خیراتی اداروں کے 'کندھوں' پرعمر شریف کا جنازہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
شرمناک ،افسوناک اور درد ناک
شرمناک ،افسوناک اور درد ناک

 

 

کراچی / نئی دہلی

یہ پاکستان ہے پیارے ۔ جہاں ایک ایسے انسان کو حکومت نے اس کے آخری سفر کے لیے لاوارث ثابت کردیا جس نے نہ صرف پاکستان کو اپنے مزاح سے دیوانہ بنایا تھا بلکہ اس فن کو نئی بلندی عطا کی تھی۔ وہ انسان جب اپنے آخری سفر پر روانہ ہوا تو اس کو ہر موڑ اور قدم پر خیراتی اداروں کے کندھوں اور سہارے کی مدد ملی۔ مرنے کے بعد بھی کوئی عزت اور احترام نہیں ملا۔ یقینا بھیڑ لگی اور لوگ روئے۔لیکن حکومت سوتی رہی یا اس نے سب کچھ جاننے کے باوجود بھی آنکھیں موندنا ہی بہتر سمجھا۔

یہی وجہ ہے کہ مشہور ترین کامیڈین مانے جانے والے عمر شریف کا کراچی شہر میں آخری سفر فلاحی اداروں کے مرہونِ منت رہا۔ ایئر پورٹ سے سردخانے، گھر اور پھر جنازہ گاہ لے جانے کے تمام تر انتظامات عوامی چندے پر چلنے والے فلاحی اداروں کی جانب سے کیے گئے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی انتظام دکھائی نہیں دیا۔ یہ ایک المیہ تھا ،ایک شرمناک  واقعہ ۔جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایک معمولی سیاستداں اور دہشت گرد کے جناز وں پر قومی پرچم کی روایت کےپاسدار  ملک نے ایک فنکار کو نہ یہ اعزاز بخشا اور نہ سرکاری عنایت کا حقدار  مانا۔

عمر شریف کا جسدِ خاکی بدھ کی صبح جرمنی سے براستہ ترکی کراچی پہنچا، جسے ایئر پورٹ سے سرد خانے منتقل کرنے کے لیے فلاحی ادارے ایدھی کی ایمبولینس وہاں پہلے سے موجود تھی۔ صوبائی حکومت کی جانب سے وزیر اطلاعات سعید غنی ایئرپورٹ پہنچے اور میڈیا سے گفتگو میں انتظامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔

ایئرپورٹ سے جسدِ خاکی کو ایدھی ایمبولینس کے قافلے میں سہراب گوٹھ میں قائم ایدھی سرد خانے لایا گیا، یہ سردخانہ بھی دنیا بھر سے بھیجے گئے چندے اور عطیات کی مدد سے چلتا ہے۔ بعد ازاں جسدِ خاکی کو گھر بھی ایدھی ایمبولینس میں منتقل کیا گیا۔

صرف ایدھی ہی نہیں بلکہ دوسرے فلاحی ادارے بھی اس موقع میں اپنی خدمات پیش کیے ہوئے تھے۔ دیکھنے میں آیا کہ جے ڈی سی نے ایمبولینس خاص طور پر تیار کی تھی، جس کے شیشوں پر عمر شریف کی تصاویر چسپاں تھیں، یہ ایمبولینس سارا وقت ایدھی ایمبولینس کے ساتھ ساتھ رہی، حتٰی کے جنازہ گاہ میں بھی۔

 دوسری جانب جنازہ گاہ میں سارے انتظامات سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کی جانب سے کیے گئے تھے، جن کے رضاکاروں نے جنازے کے شرکا کے لیے ٹھنڈے پانی کی سبیلوں تک کا انتظام کر رکھا تھا۔ سیلانی کے سرپرست اعلیٰ مولانا بشیر فاروق نے ہی عمر شریف کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔

جنازے میں تمام مکتبہ فکر کے افراد موجود تھے، لیکن اداکاروں اور سیاست دانوں کی شرکت نسبتاً کم تھی، بالخصوص حکومتی پارٹی کے سیاست دان اور سلور سکرین کے اداکار۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے نمایاں شخصیات میں وزیر اطلاعات سعید غنی اور ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے گورنر سندھ عمران اسماعیل جنازے میں شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی نمایاں شخصیات جنازے میں نظر نہیں آئیں۔

جنازہ گاہ کے اندر اور باہر فلاحی اداروں کے رضاکاروں کی کثیر تعداد اپنے مخصوس لباس زیبِ تن کیے نمایاں نظر ائے، جن میں سیلانی، ایدھی، چھیپا اور فیضان گلوبل فاؤنڈیشن کے رضاکار شامل تھے۔ 

جے ڈی سی کی جانب سے خصوصی تیار کردہ ایمبولینس میں عمر شریف کا جسدِ خاکی تو نہ لے جایا گیا، البتہ ان کے گھر والوں کو لانے کے کام آئی اور جنازہ گاہ میں اندر تک ایدھی ایمبولینس کے ساتھ ساتھ رہی۔

عمر شریف کے سٹیج کے ساتھی اداکاروں نے تو جنازے میں بھرپور شرکت کی، لیکن عصر حاضر میں سلور سکرین کے معروف ناموں میں سے محض ایک آدھ ہی کوئی اداکار جنازے میں شریک دکھائی دیا۔ جنازہ گاہ میں لوگوں کی بھیڑ اور انتظامات فلاحی ادارے کے ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے آخر میں کچھ بدنظمی نظر آئی جس کی وجہ سے عمر شریف کے جسدِ خاکی کا تابوت ایمبولینس سے نکالنے کی بجائے ایمبولینس میں رکھے ہی جنازہ پڑھایا گیا۔

جنازہ گاہ میں ایمبولینس کی آمد اور روانگی کے وقت فلاحی اداروں کے رضاکار ہی تمام تر انتظامات سنبھالتے اور لوگوں کو ہٹا کر راستہ بناتے نظر آئے۔

جنازے کے ساتھ لوگوں کی بھیڑ کے دوران کئی افراد نے جیب کٹ جانے کا شکوہ بھی کیا۔ جب عمر شریف کا جسد خاکی آخری دیدار کے لیے ان کی رہائش گاہ لایا گیا، تو وہاں چھوٹی سے جگہ میں لوگوں کا خاصا ہجوم تھا۔ 10 سے 12 بارہ افراد نے بعد میں بتایا کہ اس دھکم پیل میں ان کی جیب کٹ گئی اور موبائل یا پرس چوری ہو گیا۔

 ایسے ہی جب جنازہ پڑھایا گیا تو ایمبولینس کے اطراف لوگوں کا رش تھا، جنہیں بارہا فاصلہ اختیار کرنے اور ایمبولینس کو جگہ دینے کے اعلانات کیے جا رہے تھے۔ جنازے کے بعد مائیک سے کافی لوگوں کے پرس یا موبائل چوری ہونے کے اعلانات بھی کیے گئے۔ ایک صاحب روہانسی آواز میں عوام سے مخاطب ہوئے اور بتایا کہ وہ عمر شریف کے شاگرد ہیں اور اسلام آباد سے آئے ہیں، جبکہ ان کا موبائل جنازے کے وقت چوری ہوگیا۔ اس موبائل کے پیچھے ان کا واپسی کا ٹکٹ بھی چسپاں تھا۔

 ان کا کہنا تھا کہ وہ اس شہر میں مہمان ہیں، خدارا مہمان کے ساتھ ایسا نہ کیا جائے ان کا موبائل ان کے لیے بہت قیمتی تھا۔ بعد ازاں عمر شریف کو عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا، جس کی اجازت بہرحال سندھ حکومت نے دی تھی۔