایا ہے ۔

عذرا دو بچوں کی ماں ہیں ۔ جب انہوں نے کورونا کے دوران مدد کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے بچوں کو ان کی نانی کے گھر بھیج دیا۔ عذرا کی والدہ پریشان تھیں اور ابتدا میں اس کام سے منع کیا ، لیکن عذرا پیچھے ہٹنے والی نہیں تھیں ۔ جب وہ شمشان سے واپس آتی ہے تو پی پی ای سوٹ اتار کر خود کو الگ کر لیتی ہیں ۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا انہیں حکومت کی طرف سے کسی کارروائی کا خدشہ ہے عذرا کہتی ہیں کہ میں حقیقت کے بارے میں بات کرنے سے نہیں ڈرتی ۔ اگر وہ حقیقت اجاگر کرنے کو ‘افواہیں’ پھیلانا کہتے ہیں تو وہ میرے ساتھ زمین پر آسکتے ہیں ، لوگوں کی چیخیں دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ لوگ سڑک پر اپنی جانیں گنواتے ہیں۔