عائشہ نور اے ون گلوبل ٹی وی ایوارڈ سے سرفراز

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | 2 Years ago
عائشہ نور اے ون گلوبل ٹی وی ایوارڈ سرفراز
عائشہ نور اے ون گلوبل ٹی وی ایوارڈ سرفراز

 

 

آواز دی وائس، کولکاتہ

عام طور پر لوگ اپنی مشکلات و معذوری کا رونا روتے ہیں، مگر عائشہ نور ان نوجوان خاتون میں شامل ہیں، جنہوں نے اپنی مشکلات پرقابو پاکردنیا کو یہ دکھا دیا کہ انسان کے بس میں سب کچھ ہے، اگر انسان چاہ لے تو انتہائی مشکل حالات میں بھی اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کر سکتا ہے اور دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام بنا سکتا ہے۔  

ریاست مغربی بنگال کےدارالحکومت کولکاتہ سے تعلق رکھنے والی عائشہ نور کراٹے اور سیلف ڈیفینس (self-defence) کی دنیا میں ایک معروف ہستی بنی ہوئی ہیں۔اکیس سالہ عائشہ نور نے لاک ڈاؤن کے دوران سماجی فاصلہ برقرار رکھتے ہوئےسیلف ڈیفینس کی کلاس چلاتی رہی ہیں۔

اس وقت 600 خواتین اس کی کلاسز میں شریک ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ مفت میں یہ کلاسز چلاتی ہیں۔ شاید یہی سبب ہے کہ عائشہ کی مفت تربیت کی پیشکش نے انہیں مسلم کمیونٹی کی لڑکیوں کے لیے ایک تحریک بنا دیا ہے۔ان کی کلاس میں خواتین کو عبایا، حجاب اور ساڑھی میں ساتھ ساتھ کراٹے سیکھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ نوجوان لڑکیاں جو اپنی ماؤں یا بہنوں کے ساتھ آتی ہیں انہیں جارحانہ پوز کاپی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

جب وہ 19 سال کی تھیں تب انہیں پہلا بین الاقوامی تمغہ ملا تھا۔خیال رہے کہ انہوں نے تھائی لینڈ میں تھائی پچائی یوتھ انٹرنیشنل ٹورنامنٹ(Thai Pitchai Youth International tournament ) میں طلائی تمغہ جیتا تھا۔اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔انہوں نے چار بین الاقوامی اور عالمی چیمپئن شپ میں ہندوستان کی نمائندگی کی ہے اور ہر بار سونے کا تمغہ جیتا ہے۔

اس کی ذاتی کہانی انٹرنیشنل ٹیلی ویژن سیریز (ITVS) کی ایک دستاویزی فلم میں دکھائی گئی ہے جسےگرل کنیکٹڈ(Girl Connected)کہا جاتا ہے۔عائشہ نور نوجوان لڑکیوں کی تربیت کر رہی ہیں۔ عائشہ کا جوش قابل ستائش ہے کیونکہ انہوں نے زندگی کے مشکل حالات میں وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی جدو جہد کرتی رہیں۔

عائشہ ایک کچی بستی میں پیدا ہوئیں اور پرورش پائی۔ خیال رہے کہ عائشہ نور نے اپنے بھائی سے متاثر ہو کر کراٹے سیکھنا شروع کیا،ان دنوں ان کے بھائی کراٹے سیکھ رہے تھے، عائشہ نے بھی اپنے بھائی کے ساتھ محض 6 سال کی عمر میں کوچنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔جب وہ 13 سال کی ہوئیں تو ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ ان کے والد ہی ان کے خاندان کا معاشی سہارا تھے۔ان کی والدہ شکیلہ بیگم نے خاندان کی کفالت کے لیے سلائی کا کام شروع کیا۔ اس سے عائشہ کی صحت بھی متاثر ہوگئی اور پڑھائی پر بھی برا اثر پڑا۔ ابھی عائشہ کو مرگی کا مرض ہے۔

انہیں ریاستہائے متحدہ امریکہ نے نئی دہلی میں جنسی مساوات کے ہیرو(Hero of Gender Equality)کے طور پر اعزاز سے نوازا۔اس وقت جب کورونا وائرس کی وجہ سے تمام بین الاقوامی کراٹے ایونٹس ملتوی کر دیے گئے ہیں، عائشہ نے 2022 ورلڈ کراٹے میٹ کے لیے اپنی تیاری جاری رکھی ہوئی ہے۔ عائشہ عمر کا سفر بہت زیادہ مصائب سے گھرا رہا ہے۔ عائشہ کو پیدائش کے وقت سے ہی مرگی کے دورے پڑتے تھے۔

جب وہ کولکتہ کے بینیاکوپور کی کچی آبادیوں میں رہ رہی تھی، ان پریشان کن حالات میں انہیں امید کی ایک کرن کوچ ایم اے علی کی شکل میں دکھائی دی۔کوچ ایم اے علی نے انہیں کراٹے سکھانے میں اہم کردار ادا کیا اور انہیں سیلف ڈیفنس میں ماہر بنا دیا۔