عمران خان کے حامی کیوں شرمندہ ہیں ؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | 2 Years ago
عمران خان کے حامی کیوں شرمندہ ہیں ؟
عمران خان کے حامی کیوں شرمندہ ہیں ؟

 

 

اسلام آباد : عمار مسعود

خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن کا پہلا مرحلہ مکمل کیا ہوا لگتا ہے ملکی سیاست میں زلزلہ آ گیا۔ اچانک لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ون پیج کی دھجیاں اڑ گئیں۔

تحریک انصاف کے سر پر تنی ہوئی چھتر چھایا ہوا ہو گئی، اب عوام کے ووٹ کو عزت ملے گی، اب راج کرے گی خلق خدا وغیرہ وغیرہ

 ان بلدیاتی انتخابات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے یہ پہلا مرحلہ تھا دوسرے مرحلے کی نوبت مارچ تک آنے کا امکان نہیں ہے۔ ابھی17 اضلاع کے انتخابات ہوئے ہیں۔ 18 اضلاع کےانتخابات ابھی باقی ہیں، باقی اضلاع میں کہیں تاریخی طور پر مسلم لیگ ن کی نشستیں ہیں، کہیں اے این پی کا راج ہے اور کہیں مولانا کے مریدین کی آماجگاہ ہے۔

ان باقی ماندہ حلقوں میں پی ٹی آئی کی فتح کے امکانات پہلے مرحلے سے بھی کم ہیں جو انتخابات ہوئے اس میں یہ بات تو واضح طور پر سامنے آئی کہ کہیں بھی منظم دھاندلی کے الزامات نہیں لگے۔ اکا دکا واقعات ضرور ہوئے ہیں مگر 2018 والا عالم کہیں نہیں پایا گیا۔

نتائج کو دیکھ کر لگتا ہے لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے پی ٹی آئی کو مسترد کردیا۔ مسلم لیگ نواز تو دعوی کرتی ہے کہ ایسا ہی نتیجہ 2018 کے عام انتخابات میں بھی تھا مگر اس وقت تبدیلی کے سر پر ون پیج کی چادر تنی ہوئی تھی، اس وقت مثبت رپورٹنگ کا دور تھا۔'

اس وقت ووٹ کی طاقت سے دشمنوں کو شکست دی جا رہی تھی، ان انتخابات میں ایسی صورت سامنے نہیں آئی تو نتیجہ مختلف نظر آنے لگا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ نتیجہ اس بار بھی مختلف نہیں بلکہ 2018 میں مختلف تھا۔ خیبر پختونخوا وہ صوبہ ہے جہاں سے تبدیلی کے سفر کا آغاز ہوا تھا بقول پی ٹی آئی یہیں 350 ڈیم بنے تھے، یہیں کئی ارب درخت لگے تھے، یہیں سب سے پہلے صحت کا سونامی آیا تھا، یہیں تعلیم کا دور آیا تھا، یہیں دنیا کی سب کی سستی بی آر ٹی بنی تھی۔

آٹھ سال بعد خیبر پختونخوا کے عوام کو یقین ہو چلا ہے کہ تبدیلی صرف غریب کے منہ سے نوالہ چھیننے کا نام ہے، تبدیلی نفرت کے شعار کا نام ہے، تبدیلی مہنگائی میں روز بروز اضافے کا نام ہے، تبدیلی مہنگے پٹرول، مہنگے ڈالر اور مہنگی اشیائے خور و نوش کا نام ہے، تبدیلی بے روزگاری اور غربت میں اضافے کا نام ہے۔

تاریخی طور پر خیبر پختونخوا کے عوام بہت باشعور عوام ہیں، وہ ایک جماعت کو ریجیکٹ کرنے کے بعد دوبارہ اس جال میں نہیں پھنستے۔ 2018 میں کے پی کے عوام کے ووٹ سے دھوکہ کیا گیا اور اسی مصیبت کو جس کو وہ پانچ سال پہلے بھگت چکے تھے پھر پانچ سال کے لیے دعوت دے دی گئی۔ آٹھ برسوں میں عوام کی چیخیں نکل گئیں اور اب عوام نے اس تبدیلی سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا۔

وزیراعظم اب چاہے جو بھی کہتے رہیں یہ معاملہ نہ ٹکٹوں کا تھا، نہ آپس کی چپقلش کا۔ یہ معاملہ تھا بدترین گورننس کا، مہنگائی کا۔ سوچیے تو بلدیاتی انتخابات کے اگلے مرحلے تک منی بجٹ آ چکا ہوگا، سینکڑوں اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہو گا، مہنگائی اور غربت سے اور لوگ بھی خود کشی کر چکے ہوں گے، پٹرول اور مہنگا ہو چکا ہوگا، بے روزگاری میں اضافہ ہو چکا ہو گا۔

اس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اگلے مرحلے کے نتائج حکمران جماعت کے حق میں کیا ہوں گے؟ ابھی جو ہوا چل چکی ہے اس کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا۔ اب جو تبدیلی سے لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا ہے وہ اعتماد مارچ کے مہینے تک بحال نہیں ہو سکتا۔ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔

اب نورعالم خان کی بات کو غور سے سننا چاہیے کہ لوگ پی ٹی آئی کا ٹکٹ قبول کرنے سے منکر ہیں، لوگ عوام میں تبدیلی کے نعرے کے ساتھ جانے سے ڈرنے لگے ہیں۔ اب انتخابی بینروں پرعمران خان کی تصویر سے ووٹ بڑھتے نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کی عزت کم ہوتی ہے۔

جو واقعہ شبلی فراز کے ساتھ کوہاٹ میں ہوا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن کیا کیجیے کہ پی ٹی آئی کی سیاست کو عوام نے تمت بالخیر کہنا ہی تھا۔ اس واقعے کے بعد یہ توقع رکھنا کہ کوئی بھی سمجھ دار امیدوار اب پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر بڑے فخر سے الیکشن لڑے گا، بہت بڑی حماقت ہے۔

 یہ بات بہت عرصے سے سمجھائی جا رہی تھی کہ ٹی وی پروگراموں میں بیٹھ کر ثبوت کے بغیر بولنا گورننس نہیں ہے۔ اس سے عوام کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ ایک وقت آئے گا جب آپ کو ان بھوکے ننگے عوام کے حضور پیش ہونا پڑے گا جن پر عرصہ حیات آپ نے تنگ کر دیا تو پھر عوامی رد عمل آپ سے سنبھالا نہیں جائے گا۔ ابھی ہم نے ایک منظر دیکھا ہے، ابھی پنجاب میں بھی انتخاب ہونا ہے، ابھی سندھ میں بھی الیکشن ہونا ہے، ابھی بلوچستان میں بھی عوام کے ہاتھ میں فیصلہ آنا ہے۔

اب عوامی غم و غصے کی لہر صرف سیاست دانوں تک نہیں رکے گی، اب عوام ہر اس شخص سے انتقام لیں گے جو تبدیلی کے نعرے کا چورن بیچتا رہا ہے۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس انتخاب کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت لانے والوں نے توبہ کر لی ہے تو یہ آپ کی خام خیالی ہے، ایسا اتنی جلدی ممکن نہیں ہے۔ عمران خان جیسا وزیر اعظم اسٹیبلشمنٹ کو میسر نہیں آ سکتا۔

 شہباز شریف ہوں یا بلاول ، پرویز خٹک ہوں یا جہانگیر ترین جس طرح بحیثیت وزیراعظم عمران خان نے کام کیا ہے وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ ہاں البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان بلدیاتی انتخابات سے خود کو دور رکھا ہے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔