اظہرالدین: کباڑ سے بنی برقی گاڑی کے موجد ہیں

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-04-2021
اظہرالدین
اظہرالدین

 

 

شاہد حبیب انصاری /نئی دہلی

یہ ایک ایسے ہونہار انجینئر کی داستان ہے جس کے والد نے ساری زندگی محنت کی اور والدہ کبھی بھی اسکول نہیں جاسکیں ، اس کے باوجود اتر پردیش میں میرٹھ کے قریب مراد نگر کے رہنے والے بیس سالہ اظہرالدین نے تمام مشکلات کا مقابلہ کیا اور مکینیکل انجینئر بن گئے۔ وہ ایک ایسے با صلاحیت نوجوان ہیں جو پوری زندگی محنت کے ہتھیارسے غربت کے خلاف مزاحم رہے اور ایک فاتح کی حیثیت سے سامنے آئے ۔

اظہرالدین کی تعلیم ایک سرکاری اسکول میں ہوئی اور آج وہ سبھارتی یونیورسٹی میں بی ٹیک کے دوسرے سال کے طالب علم ہیں ۔ ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں یونیورسٹی انتظامیہ ان سے فیس نہیں لیتی بلکہ اظہرالدین کو یونیورسٹی دیگرتمام سہولیات فراہم کرتی ہے ۔ اظہرالدین میں مضمر صلاحیتیں اس وقت ظاہرہونا شروع ہوئیں جب انہوں نے کباڑ  سے برقی کارٹ تیار کی ۔ انہیں اب بیرون ملک سے آن لائن آرڈر بھی ملنے لگے ہیں۔

بیس سالہ اظہرالدین نے ایک برقی سائیکل بھی بنائی ہے جو ایک بار چارج کرنے کے بعد 100 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرسکتی ہے۔ برقی کارٹ کے علاوہ ، اظہرالدین نے شمسی کارٹ بھی بنائی ہے ، جسے چارج کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اظہرالدین کی یہ ساری خدمات اس لئے قابل تحسین ہیں کیوں کہ انہوں نے یہ سب کچھ خود ہی انجام دیا ہے۔ اس وقت مراد نگر کا یہ خوصورت با صلاحیت لڑکا حکومت سے اپنے ای کارٹ کی تصدیق کروانے کی کوشش میں سر گرداں ہے ۔

اپنی ایجادات کے بارے میں اپنے تاثرات کو بیان کرتے ہوئے اظہرالدین کہتے ہیں کہ ای کارٹ بنیادی طور پر شمسی توانائی سے چلنے والا ہے ، لیکن اسے چارج بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ ماحولیاتی نقطۂ نظر سے کافی سود مند ہوگا۔ یہ سستا اور زیادہ مضبوط ہے۔ اسے آٹو کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فی الحال ، اس کی مانگ ایلیٹ معاشروں سے آرہی ہے ، جہاں آلودگی سے پاک یہ گاڑیاں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ اس کے علاوہ چڑیا گھر ، تاج محل جیسے مقامات پر بھی ان کی بڑی اہمیت ہے، اب تک تو ایسی گاڑیاں بیٹری سے چل رہی تھیں۔ ہمارے پاس شمسی بجلی کا ایک سستا متبادل موجود ہے۔

اظہرالدین کی یہ کاوش بے سود ثابت نہیں ہوئی۔ اسے حیدرآباد کی ایک سوسائٹی سے 6 شمسی گاڑیوں کو تیار کرنے کی آفر ملی ہے۔ ان کی پہلی الیکٹرک کارٹ کے لئے 1.5 لاکھ روپۓ کی لاگت آئی۔ اظہرالدین اسے بنانے کی لاگت کو مزید بہتر کر رہے ہے اور اب ان کی نئی ای کارٹ میں مزید لوگوں کے بیٹھنے کی بھی گنجائش ہے۔ ان کے تیار کردہ ای کارٹ دبئی روانہ کردی گئی ہے۔ اظہر کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ان کے ساتھ تعاون کرتی ہے تو وہ ایسی کئی چیز تیار کرسکتے ہیں جو ملک میں آلودگی میں کمی اور ماحول کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

اظہرالدین کا کہنا ہے کہ اس نے اسی طرز پر الیکٹرک سائیکل بھی بنائی ہے۔ یہ ایک چارجنگ میں 100 کلو میٹر تک سکتی ہے ، جبکہ کمپنی کی سائیکل 30-40 کلو میٹر تک چلتی ہے۔ یہ 25-30 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہے اور یہ مکمل طور پر آلودگی سے پاک ہے۔ اظہرالدین نے مزید کہا کہ انہیں اپنی ای سائیکل کے لئے آرڈر ملنا بھی شروع ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی ای کارٹ کو آگرہ کے تاج محل میں چھ ماہ تک استعمال کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے 11 ویں جماعت میں ایک سیٹر ہیلی کاپٹر بنایا تھا ، جسے غازی آباد میں نمائش کے دوران خوب پذیرائی ملی ۔ اظہرالدین کی ای کارٹ اب ہریانہ کے حصار کینٹ اور انجینئرنگ کالج میں استعمال ہورہی ہے۔ اظہرالدین کی ای کارٹس آج کل ان کے اپنے کالج سبہارتی یونیورسٹی میرٹھ میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ اظہرالدین کے والد امیرالدین نے اپنے ہونہار بیٹے کی اس کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اظہر نے اسے صرف خوشی دی ہے اور اپنے بیٹے کی کامیابی پر نازاں ہیں ۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ گاؤں کے لوگ اب مجھے میرے بیٹے کی وجہ سے جانتے ہیں۔

اپنے ای کارٹ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اظہرالدین بتاتے ہیں کہ موسم کی تدبیلی کی وجہ سے شمسی توانائی میں رکاوٹ آنے کا امکان رہتا ہے ، اس صورت میں اسے چارج کر کیا جائے گا اور یہ کارٹ چلتی رہے گی۔ شمسی پینل میں 12 وولٹ کی دو بیٹریاں اور 140 ایم پیئر لیڈ ایسڈ کی پانچ بیٹریاں استعمال کی گئیں ہیں ۔ اس ای کارٹ کی یہ سب سے بڑی خصوصیت ہے کہ یہ شمسی توانائی اور بجلی دونوں سے کام کرتا ہے اور سستا بھی ہے۔

سبھارتی یونیورسٹی میں ، اظہرالدین کے کام کا بڑے جوش و خروش سے ذکر ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے عملے کے ایک فرد سنجے کمار نے بتایا کہ اظہر کا ہنر فطری ہے۔ اس میں ودیت شدہ فطری صلاحیتیں اسے کامیابی کی اعلی منازل تک لے جانے والی ہیں۔ اس نے اپنے کام کے ذریعہ اپنے لئے ایک نام کمایا ہے۔ اس کا مشکل وقت گزر گیا۔ ہم اس کے روشن مستقبل کی خواہشمند ہیں۔

اظہرالدین کی کہانی اس حقیقت کا اعادہ ہے کہ جذبہ اور محنت کا بدل ملنا ناگزیر ہے چاہے آپ کی شروعات کتنی ہی عاجز اور معمولی کیوں نہ ہو۔