کیا وادی پنجشیر ایک بار پھر طالبان کی مزاحمت کر پائے گی؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 21-08-2021
وادی پنجشیر
وادی پنجشیر

 

 

 افغانستان میں طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے والا واحد صوبہ پنجشیر ہے جہاں فی الحال طالبان قبضہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں، تاہم تجزیہ کاروں کے خیال میں طالبان کے حملہ کرنے کی صورت میں مزاحمت کاروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 

دارالحکومت کابل کے شمال میں واقع پنجشیر سوویت یونین اور طالبان کے خلاف مزاحمت کا مرکز رہا ہے۔ لیجینڈری کمانڈر احمد شاہ مسعود نے وادی پنجشیر کا پہلے سوویت یونین اور بعد میں طالبان کے قبضے سے دفاع کیا۔

ہندو کش کے پہاڑوں میں گھری ہوئی وادی پنجشیر افغانستان کا واحد حصہ ہے جس پر فی الحال طالبان قبضہ نہیں حاصل کر سکے ہیں۔

اشرف غنی کے ملک سے فرار ہونے کے بعد سے ان کے نائب صدر امراللہ صالح اور احمد شاد مسعودہ کے بیٹے نے پنجشیر میں پناہ لی ہوئی ہے جبکہ اپنے حامیوں کو بھی طالبان کے خلاف مزاحمت پر اکسا رہے ہیں۔

 امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود نے لکھا تھا کہ وہ اپنے والد کے قدموں پر چلتے ہوئے طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہیں تاہم انہوں نے امریکہ سے مدد مانگی تھی کہ ان کے جنگجوؤں کو اسلحہ فراہم کیا جائے۔

 افغان انٹیلی جنس ادارے ’این ڈی ایس‘ کے سربراہ رہنے والے امراللہ صالح کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ ایک چھت کے نیچے بیٹھنے کو تیار نہیں ہیں۔

 تاہم تجزیہ کاروں کے خیال میں طالبان کو صوبہ پنجشیر کی جانب سے کسی سنجیدہ نوعیت کے خطرے کا سامنا نہیں ہے۔ پیرس کی سوربورن یونیورسٹی میں افغان امور کے ماہر گیلیس کا کہنا ہے کہ فی الحال مزاحمت صرف لفظوں تک ہی محدود ہے کیونکہ طالبان نے پنجشیر میں داخل ہونے کی کوشش ہی نہیں کی۔

طالبان کو صرف پنجشیر میں داخلے پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے، انہیں اندر جانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

‘ سویڈین کی ایک یونیورسٹی کے محقق عبدالسید کا کہنا ہے کہ اگر طالبان نے وادی کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو ان کا نہیں خیال کہ احمد مسعود چند ماہ سے زیادہ عرصے تک کے لیے مزاحمت جاری رکھ سکیں گے۔ ’فی الحال ان (احمد مسعود) کو مضبوط حمایت حاصل نہیں ہے۔’ 1990 کی دہائی کے آخر میں احمد مسعود کے والد کے ہمراہ لڑنے والے ایک فرانسیسی شخص نے بتایا کہ احمد شاہ مسعود کئی مہینوں سے مزاحمت کی تیاری کر رہے تھے، انہوں نے نوجوانوں کی فوج تیار کی ہوئی تھی جبکہ کئی گاڑیاں، ہیلی کاپٹر اور اسلحہ بھی ان کے پاس موجود تھا۔ احمد مسعود اور امراللہ صالح کا شمار طالبان کے بدترین مخالفوں میں ہوتا ہے تاہم دونوں شخصیات کے تجربات ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں۔ احمد مسعود کئی سال برطانیہ اور ایران میں جلاوطنی میں گزار چکے ہیں اور محدود سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ دوسری جانب امراللہ صالح کئی سال اقتدار میں گزار چکے ہیں اور اشرف غنی کے فرار ہونے کے بعد صدر ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔

پیرس کی سوربورن یونیورسٹی میں افغان امور کے ماہر گیلیس کا کہنا ہے کہ دونوں شخصیات میں شروع سے ہی کشیدگی ہے، احمد مسعود کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے اور پنجشیر کے علاوہ کسی اور صوبے میں مضبوط حمایت حاصل نہیں ہے۔

 اس سے قبل پیرس میں اے ایف پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں احمد مسعود نے کہا تھا کہ اگر کسی بھی گروہ نے زبردستی اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی تو وہ اپنے والد کی طرح ان کے خلاف لڑیں گے۔ احمد شاہ مسعود کے ہمراہ لڑنے والے فرانسیسی جنگجو کا کہنا تھا کہ فارسی بولنے والے پنجیشریوں کے مفادات کی نمائندگی روایتی طور پر سابق وزیراعظم ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ہی کرتے رہے ہیں۔ خیال رہے کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور سابق صدر حامد کرزئی کی جانب سے کابل میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں جاری ہیں۔ جبکہ احمد شاہ مسعود کے دونوں بھائی حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنے والے سیاسی قیادت کے وفد کا حصہ تھے۔